ایک ایک پیسہ جوڑ کر سالہا سال اپنا اور بال بچوں کا پیٹ کاٹتا رہا اور یوں زندگی میں پہلی بار میرے پاس ایک لاکھ روپے جمع ہوئے۔
دوستوں نے مشورہ دیا کہ چوری چکاری عام ہے بہتر ہے اسے بنک میں جمع کرادو۔بنک گیا تو گارڈ نے اندر جانے سے روک دیا۔پوچھنے لگا رقم جمع کرانے آئے ہو یا نکلوانے؟ میں نے بتایا کہ جمع کرانے آیا ہوں۔کہنے لگا اس کا مطلب ہے تم سرمایہ دار ہو۔اندر جانے سے پہلے اپنی قمیض اتار کر میرے حوالے کرو ۔میں نے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔اس کی دلیل یہ تھی کہ ڈار صاحب نے آئی ایم ایف کی ساری شرطیں مان کر اس کا یعنی گارڈ کا کشکول تک توڑ دیا ہے اور اب وہ بالکل تہی دست یعنی خالی ہاتھ ہے۔مرتا کیا نہ کرتا ، قمیض اس کے حوالے کی اور یوں بنک منیجر تک رسائی ہوئی۔وہ ایک ان پڑھ کلائنٹ سے نمٹ رہا تھا۔لمبی داڑھی والے اس شخص نے سر پر بڑا سا پگڑ باندھ رکھا تھا اور ایک ایسی زبان میں بات کررہا تھا جو مجھے نہیں آتی تھی۔اس نے چادر اوڑھ رکھی تھی۔بنک منیجر اس کے سامنے بچھا جاتا تھا۔کافی دیر گفتگو ہوتی رہی۔پھر پگڑ والے شخص نے چادر سے کرنسی نوٹوں کے پلندے نکالنے شروع کیے یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا یہاں تک کہ بنک منیجر کی میز، سائیڈ ٹیبل اور دفتر کی خالی جگہ نوٹوں کے بنڈلوں سے بھر گئی۔ منیجر نے کیشئر کو بلوا کر ان نوٹوں کی گنتی کرنے کا حکم دیا۔اس پر پگڑ والے شخص نے انتہائی درشتی سے منیجر کو کچھ کہا۔ منیجر نے فوراً اس کے آگے ہاتھ جوڑے ۔ایک رسید اس کے حوالے کی جسے لینے کے بعد پگڑ والا شخص اٹھ کر چلا گیا۔جاتے وقت میں نے اس کی چادر کے ایک کونے سے لوہے کی ایک نالی نما شے کی ہلکی سی جھلک دیکھی جس پر مجھے بغیر کسی وجہ کے جھرجھری سی آگئی۔
بنک منیجر نے مجھ سے پوچھا کہ کتنی رقم جمع کرانی ہے میں نے بتایا کہ پورے ایک لاکھ روپے۔اس پر اس کا رویہ میرے ساتھ متکبرانہ ہوگیا اور وہ فوراً آپ سے تم پر آگیا۔میں نے پوچھا کہ یہ پگڑ والا شخص کون تھا اس پر اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا ۔ہکلا کر کہنے لگا، میاں ! زندہ رہو اور رہنے دو اور بیکار سوال مت پوچھو۔اتنے میں اس کا کیشئر آگیا اس نے کیشئر کو بتایا کہ یہ کرنسی نوٹ بنک کی تجوری میں جمع کرلو یہ دو کروڑ روپے ہیں۔ کیشئر نے کہا کہ وہ خود گنتی کرے گا۔اس پر منیجر نے اسے بتایا کہ وہ جمع کرانے والے شخص کے سامنے گنوانا چاہتا تھا لیکن اس نے کہا کہ گننے کی ضرورت نہیں جب وہ دو کروڑ کہہ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ دو کروڑ روپے ہیں۔یہ کہتے ہوئے اس کی یعنی پگڑ والے شخص کی آنکھوں میں ایک عجیب سا خلا در آیا تھا جس سے اس پر یعنی بنک منیجر پر لرزہ سا طاری ہوگیا تھا۔
بنک منیجر نے رقم جمع کرنے سے پہلے مجھ پر واضح کیا کہ جمع کرتے وقت بھی ٹیکس دینا پڑے گا اور نکالتے وقت بھی۔اس نے یہ بھی بتایا کہ نکلواتے وقت جو ٹیکس کاٹا جاتا ہے وہ ڈار صاحب نے دو گنا کردیا ہے سبب پوچھا تو منیجر نے دانت نکال کر جواب دیا کہ ڈار صاحب نے پرانا کشکول توڑ دیا ہے اور نیا بنوانے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کردیا ہے۔
حساب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ جمع کراتے وقت پانچ ہزار روپے کا ٹیکس اور نکلواتے وقت دس ہزار روپے کا ٹیکس دینا پڑے گا۔ یعنی ایک لاکھ میں سے 15ہزار روپے کم ہوجائیں گے۔میں نے فیصلہ کیا کہ اس سے بہتر یہ ہے کہ رقم گھر ہی میں پڑی رہے ۔ اٹھ کر جانے لگا تو بنک منیجر نے کہا کہ ایک ہزار روپے دیتے جائیں۔میں نے پوچھا کس بات کے ، کہنے لگا کہ یو پی ایس فنڈ کے لیے ، میں نے اسے بتایا کہ میں سرکاری ملازمت کرتا رہا ہوں اور یہ کہ مجھے قوانین کا پورا پورا علم ہے۔بنک میں یو پی ایس تو بنک کا ہیڈ آفس مہیا کرتا ہے منیجر ہنسا اور کہنے لگا یہ یو پی ایس فنڈ محلے کے بھتہ آفس کا ہے! بات معقول تھی چنانچہ میں نے ایک ہزار روپے اسے ادا کردیے۔
ننانوے ہزار روپے کی رقم لے کر گھر واپس پہنچا۔ابھی بیوی سے مشورہ ہی کررہا تھا کہ کہاں رکھی جائے کہ گھنٹی بجی۔بیٹا باہر دیکھنے گیا کہ کون آیا ہے۔واپس آیا تو خوف کے مارے کانپ رہا تھا۔اس نے میرے سامنے ایک پرچی رکھی جس پر لکھا تھا
پرچی برائے بھتہ
پچاس ہزار روپے کی رقم آج شام تک میرے حوالے کی جائے۔
شمعون خاکروب۔
بیٹے سے میں نے کہا یہ کیا بکواس ہے۔ شمعون تو ہمارا خاکروب ہے۔وہ ہم سے کس طرح بھتہ مانگ سکتا ہے؟
بیٹے کی گھگھی بندھی ہوئی تھی ۔ہلکاکر کہنے لگا ۔اباجی آپ خود باہر جاکر اسے ملیں۔شمعون کے تو تیور ہی اور ہیں۔
میں غصے سے کانپتا ہوا باہر گیا۔شمعون بڑی بدتمیزی سے دونوں بازو سینے پر باندھے کھڑا تھا۔مجھے دیکھتے ہی بولا۔ ’’صاحب جی، آپ کے پاس ایک لاکھ روپے کی رقم ہے پچاس ہزار روپے بھتے کے میرے حوالے کردیں۔اسی میں آپ کی عافیت ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ کیا بکواس کررہے ہو۔ تنک کر بولا نہیں دیں گے تو عدالت میں جائوں گا اور آپ کے خلاف کیس کردوں گا۔ پھر کہنے لگا کہ بھتہ دینے کی صورت میں وہ باقی پچاس ہزار روپے کی مکمل حفاظت کی ذمہ داری لے گا اور کوئی شخص بھتہ مانگے گا نہ ڈاکہ ڈالے گا۔ میں نے کہا یہ تو بعد کی بات ہے۔ پہلے یہ بتائو کہ عدالت جانے کی دھمکی کیسے دے رہے ہو۔ کیا عدالت بھتہ مانگنے پر تمہاری دادرسی کرے گی؟ کہنے لگا صاحب جی! بھتہ قانونی طور پر جائز ہوچکا ہے۔اسی لیے تو اسلام آباد سے لے کر کراچی تک اور کوئٹہ سے لے کر لاہور تک ہر شہر میں بھتہ لیا جارہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھتہ لینے والوں کا بھی علم ہے اور دینے والے اداروں کا بھی۔ دکاندار کارخانہ دار، تاجر، پراپرٹی ڈیلر، کاروں کے شو روم والے، سب کھلے عام بھتہ دے رہے ہیں، صدر، وزیراعظم، صوبائی وزرائے اعلیٰ، مسلح افواج، ایجنسیاں، سب کو معلوم ہے اور سب خاموش ہیں۔ آپ خود بتایئے‘ یہ کام غلط ہوتا تو یہ سب کیسے خاموش رہ سکتے تھے؟ اور پولیس والے بھتہ خوروں کی سرپرستی کس طرح کرسکتے تھے؟
بات معقول تھی میرا سر چکرا گیا۔ اگر بھتہ خوری ناجائز ہوتی تو وزیراعظم پہلے اس لعنت کا قلع قمع کرتے اور بلٹ ٹرینوں کے منصوبوں پر بعد میں غور کرتے۔ اگر لاکھوں کروڑوں افراد اور ادارے بھتہ دے رہے ہیں اور ملک کے وزیراعظم، صدر اور آرمی چیف نے اس بارے میں آج تک ایک لفظ بھی نہیں کہا تو ظاہر ہے کہ یہ جائز ہے۔
میں اندر گیا اور پچاس ہزار روپے لا کر شمعون خاکروب کے حوالے کردیے۔ اب میرے پاس انچاس ہزار روپے تھے لیکن اطمینان یہ تھا کہ مکمل طور پر محفوظ تھے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور صوفے پر نیم دراز ہو کر ٹیلیویژن آن کیا۔ ایک تقریب کا آنکھوں دیکھا حال بتایا جارہا تھا۔ وفاقی کابینہ کے ارکان ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ پاکستان کے حصے میں ایک اور اعزاز آیا تھا۔ پوری دنیا میں پاکستان واحد ملک تھا جہاں اغوا برائے تاوان ایک انڈسٹری بن چکا ہے۔ محفوظ ترین سرگرمی ہے اور زوروں پر ہے۔ اس حوالے سے ہمارے ملک کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آیا تھا اور اس خوشی میں کابینہ کے ارکان معانقے کررہے تھے۔
مجھے ایک بار پھر جھرجھری آگئی!