آج 22؍فروری نئی نسل کی معروف نمائندہ شاعرہ” سبیلہؔ انعام صدیقی صاحبہ “ کا یومِ ولادت ہے۔ نام سبیلہ انعام صدیقی ،٢٢؍فروری کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔سبیلہ انعام صدیقی نے بیچلرز ان کامرس اور پھر ماسٹرز ان اکنامکس کیا ہے جبکہ ابھی مزید تعلیم حصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں
انڈیا سے چھپنے والی” لوری“ پہ پہلی کتاب میں بھی ان کا کلام شامل ہوا۔ اُن کی شاعری کےمطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اُن کا شعری اظہار نہ صرف نئی فکر اور جذبات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ زندگی سے حاصل شدہ نت نئے تجربات کا رس بھی پیش کرتا ہے۔ سبیلہ کے پاس الفاظ کے استعمال کا خوب صورت انداز پایا جاتا ہے۔
سبیلہ عالمی مشاعرے میں بھی شریک ہوچکی ہیں۔اس کے علاوہ 2014 اور 2016 میں بطور نئی نسل کی شاعرہ کے عمدہ کارکردگی پہ ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں اور” 2015″میں مختلف شعراء کے منتخب کلام پہ مبنی کتاب “دی ٹیلنٹ انٹرنیشنل 2015” میں بھی ان کے دو کلام کو شامل کیا گیا ۔ اس کے علاوہ 2015 میں شہدائے پشاور کی یاد میں ایک کتاب” رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو “ میں بھی ان کا کلام شامل کیا گیا ۔
معروف شاعرہ سبیلہؔ انعام صدیقی کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ تحسین
وفا کے راز سے پردہ نہیں اٹھاؤں گی
میں دل کے زخم تہِ دل سے ہی چھپاؤں گی
اگر تمہاری نگاہوں میں یہ کھٹکتا ہے
سنو میں آج سے کاجل نہیں لگاؤں گی
اداس دل ہو تو گلشن بھی آہ بھرتا ہے
یہ سچ ہے روتے ہوئے دل سے مسکراؤں گی
جو مجھ پہ گزری ہے اشکوں سے وہ عبارت ہے
جو نقشِ دل میں ہے کیسے اسے مٹاؤں گی
ہر ایک بات کو سن کر جو ان سنی کر دے
اسے میں درد کی روداد کیا سناؤں گی
کبھی تو آئے وہ اے زندگی مرا بن کر
قسم خدا کی میں راہوں کو بھی سجاؤں گی
جو میرے دل کی صدا ہی نہ سن سکا تو پھر
اسے میں نوحۂ دل کس طرح سناؤں گی
تمہارا ساتھ مقدر میں گر نہیں ہے لکھا
تو یاد بن کے میں دل میں کہیں سماؤں گی
جو خواب دیکھے ہیں دل ان سے کیوں الجھتا ہے
میں اب یہ فلسفہ شاید سمجھ نہ پاؤں گی
وہ جب ملے تو یہ اس سے ضرور کہہ دینا
وہ اس برس بھی نہ آیا تو مر ہی جاؤں گی
یقیں ہے رب پہ سبیلہؔ وہ میری سن لے گا
میں ہو کے با وضو ہاتھوں کو جب اٹھاؤں گی
وہ عالم تشنگی کا ہے سفر آساں نہیں لگتا
بظاہر تو مجھے بارش کا بھی امکاں نہیں لگتا
یہ دل جاگیر ہے جس کی اسی کے نام کر دی ہے
جو میرے دل کے آنگن میں مجھے مہماں نہیں لگتا
شعور و آگہی کیسی کوئی وحشی کوئی سرکش
یہ کیسا دیش ہے جس میں کوئی انساں نہیں لگتا
نئی قدریں نئی تہذیب کا آغاز ہوتا ہے
گلستان ادب ہرگز کبھی ویراں نہیں لگتا
نہ ہو محفوظ مال و زر نہ عزت آبرو ہی جب
تو پھر زندہ کسی کا بھی مجھے ایماں نہیں لگتا
کہاں کا فخر کیسا ناز من آنم کہ من دانم
مگر جو رب سے پایا ہے مجھے ارزاں نہیں لگتا
خدا رکھے سبیلہؔ ہر گھڑی ماں باپ کا سایہ
دعا سے جن کی طوفاں بھی مجھے طوفاں نہیں لگتا
میں دریا ہوں مگر دونوں طرف ساحل ہے تنہائی
تلاطم خیز موجوں میں مری شامل ہے تنہائی
محبت ہو تو تنہائی میں بھی اک کیف ہوتا ہے
تمناؤں کی نغمہ آفریں محفل ہے تنہائی
بہت دن وقت کی ہنگامہ آرائی میں گزرے ہیں
انہیں گزرے ہوئے ایام کا حاصل ہے تنہائی
ہجوم زیست سے دوری نے یہ ماحول بخشا ہے
اکیلی میں مرا کمرا ہے اور قاتل ہے تنہائی
مرے ہر کام کی مجھ کو وہی تحریک دیتی ہے
اگرچہ دیکھنے میں کس قدر مشکل ہے تنہائی
اسی نے تو تخیل کو مرے پرواز بخشی ہے
خدا کا شکر ہے جو اب کسی قابل ہے تنہائی
محبت کی شعاعوں سے توانائی جو ملتی ہے
اسی رنگینیٔ مفہوم میں داخل ہے تنہائی
خدا حسرت زدہ دل کی تمناؤں سے واقف ہے
دعائیں روز و شب کرتی ہوئی سائل ہے تنہائی
کسی کی یاد ہے دل میں ابھی تک انجمن آرا
سبیلہؔ کون سمجھے گا کہ میرا دل ہے تنہائی