سب سے شعلہ مزاج ترقی پسند شاعر، قادر الکلام اور انقلابی شاعر” جوشؔ ملیح آبادی صاحب“ کا یومِ وفات ہے۔ جوشؔ ملیح آبادی ، نام شبیّر احمد خاں، تبدیل شدہ نام شبّیر حسن خاں، تخلص جوشؔ۔ ۵؍دسمبر ۱۸۹۸ء کو ضلع ملیح آباد (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ جوش نے شعری فضا میں آنکھ کھولی۔ جوش کی شاعری تیرہ سال سے شروع ہوگئی تھی۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح لی، مگر بعد میں اپنے وجدان و ذوق کو رہبر بنایا۔ والد کے انتقال کے بعد جوش سینیئر کیمبرج سے آگے تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ جوش جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کے دار الترجمہ میں کافی عرصہ ملازم رہے۔ اس کے بعد دہلی سے اپنا رسالہ ’کلیم‘ جاری کیا۔ بعد ازاں حکومت ہند کے رسالہ ’’آج کل‘‘ کے مدیر اعلا منتخب ہوئے۔ آزادی کے بعد بھی جوش کچھ عرصہ ہندوستان میں رہے۔ اس کے بعد پاکستان آگئے اور اردو ترقیاتی بورڈ، کراچی کے مشیر خاص مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے بعد ملازمت کا یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ ۲۲؍فروری ١٩٨٢ء کو انتقال کرگئے۔ ان کے شعری مجموعوں کے نام یہ ہیں:
’روحِ ادب‘، ’نقش و نگار‘، ’شعلہ وشبنم‘، ’فکرونشاط‘، ’جنون وحکمت‘، ’فرش وعرش‘، ’سیف وسبو‘، ’الہام و افکار ‘، ’رامش و رنگ ‘، ’آیات ونغمات‘، ’سرود وخروش‘ ،’سموم و صبا ‘۔
ان کا کچھ کلام غیر مطبوعہ بھی ہے ۔ وہ ایک قادر الکلام اور عہد آفریں شاعر تھے۔ اقبال کے بعد جوشؔ نظم کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔
شاعرِ انقلاب جوشؔ ملیح آبادی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت
اب اے خدا عنایتِ بے جا سے فائدہ
مانوس ہو چکے ہیں غمِ جاوداں سے ہم
اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی
وہ آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا
اب دل کا سفینہ کیا ابھرے طوفاں کی ہوائیں ساکن ہیں
اب بحر سے کشتی کیا کھیلے موجوں میں کوئی گرداب نہیں
اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا؟
زیست ہے جب مستقل آوارہ گردی ہی کا نام
عقل والو ! پھر طوافِ کوئے جاناں کیوں نہ ہو
ادھر تیری مشیت ہے ادھر حکمت رسولوں کی
الٰہی آدمی کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے
اللہ رے حسنِ دوست کی آئینہ داریاں
اہلِ نظر کو نقش بہ دیوار کر دیا
اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
جو دیکھے ہے کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
انسان کے لہو کو پیو اذنِ عام ہے
انگور کی شراب کا پینا حرام ہے
اک نہ اک ظلمت سے جب وابستہ رہنا ہے تو جوشؔ
زندگی پر سایۂ زلف پریشاں کیوں نہ ہو
پہچان گیا سیلاب ہے اس کے سینے میں ارمانوں کا
دیکھا جو سفینے کو میرے جی چھوٹ گیا طوفانوں کا
بہت جی خوش ہوا اے ہمنشیں کل جوشؔ سے مل کر
ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں
دنیا نے فسانوں کو بخشی افسردہ حقائق کی تلخی
اور ہم نے حقائق کے نقشے میں رنگ بھرا افسانوں کا
ذرا آہستہ لے چل کاروانِ کیف و مستی کو
کہ سطح ذہن عالم سخت نا ہموار ہے ساقی
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا
چراغِ مجلسِ روحانیاں جلاتا جا
محفل عشق میں وہ نازشِ دوراں آیا
اے گدا خواب سے بیدار کہ سلطاں آیا
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
کشتیٔ مے کو حکمِ روانی بھی بھیج دو
جب آگ بھیج دی ہے تو پانی بھی بھیج دو
کسی کا عہد جوانی میں پارسا ہونا
قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی
ہم گئے تھے اس سے کرنے شکوۂ دردِ فراق
مسکرا کر اس نے دیکھا سب گلا جاتا رہا
دامنِ جوشؔ میں پھر بھر کے متاعِ کونین
خدمتِ پیرِ مغاں میں پئے نذرانہ چلیں
**
آپ جوشؔ ملیح آبادی کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔