آج کی ادبی تنقید کیوں، کیسے، کس طرح؟
علمی و ادبی حلقوں میں نقاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ مگر جب کتاب اشاعت کے مراحل میں ہو، کتاب پر فلیپ لکھوانا ہو، دیباچہ یا پھر کوئی مضمون لکھوانا مقصود ہو تو شاعر و افسانہ نگار کی آنکھیں ادھر ادھر دیکھنے لگتی ہیں۔ کتاب کی اشاعت کے بعد تقریب رونمائی کا اہتمام کیا جانا ہو، تب بھی ادھر ادھر نظر دوڑا کر نقاد کی تلاش کی جاتی ہے۔ شاعر اور افسانہ نگار کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ تقریب میں گفتگو کا آغاز ایسے ہی جملوں سے ہو گا، ”کتاب مجھ تک بروقت پہنچ نہ سکی کہ میں اس کا عمیق مطالعہ کرتا اور مضمون لکھتا، اور پھر بھی وہ پندرہ بیس منٹ ادھر ادھر کی باتیں کر کے وقت گزار جائے گا۔ جاتے ہوئے تفصیلی مضمون تحریر کرنے کا وعدہ بھی کر جائے مگر شاید ہی کوئی خوش قسمت ہو کہ وہ اپنا خود سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے۔اب تو یہ رسمی جملے بن گئے ہیں اور کوئی ان جملوں کا برا بھی نہیں مانتا۔
سکہ بند قسم کے تنقیدی نقاد وں کا طریقہ واردات الگ ہے۔ وہ پتہ بھی نہیں لگنے دیتے اور حق میں یا خلاف بیان دے کر چلے جاتے ہیں۔کچھ تدریسی نقاد اعدادو شمار اور گنتی میں پڑ جاتے ہیں۔”اس شعری مجموعے میں کتنی غزلیں ’ے‘ اور ’ی‘ کے قافیے یا ردیف کی حامل ہیں۔ کتنی غزلوں کے آخر میں ’ہے‘ یا ’تھے‘کا لفظ آتا ہے“ اور پھر اس کی مدد سے شعری وژن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔کچھ نقاد گھر سے ہی کوئی تنقیدی تھیوری پڑھ کر آتے ہیں اور پھر حلقہ کے اجلاس میں موقع ملتے ہی ایسی تھیوری کے اجزا کو پیش کردہ تخلیق برائے تنقید کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، جس پر سامعین کو اکثر مایوسی ہوتی ہے بعض اوقات وہ اس نام نہاد علمی رعب میں آ جاتے ہیں۔تنقید کا یہ طریقہ کار علمی و ادبی شہرت حاصل کرنے یا رعب ڈالنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اور اس کے کئی طریقے ہمارے ہاں رواج پا چکے ہیں۔اب صورت حال یہ ہے کہ نقاد کے منہ کھولنے سے پہلے ہی وہاں بیٹھے حاضرین کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ گفتگو کرنے والا شخص، کیا گفتگو کرے گا، پھر بھی لوگ خشوع و خضوع کے ساتھ سنتے ہیں۔
عالمی سطح پر تنقید کہاں پہنچ چکی ہے، اس کے بارے میں علمی و ادبی حلقوں اور مجلسی نقادوں تک تو جیسے ابھی تک خبر ہی نہیں پہنچی۔ لفظوں کی ثقافت کا نظریہ، تنقید کی نئی تھیوری، مارکسی تنقید، دریدا کا متن اور ماتن کا تنقیدی ضابطہ، مصنف کی موت،جیسے مباحث ابھی سنجیدگی سے اردو ادب کی مجلسی تنقید کا حصہ نہیں بن پائے۔ دنیا بھر میں ساختیات اور پس ساختیات کے مباحث بھی پرانے ہو چکے ہیں۔ متن اور ماتن کے درمیان ایک الگ طرح کا رشتہ استوار ہو چکا ہے۔ بل کہ اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ متن کے بعدماتن کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اور متن اور قاری کے درمیان ایک نیا رشتہ استوار ہو تا ہے۔ حتمی متن وجود میں آنے کے بعد غیر متبدل ہو جاتاہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ قاری اپنے اکتسابی علم اور حاصل کردہ تجربہ کی مدد سے جب کوئی بھی متن پڑھتا ہے تو اپنی انفرادی سوچ کے ساتھ متن سے رشتہ استوار کرتا ہے اور اپنی سطح پر اس کے معانی طے کرتا ہے۔ متن اور قاری کے باہمی رشتے کے بعد خصوصاً شاعری میں ابہام کے معانی تبدیل ہو گئے ہیں۔ ابہام کو متن کے بجائے قاری کی سمجھ بوجھ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ متن وقت گزرنے کے ساتھ اپنی تفہیم تبدیل کرتا رہتا ہے۔ استعمال ہونے والے الفاظ کچھ متروک ہوتے جاتے ہیں اور کچھ اپنے مفہوم کو نیا رنگ دینے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متن کا ایک نیا تعلق زمان کے ساتھ بھی قبول کیا گیا ہے۔ وقت کے ساتھ متن اپنے سیاق وسباق کے بغیر اپنا مفہوم بدلتا رہتا ہے۔ مکان کے ساتھ متن کا رشتہ ثقافتی رچاؤ ساتھ لے کر آتا ہے۔ لفظوں کی اپنی ثقافت ہوتی ہے جس کے خمیر سے وہ وجود میں آتے ہیں۔ آج کا نقاد لفظوں کی ثقافت کے تناظر میں فن پارے کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ماضی کے مقابلے میں نقاد کا کردار اور اس کی ذمہ داری کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں اپنی مجلسی تنقید میں نئے پیمانوں کو اپنانا چاہئے۔ کچھ نقاد اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ دریافت کرے کہ ایک فن پار ے میں کیا کچھ کہا گیا ہے۔ مگر جدید تنقیدی نظریات کی تھیوریاں اس بات پر اصرار کرتی ہیں کہ ایک نقاد ہمیشہ ایسی باتیں کھوجنے کی کوشش کرتا ہے کہ جو متن میں کہے جانے سے رہ گئی ہیں۔آج نقاد کا کام تنقیص نہیں بل کہ اس سے کہیں زیادہ ہے مگر اردو ادب کی مجلسی تنقید اپنا دائرہ اختیار اپنے موجودہ ضابطے سے آگے بڑھانے کے لئے خود کو ابھی تک تیار ہی نہیں کر پائی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔