نازیہ حسن نے اپنے کیریئرکی شروعات 1975 میں پی ٹی وی پر نشر ھونے والے ایک بچوں کے پروگرام 'کلیوں کی مالا' سے کی ، جہاں انہوں نے اپنا پہلا گانا 'دوستی ایسا ناتا' گایا تھا۔
انیس سو اسی میں پندرہ سال کی عمر میں وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔ نازیہ نے ھندوستانی فلمی صنعت میں فلم ’قربانی‘ کے لیے”آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے“ جیسے ھٹ گانے کے ذریعے قدم رکھا۔ اس گانے کی ایک ھفتے میں ھی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ھونے سے فلم شعلے کے البم کا سیلز ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
نازیہ اور زوہیب جب فلم فیئر ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے لیے ھندوستان گئے تو نازیہ بتاتی تھیں کہ انہیں وھاں اس قدر پزیرائی ملی کہ ان کا کہیں بھی آنا جانا مشکل ھو گیا تھا۔ ھر وقت مداحوں کا ایک ھجوم ان کا منتظر ھوتا تھا اور ایسے میں وہ دونوں ھوٹل کے باورچی خانے کے راستے چھپ کر نکلتے تھے۔
”آپ جیسا کوئی“ مسلسل پانچ ھفتوں تک بناکا ھٹ پریڈ پر سر فہرست رھا جس پر نازیہ بے حد خوش تھیں۔ نازیہ حسن کو یقین ھی نہیں تھا کہ ان کے کام کو دنیا بھر میں پذیرائی ملے گی۔ لیکن دونوں بہن بھائیوں نے پاک و ھند کی نوجوان نسل کے مزاج پر گہر اثر ڈالا۔
نازیہ نے ایک دفعہ بتایا کہ جب بھی ھم اپنا البم ریلیز کرتے تو اپنی سانسیں روک لیتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ کہیں یہ البم ھمیں تباہ تو نہیں کر دے گا۔؟؟ مشرقی موسیقی میں انگریزی بول شامل کرنا ایسا ھی ھے جیسے آپ نے ساڑھی کے نیچے ٹینس شوز پہن رکھے ھوں۔ لیکن یہی چیز ھماری پہچان بن گئی۔
راج کپور نے اپنی ایک کتاب میں نازیہ حسن کی تصویر اس کیپشن کے ساتھ شامل کی تھی ”حنا“ یہ وہ لڑکی ھے جس کی وجہ سے میری فلم ”حنا“ بنانے سے رکی رھی۔ نازیہ بتاتی تھیں کہ جب بھی وہ ہندوستان گئیں راج کپور ان سے کہتے تھے ‘بیٹا یہ فلم کر دو.لیکن وہ ھمیشہ انہیں جواب دیتی ”نہیں کرنا ھے“ اور یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رھا۔
موسیقی میں اپنے ابتدائی دنوں کے بارے میں نازیہ بتاتی تھیں کہ جس وقت خوش قسمت بچے ڈونلڈ ڈک کے کارٹون دیکھ رھے ھوتے تھے، وہ اور زوہیب اس وقت میوزک میں مصروف ھوتے تھے۔ ھمارا پورا وقت موسیقی اور پڑھائی کے لیے ھی تھا۔
نازیہ حسن کی زندگی کے آخری سال کینسر کے خلاف لڑتے لڑتے گزرے۔ ان کا پھیپھڑوں کے سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا ھو جانا ان کے مداحوں کے لیے ایک بڑے دھچکے کے مترادف تھا۔آج کے دن پوپ کی ملکہ نازیہ حسن کینسر کے مرض میں مبتلا ھونے کے بعد 13 اگست 2000 صرف 35 سال کی عمر میں بہت ھی ڈیسنٹ نازیہ حسن اپنے کروڑوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر بہت دُور چلی گئی۔
ان کی ازدواجی زندگی بھی مشکلات سے دوچار رھی اور انتقال سے صرف دَس روز قبل ان کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی تھی۔ کہا جاتا ھے کہ وہ موسیقی سے ھونے والی ساری آمدنی کراچی کی پسماندہ بستیوں میں بسنے والے بچوں ، محروم نوجوانوں اور غریب خواتین کی بہبود کے پروگراموں پر خرچ کرتی رھیں۔ وہ نیویارک میں سیاسی تجزیہ کار کے طور پر بھی اقوامِ متحدہ سے بھی منسلک رھیں اور 1991ءمیں انہیں پاکستان کے لیے ثقافتی سفیر مقرر کیا گیا –
انہیں 2002 میں حکومت پاکستان کی طرف سے بعداز وفات پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا.
ایک حالیہ انٹرویو میں دل گرفتہ زوھیب حسن کہہ رھے تھے ، ”میں اُسے کبھی بھلا نہ پاؤں گا“۔ اپنے خوبصورت گیتوں کی وجہ سے وہ اپنے پرستاروں کے دلوں میں آج بھی زندہ ھیں اور ھمیشہ رھیں گی.