ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ کیمیائی سائنسدان تھے جو "نیم" اور پھول دار پودوں پر تحقیق کی وجہ سے مشہور ہیں۔ آپ "ایچ ای جے انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری" کے بانی ڈائریکٹر تھے۔ سائنسی تخصیص کے علاوہ آپ مصور اور شاعر بھی تھے اور آپ کی مصوری کی نمائش ریاستہائے متحدہ امریکہ، ہندوستان، جرمنی اور پاکستان میں ہوچکی ہیں۔
سلیم الزماں صدیقی 19 اکتوبر، 1897ء کو لکھنؤ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لکھنو ٔ میں حاصل کرنے کے بعد وہ علی گڑھ آگئے۔ انہوں نے 1919ء میں علی گڑھ سے گریجویشن کیا ۔ اُس وقت تک وہ ایم۔اے۔او۔ کالج تھا ۔ یونیورسٹی 1920ء میں بنی۔
پھر وہ لندن آگئے اور کچھ دنوں یونیورسٹی کالج لندن میں رہنے کے بعد فرینکفرٹ چلے گئے جہاں سے انہوں نے 1927ء میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ ہندوستان واپس آتے ہی وہ دہلی آگئے اور یہاں کے طبیہ کالج میں حکیم اجمل خاں کی قیادت میں شعبۂ تحقیق برائے آیورویدک اور یونانی طب قائم کیا۔ یہ شعبہ 1931ء میں قائم ہو ا تھا۔ 1940ء میں انہوں نے انڈین کائونسل آف سائینٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں کام شروع کیا اور وہاں دس برس رہے۔
قائدِ ملت لیاقت علی خاں کے اصرار پر وہ 1951ء میں پاکستان آگئے۔ حکومت پاکستان کی ایما پر انہوں نے پاکستان کاؤنسل آف انڈسٹریل اینڈ سائینٹفک ریسرچ قائم کی جس کا مرکز کراچی میں تھا اور اسکی شاخیں ڈھاکہ، راجشاہی، چٹاگانگ، لاہور اور پشاور میں بھی قائم کیں۔ 1966ء میں وہ کائونسل سے ریٹائر ہوئے اور کراچی یونیورسٹی میں حاجی ابراہیم جمال انسٹیٹیوٹ آف کیمکل ریسرچ قائم کیا۔ 1990ء تک وہ وہاں رہے اور اسکے بعد بھی پرائیویٹ کام کرتے رہے۔
ہندوستان میں تحقیق کے دوران سلیم الزماں نے ہندوستانی پودہ سرپاگندھا ﴿Rauvolfiaserpentina﴾ سے ایک دوا بنائی جسکا نام انہوں نے حکیم اجمل کی یاد میں اجملین رکھا۔ اسکا کیمیائی فارمولا (C21H24N2O3)ہے۔ یہ دل کی غیر منظم دھڑکنوں (ARRYTHMIA) کا علاج کرتی ہے۔
انہوں نے نیم کے درخت ، اسکی چھال اور اسکے پھل یعنی نمکوری پر تحقیق کی۔ انہوں نے نیم کے تیل سے تین دوائیں بنائیں اور انکا نام نیمبین، نیمبیدین اور نیمبینین رکھا۔ انہوں نے بتایا کہ نیمبیدین میں جراثیم کُش اثرات ہوتے ہیں، اسطرح سے انکی تحقیق نے پہلی بار یونانی اور آیورویدک طب کو جدید کیمسٹری میں متعارف کروایا۔
1961ء میں وہ رائل سوسائٹی کے ممبر منتخب ہوئے۔ سوویٹ اکیڈمی آف سائینس نے انکو ایک گولڈ میڈل دیا۔ اور حکومت برطانیہ نے 1946ء میں انکو او۔بی۔ای ۔ کا خطاب دیا۔
پاکستان میں سلیم الزماں کی خدمات کوبہت سراہا گیا۔ 1953ء میں وہ پاکستان اکیڈمی آف سائنس کے فیلو قرار پائے۔ 1958ء میں انکو تمغۂ پاکستان ملا۔ 1962ء میں انکو ستارۂ امتیاز ملا۔ 1966ء میں انکو صدر پاکستان کا امتیازی انعام صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی دیا گیا۔ 1980ء میں انکو ہلال امتیاز ملا۔
سلیم الزماں صدیقی تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنس کے اساسی رکن بھی رہے۔ انکی پانچویں برسی پر پاکستان پوسٹ نے انکا یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔
یہ قراردادِ پاکستان کی حمایت کرنےوالے چوہدری خلیق الزماں صدیقی کے چھوٹے بھائی تھے۔
ان کے مطابق ہرمل نامی جڑی بوٹی میں غالباٗ بارہ فیصد تک بےرنگ بےبو اور بےذائقہ خوردنی آئل ہوتا ہے جس پر اگر کام کیا جائے تو ہماری مارکیٹ کی ضرورت بہت حد تک پوری ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹرعطاءالرحمان جب پی ایچ ڈی کے لئے باہر جانا چاہتے تھے تو ان کی یونیورسٹی نے شرط رکھی تھی کہ اگر وہ ڈاکٹر صدیقی سے لیٹر لکھوا لائیں تو انکو داخلہ دے دیا جائے گا۔بعد ازاں ڈاکٹر عطاالرحمان انہی کے قائم کردہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر بھی رہے۔
چاند یا چھوٹی چندن نامی بوٹی سے انہوں نے متعدد الکلائڈ دریافت کیے ۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک الکلائڈ کا نام اجملین رکھا گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس وقت وہ حکیم اجمل خان کی لیبارٹری میں ہی تحقیق کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ چھوٹی چندن کا بایولوجیکل نام راولفیا ہے۔ ۔۔۔۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیم پر بھی قابل قدر تحقیق کی۔ اجملین اور آئسو اجملین جیسے الکلائڈ امراض قلب خصوصاً Arrhythmia کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ دیگر الکلائڈ ذہنی امراض کے علاج میں کارآمد ہیں۔ نیم کے پتوں، چھال اور جڑوں سے انہوں نے 50 سے زائد دریافتیں کیں اور انہیں پیٹنٹ کرایا۔ یہ دریافتیں، بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور کیڑوں کے خلاف موثر پائی گئیں
۔۔۔۔۔۔۔
الیکشن سیاہی کا قصہ
جب ڈاکٹر سلیم الزماں 1940 میں انڈین کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ڈویلمپنٹ ( آئ سی ایس آر) نئی کلکتہ کے سربراہ تھے تو اس وقت ڈاکٹر شانتی سروپ بھٹناگر انچارج تھے اور انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو الیکشن میں جعلی ووٹنگ کو روکنے کیلئے الیکشن انک بنانے کو کہا۔
اس کے لئے ایک نمونہ ان کے پاس آیا جو رنگ چھوڑنے میں بہت وقت لگارہا تھا اس میں موجود سلور کلورائیڈ کو سلیم الزماں نے سلور برومائیڈ سے بدلا اور اسی شخص کے ہاتھوں واپس کردیا جو یہ نمونہ لے کر آیا تھا۔ بھٹناگر اور ان کے آٹھ ساتھیوں نے اسے آزمایا اور فوراً رنگ آگیا۔
الیکشن انک کا یہی فارمولہ آج بھی پاک و ہند میں استعمال ہورہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
عہدے اور اعزازت
۔۔۔۔۔۔
کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ " 1927ء جرمنی ریسرچ سائنٹسٹ، انڈین کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ 1940ء ڈائریکٹر نیشنل کیمیکل لیبارٹریز، انڈیا، فروری 1947ء
پاکستان آمد : 1951ء (لیاقت علی خان کی دعوت پر)
بانی، ڈائریکٹر، صدر ۔۔۔۔ پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ : 1953ء تا 1966ء بانی پاکستان اکیڈمی آف سائنسز 1953ء ممبر ٹیکنیکل، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن 1956ء پروفیسر اینڈ ڈائریکٹر ریسرچ، کراچی یونیورسٹی 1966ء بانی حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری
فیلو رائل سوسائٹی آف لندن 1961ء
ممبر ویٹی کن اکیڈمی آف سائنس 1964ء
سوویت اکیڈمی آف سائنسز سے گولڈ میڈل
لیڈز یونیورسٹی برطانیہ سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری 1967ء
کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری 1967ء
برطانوی حکومت کی جانب سے "ایم بی ای" کا اعزاز 1964ء
حکومت پاکستان سے ستارہ امتیاز 1962،
صدارتی تمغا 1966، ہلال امتیاز 1980ء
بانی رکن، تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز 1983ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدان ہونے کے علاوہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ایک اچھے شاعر، موسیقار اور مصور بھی تھے۔ 1924ء اور 1927ء میں ان کی پینٹنگز کی نمائشیں فرینکفرٹ جرمنی میں ہوئیں۔ ان کا کیا ہوا جرمن شاعری کا اردو ترجمہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مجلے میں بھی شائع ہوا۔ سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس کراچی کے قیام میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا انتقال 14 اپریل 1994ء کو کراچی میں ہوا اور انہیں کراچی یونیورسٹی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود