آج مجھے صحافت میں 40 برس ہوگئے
آغازِ سفر یاد آرہا ہے۔
1977 میں اسی ماہ میاں افتخار الدین کے بنا کردہ ادارے پروگریسو پیپرز لمیٹد کے با وقار اخبار ’’امروز‘‘ کے عملے میں شامل ہونے کی میری دیرینہ آرزو پوری ہوئی۔
مولانا چراغ حسن حسرت، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، طفیل احمد جمالی، احمد بشیر ، ابن انشأ، شبلی بی کام ،حمید ہاشمی، عبداللہ ملک، حمید اختر، شفقت تنویر مرزا اور منو بھائی جیسے اکابرینِ صحافت کے اس ادارے میں شامل ہونا میرا ایک خواب تھا۔
گیارہ جون 1977 کوایک بزرگ نے چیف ایڈیٹر ظہیر بابر سے ملایا تو انہوں نے ایڈیٹر حمید جہلمی صاحب کے پاس بھیج دیا۔ انہوں نے غیر ملکی اخبارات کے اداریوں کے اقتباسات پر مشتمل ایک تحریر پکڑادی اور کہا کہ ترجمہ کرکے لے آئیں۔ شاید ان کا خیال ہوکہ میں دقیق انگریزی سے گھبرا کر جان چھوڑ جائوں گا۔ اب میرے لئے یہ مسلٔہ تھا کہ شہر میں ہنگاموں کی وجہ سے ہوسٹل بند تھے اور میں ایک ایسے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا جہاں ڈکشنری بھی نہیں تھی۔ بہر حال جیسے تیسے وہ ترجمہ کیا۔ یہ خوف بھی تھا کہ ’’امروز‘‘ میں اسامی کبھی کبھار ہی پیدا ہوتی ہے۔ ترجمہ جہلمی صاحب کے پاس لے گیا تو انہوں نے پڑھا۔ ان کے چہرے پر حیرت اور اطمینان دیکھا توتسلی ہوئی۔ انہوں نے کہا کچھہ سرخیاں بھی بنائیں۔ میں نے بنائیں۔ وہ دیکھہ کر انہوں نے متن اور سرخیاں ویسی کی ویسی کتابت کے لئے بھجوادیں ۔ یہ اگلے دن ادارتی صفحے کے مین آرٹیکل کے طور پر شائع ہوگیا۔
جہلمی صاحب نےکہا کہ چیف نیوز ایڈیٹر اسلم کاشمیری صاحب سے جاکر ملوں۔ ان سے ملا تو انہوں نے نیوز ایڈیٹر فضیل ہاشمی صاحب کے سپرد کیا۔ فضیل ہاشمی صاحب نے پہلے تو بہت سمجھایا کہ فرست ڈویژن ایم اے ہیں آپ، آپ کو اچھی سرکاری نوکری مل جائے گی ۔ یہاں راتوں کی ڈیوٹیاں ہیں ، صحت خراب ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن جب دیکھا کہ میں فیصلہ کرچکا ہوں تو مشورہ دیا کہ ’’فسانۂ آزاد‘‘ نہیں پڑھا تو پڑھ ڈالیں۔
پہلے دن فضیل صاحب نے جو خبریں مجھہ سے بنوائیں ، ان میں سے ایک’’لیڈ‘‘ لگی ۔ سرخی بھی میری بنائی ہوئی استعمال کی ۔ میں نے محض سرخی بنادی تھی ، کتنے کالم لگنی ہے اس کا اندازہ نہیں تھا، ان دنوں بے شمار ذیلی سرخیوں کا رواج نہیں تھا، جوسرخی سنگل کالم لگ سکتی تھی وہی آٹھہ کالمی لیڈ بھی لگ سکتی تھی۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ’’امروز‘‘ میں اپنے پہلے دن بھی لیڈ بنائی اور آخری دن بھی۔
چند ہی ہفتے بعد سپریم کورٹ میں بیگم نصرت بھٹو بنام چیف آف آرمی سٹاف (جنرل ضیأالحق) کیس کی سماعت شروع ہوئی تو استاد محترم فضیل ہاشمی نے اس کی APP کی خبر ترجمے کیلئے میرے سپرد کی۔ میں نے ہچکچاہٹ ظاہر کی کہ یہ سپریم کورٹ اور فوج سے متعلق بہت حساس معاملہ ہے۔ شریف الدین پیرزادہ وغیرہ سیاسی مفکرین کے طویل حوالے دے رہے ہیں، کسی سینئر ساتھی کو دیں تو بہتر ہوگا۔ ہاشمی صاحب نے کہا ’’ نہیں ، یہ آپ ہی کریں گے ، میری ذمہ داری ہے‘‘ اس طرح رہا سہا احساس کمتری بھی انہوں نے کھرچ ڈالا۔ جہاں تک ان کے ذمہ داری قبول کرنے کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ بعد میں بعض معاملات پولیس، عدالت تک بھی گئے توفضیل ہاشمی یا ظہیر بابر نے کسی سب ایڈیٹر کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا، خود ذمہ داری قبول کی۔
آج کل میں جس اخبار میں ہوں، وہ دنیا کا سب سے بڑا اردو اخبار ہے، اس میں میری مدت بھی امروز سے کافی زیادہ ہوچکی ہے لیکن اب بھی مجھے امروز کا حوالہ ہی پسند ہے۔ میں نے اپنے اکلوتے بیٹے کا نام بھی امروز رکھا ہے۔
امروز کے ذکر پر بے شمار لوگ یاد آرہے ہیں۔۔۔ محمد عظیم قریشی، مسعود اشعر ،ہارون سعد،محمود جعفری ، اکبر عالم، عزیز اثری،وحید عثمانی،حیدر علی ، نذیر احمد خاں،اکمل علیمی ،ظفیر ندوی، میاں جمیل اختر ، انعام نجمی علیگ ، ایس ایم سیدین ،مقبول جہانگیر، اظہر جاوید، زبیر حسین، چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ،رخشندہ حسن ،الیاس بیگ، بشیر احمد، محمد حسین فاروق، سعید بدر، بدرالاسلام بٹ، رضاحمید،چودھری خادم حسین ، تنویر زیدی، محمود سلطان، سعید ملک ، عالم نسیم ،جاوید یوسف، محمد خالد، سلیم قریشی، رشید بھٹی، طاہر ندیم ، قیوم کھوسہ ، ممتاز شفیع، فرزانہ ممتاز، وحید منہاس، ممتاز بٹ،رائو عبدالحمید، مولانا اشفاق، خالد محمود ہاشمی، شمس الباری،خالد جاوید یوسفی، محمد صدیق گلزار رقم، احمدعلی ،قاضی محمد ظفر اقبال،عنایت اللہ وارثی، محمد ہاشم ، آرٹسٹ ایس ایم فاروق،غلام رسول منظر اور امام الخطاطین حافظ محمد یوسف سدیدی ، اور اسی ادارے کے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کےعزیز صدیقی، آئی اے رحمنٰ، محمد ادریس، ظفر اقبال مرزا،اشفاق نقوی ، عشرت النسأ، نائلہ عزیز، آپا جان مریم حبیب ، ثنا اللہ ، مخدوم صدیق اکبر، ضیأ الحق،مجید شیخ ۔ ۔ ۔
نواز شریف کے جرائم میں سے ایک ’’امروز‘‘ کا بند کرنا بھی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔