یہ واشنگٹن کا ایک سکول ہے۔ اس میں سفید فام بچے بھی پڑھتے ہیں۔ افریقی نسل کے بھی‘ زرد جاپانی اور چینی نژاد بھی۔ انہیں یورپ کی تاریخ پڑھائی جا رہی ہے۔ بارہویں تیرہویں صدی کے یورپ کی تاریخ۔ یہ بڑی بڑی زمینداریوں کا زمانہ تھا۔ ہر زمیندار کی اپنی فوج تھی۔ اپنی پولیس‘ اپنی رعایا۔ بادشاہ کو ضرورت پڑتی تھی تو سارے زمینداروں کی فوج اکٹھی کر لی جاتی تھی۔
زمینداروں کی رعایا عجیب و غریب حالت میں رہتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے کچے گھر‘ شدید سردی اور برفباری میں کوئلوں کی انگیٹھی بھی میسر نہیں آتی تھی۔ چند ابلے ہوئے آلو اور بدترین کوالٹی کی روٹی۔ گھروں میں چراغ اتنی ہی دیر جلتے تھے کہ ضروری کام کر لیے جائیں۔ صبح سے شام تک کھیتوں میں کام یا کھڈیوں پر کپڑا بننے اور چاک پر برتن بنانے کا کام۔ آمدنی کا زیادہ حصہ زمینداروں کے منشی لے جاتے تھے۔
زمینداروں کی دنیا اپنی تھی۔ محلات تھے‘ آٹھ آٹھ گھوڑوں کی بگھیاں تھیں‘ بیسیوں ملازم ایک ایک فرد کے لیے تھے‘ پہاڑوں سے گرتے صاف شفاف چشموں کا پانی اس طبقے کے لیے مخصوص تھا جب کہ عام لوگ جوہڑوں‘ تالابوں اور نالوں سے پانی پیتے تھے۔ طبیب اتنے مہنگے تھے کہ عوام کو ان کے نسخوں کی استطاعت ہی نہیں تھی۔
استاد پڑھاتا رہا اور گورے کالے اور زرد بچے دم بخود ہو کر سنتے رہے۔ کیا ایسا زمانہ بھی تھا‘ جب برفباری کے دوران گھروں میں انگیٹھیاں تک نہیں تھیں؟ پانی جوہڑوں سے پیا جاتا تھا؟ کچھ کو یہ داستان غیر حقیقی لگ رہی تھی۔ پیریڈ ختم ہونے کو تھا جب استاد نے اعلان کیا کہ اتوار کے روز طلبہ واشنگٹن کے سب سے بڑے عجائب گھر میں جائیں گے جہاں بارہویں تیرہویں صدی کا یورپ دکھایا جائے گا۔
عجائب گھر کیا تھا‘ گائوں کے گائوں بنے ہوئے تھے۔ یوں جیسے زندہ اور حقیقی ہوں۔ جوہڑوں سے پانی پیتے بچے‘ گھروں سے غلہ اکٹھا کرتے منشی، انہیں روکنے والے روتے بلکتے کسان اور ان کی بیویاں‘ گھوڑوں پر سوار لارڈ اور ان کی فوجیں۔ شفاف چشموں پر قبضہ کرنے والے لارڈز کے سپاہی!
پیر کے دن کلاس میں بحث ہوئی۔ مغرب پر جتنی بھی تنقید کی جائے‘ یہ ماننا پڑتا ہے کہ طلبہ میں خوداعتمادی بلا کی پیدا کی جاتی ہے۔ وہ ہر وہ سوال اٹھا سکتے ہیں جو ان کے ذہن میں بلبلہ بن کر اٹھے۔ خوف ہوتا ہے نہ جھجک۔ کلاس کے آدھے طلبہ نے عجائب گھر میں دکھائی گئی زندگی پر شک کا اظہار کیا۔ ’’یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان جانوروں کی زندگی گزاریں۔ انسان اور جانور کے طرزِ زندگی میں بنیادی فرق کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے!‘‘
استاد سنتا رہا۔ مسکراتا رہا۔ اس نے ایک ایک طالب علم کو بولنے کا موقع دیا۔ پیریڈ ختم ہو گیا۔ چھٹی ہو گئی۔ استاد نے سب کو جانے کی اجازت دے دی۔ طلبہ ایک دوسرے سے ذکر کر رہے تھے کہ استاد نے طلبہ کے موقف کا کوئی جواب نہ دیا اور شکوک و شبہات پر کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا۔
استاد کا ردعمل دوسرے دن سامنے آیا۔ اس نے کلاس کے تمام طلبہ کو حکم دیا کہ رواں ہفتے کے اختتام تک سب طالب علم اپنے اپنے پاسپورٹ لائیں۔ ایک سفر درپیش ہے۔ استاد ہمراہ جائے گا۔
یہ واشنگٹن کے ہوائی اڈے کا ایک گوشہ ہے۔ بیس طالب علم‘ لڑکے لڑکیاں‘ سفید فام‘ سیاہ فام اور زرد فام۔ جمع ہیں‘ ان کے درمیان ان کا استاد کھڑا ہے اور گفتگو کر رہا ہے۔
’’تمہیں عجائب گھر میں بنے ہوئے ماڈل مشکوک لگے۔ تمہارے شکوک و شبہات کی میں قدر کرتا ہوں۔ اس لیے میں تمہیں ایک ایسے ملک میں لے کر جا رہا ہوں جو پورے کا پورا چلتا پھرتا جیتا جاگتا زندہ عجائب گھر ہے۔ تم دیکھو گے کہ وہاں چھوٹے چھوٹے گھر ہیں‘ ایک ایک دو دو کمروں میں دس دس بارہ بارہ افراد رہ رہے ہیں۔ صحن کے ایک کونے میں چولہا ہے۔ لکڑیاں یا اُپلوں پر کھانا پکتا ہے۔ پنکھے لگے ہیں لیکن دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں کم ہی چلتے ہیں۔ برقی بلب کبھی جلتے ہیں کبھی تین تین گھنٹوں کے لیے گل ہو جاتے ہیں۔ لالٹینیں ہیں اور موم بتیاں۔ تنگ گلیاں ہیں۔ تنگ سے چوک پر پانی کا نلکا ہے۔ اس کے ساتھ بالٹیوں‘ دیگچوں‘ گھڑوں‘ پتیلوں کی قطار ہے۔ پانی آئے تو قطار ٹوٹ جاتی ہے۔ کمزور بچے اور بوڑھی عورتیں پیچھے کھڑی رہتی ہیں۔ لاکھوں بچے سکولوں میں نہیں جاتے۔ سارا سارا دن گلیوں میں آوارہ پھرتے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیروں سے کاغذ چتنے ہیں۔ ردی خرید کر فروخت کرتے ہیں۔ ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹ کر پورا پورا دن گزارتے ہیں۔ ریستورانوں میں برتن مانجھتے ہیں۔ چراگاہوں میں بکریاں چراتے ہیں۔ کچھ صوفے مرمت کرنا سیکھتے ہیں۔ بہت سے نلکے بور کرنے والے افغان مہاجروں کے ساتھ مزدوری کرتے ہیں۔ ان لاکھوں بچوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے‘ اسے احاطۂ تحریر میں لایا جا سکتا ہے نہ تصور کے دائرے میں! بوڑھی عورتیں بڑے گھروں میں جھاڑو دیتی ہیں اور بچیوں کے جہیز کے لیے ایک ایک روپیہ اکٹھا کرتی ہیں‘ ملک کی اکثریت جو کھانا کھاتی ہے‘ وہ دال اور سبزی پر مشتمل ہے۔ بے شمار گھر دس یا پندرہ ہزار ماہانہ آمدنی پر گزارا کر رہے ہیں۔ پندرہ دن میں ایک بار بڑے گوشت کے چند چھوٹے ٹکڑے پکتے ہیں جن پر پورا گھرانا منہ کا ذائقہ تبدیل کرتا ہے۔ آبادی کا غالب حصہ جوہڑوں‘ تالابوں اور نالوں سے پانی حاصل کرتا ہے۔ حیران کن یہ ہے کہ آبادی کا بہت بڑا حصہ رفعِ حاجت کے لیے گھروں سے باہر کھیتوں میں یا ٹیلوں کے پیچھے بیٹھتا ہے۔ بہت سے لوگ گلیوں کی نالیوں پر بیٹھتے ہیں۔
’’اسی ملک میں ایک اور طبقہ ہے جو چند لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان کی زندگی کا انداز وہی ہے جو بارہویں تیرہویں صدی میں یورپ کے زمینداروں کا تھا۔ اس طبقے کے لوگ نسل در نسل اس ملک کی منتخب اسمبلی کے لیے چنے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس درجنوں گاڑیاں ہیں۔ ان کے گھروں میں بیسیوں ملازم ہیں جو عملی طور پر غلاموں کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس طبقے کے لیے پروازیں موخر کردی جاتی ہیں۔ انہیں گزرنا ہو تو شاہراہیں بند کردی جاتی ہیں اور راہ گیروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح روک دیا جاتا ہے۔ اس طبقے پر کسی ملکی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ٹریفک کا قانون‘ اسلحہ نہ رکھنے کا قانون‘ ٹیکس دینے کا قانون ایئرپورٹوں اور بندرگاہوں پر کسٹم کا قانون، قتل ڈاکے اور چوری کا قانون‘ دوسرے کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ نہ کرنے کا قانون… کوئی بھی قانون ہو‘ اُن لوگوں پر نہیں نافذ ہو سکتا جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ پولیس اور نوکر شاہی اس طبقے کی غلام ہے۔ یہاں تک کہ یہ تھانوں میں جا کر اپنے لوگ چھڑا کر گھر لے آتے ہیں اور کیا قانون‘ کیا قانون نافذ کرنے والے‘ سب خاموش رہتے ہیں‘ برقی توانائی کا تین چوتھائی حصہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے اور ایک چوتھائی پورے ملک کی آبادی کے لیے۔ اور ایک کام جو بارہویں صدی کے یورپ میں بھی نہیں ہوتا تھا‘ ان لوگوں کے لیے خود حکومت کرتی ہے۔ وہ یہ کہ کروڑوں اربوں روپے یہ لوگ بینکوں سے قرض لیتے ہیں اور حکومت اس قرض کو معاف کر دیتی ہے! کوئی طاقت کوئی قانون کوئی ادارہ اس ظلم کو روک نہیں سکتا‘‘۔
طالب علم جب جہاز پر سوار ہو رہے تھے تو ان کی زبانیں گنگ تھیں۔ چہروں کے رنگ متغیر ہو چکے تھے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“