آج – 20؍مئی 1965
برہان پور کے ادبی ماحول کی ایک نمایاں شخصیت” زاہدؔ وارثی صاحب “ کا یوم ولادت ۔۔۔۔
نام زاہد حسین انصاری اور قلمی نام زاہد وارثی ہے۔ 20؍مئی 1965ء کو برہان پور میں پیدا ہوئے ۔۔ ایم۔اے۔ ( اردو ) تک تعلیم حاصل کی اور درس تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے ، پچھلے 30 برسوں سے اسی شعبہ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
شعر گوئی کا شوق بچپن سے ہے ، والد اختر وارثی کہنہ مشق شاعر تھے جن کا شعری مجموعہ " رموزِ وفا " کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے ۔
. زاہد وارثی نے ابتدائی غزلوں کی اصلاح استاد خلیق برہان پوری سے لی جو کہ آخری عمر میں بینائی سے محروم ہو چکے تھے ، ان کی وفات کے بعد استاد فاضل انصاری کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔ بعد ازاں استاد اختر آصف سے بھی کلام کی اصلاح لی ۔ مشاعروں کے ذریعہ برہان پور کی نمائندگی کرنے لگے ۔ والد کی وفات کا سانحہ ایسا گزرا کہ نہ صرف مشاعروں سے بلکہ شعر گوئی سے بھی دور ہوگئے ۔۔۔
لیکن قسمت کو یہ منظور نہ تھا، سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا ،فیس بک اور اسٹاکرام سے کلام کی تشہیر ہونے لگی ، وہاٹ سیپ گروپ بننے لگے اور " پاسبانِ شعر و ادب گروپ ، برہان پور سے وابستگی اور مرحوم تسنیم انصاری کی رہنمائی نے قلم کو توانائی بخشی ، اس گروپ میں ملک کے نامور شعراء اور نثرنگار جڑے ہوئے ہیں ، انہی قلمکاروں کی قربت کے سبب زاہد وارثی کا قلم شعری سفر پر نکل پڑا ۔ فرماتے ہیں کہ " مجھے بانی ، باقر مہدی ، اور محمد علوی کے بعد تسنیم انصاری کی شاعری نے سب سے زیادہ متاثر کیا ۔" کلام ملک کے ادبی رسائل میں شائع ہوتا ہے آپ زبان و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ درس و تدریس میں بھی مصروف ہیں ۔۔
اپنی غیر معمولی شعری صلاحیت کے سبب سوشل میڈیا کے ذریعہ برہان پور کی نمائندگی کررہے ہیں ۔۔
شعری مجموعہ زیر ترتیب ہے ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
عصرِ حاضر کے ممتاز شاعر زاہد وارثی کے منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
منتقل ہو گئی مکہ سے مدینہ خوشبو
آپ کے ساتھ بہاروں نے بھی ہجرت کی ہے
—
پی کے بہکوں تو مرے قدموں کو چومے کہکشاں
ہوش میں آوں تو سر سے آسماں اونچا لگے
—
تلوے لہولہان ہیں پھر بھی ہوں گامزن
یہ کون دے رہا ہے سفر کی صدا مجھے
—
تم مجھے یاد کیوں نہیں کرتے
میں تمہیں بھول کیوں نہیں جاتا
—
وہاں میں نے خوشبو کی بنیاد رکھی
جہاں پھول کھلنے کا امکاں نہیں تھا
—
وقت تیری چوکھٹ پر ہاتھ کیوں پساریں ہم
تاج بھی وہی دے گا جس نے سر بنایا ہے
—
کہیں دلوں کے حوصلے نہ توڑ دیں یہ فاصلے
کبھی تو مجھ کو یاد کر کبھی تو یاد آ مجھے
—
بنیاد میں رکھی گئیں صدیوں کی کلفتیں
تب جا کے عشرتوں کی عمارت کھڑی ہوئی
—
چہرہ چہرہ درد پڑھیں
اتنی فرصت کس کے پاس
—
پوچھ ذرا دل کی حالت
بیٹھ کبھی بیمار کے پاس
—
کرلیتے ہیں اک شاخ پہ مل جل کے بسیرا
آنگن میں اٹھا تے نہیں دیوار پرندے
—
اپنے حصے کے بانٹ کر سائے
دھوپ میں زندگی گزارا کر
—
کوئی آواز، نہ آہٹ، نہ اشارہ، نہ قیاس
دل تو دل ہے کہیں رکنے کا بہانہ چاہے
—
دل سے وہ روح میں اترتا ہے
میری سانسوں کے گرم زینوں سے
—
غور سے سن سبق آموز کہانی میری
دھیان سے دیکھ سر بزم تماشہ میرا
—
یوں کسی کا غم لئے بیٹھے ہیں وہ تصویر میں
جیسے اک ویراں حویلی مدتوں سے بند ہو
—
پھر کیسے مرا شیشہ دل ہوگیا ٹکڑے
حالانکہ ترے ہاتھ میں پتھر بھی نہیں تھا
—
میں فکر شعر میں کھویا ہوا ہوں
یہ دریا دور تک بہتا رہے گا
—
یہ اک شوریدہ سر کی ضد ہے زاہد
یہاں دریا نہیں صحرا رہے گا
—
فکر جاناں کریں کہ فکر معاش
کوئی ساعت ملے تو فرصت کی
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
زاہدؔ وارثی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ