مہر عبدالستار اور دیگر مزارعین راھنماؤں کو رھا کرو، تمام مزارعین راھنماؤں کے خلاف جھوٹے مقدمات واپس لو
زرعی اصلاحات، پانی، زمینیں اور کسانوں کے حقوق کی عالمی مہم جاری رھے گی
کسانوں کی عالمی تنظیم لا ویا کمپیسینا (La Via Campesina) اور پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کا اعلان
سترہ اپریل کسانوں کی جدوجہد کا عالمی دن ہے۔ اس روز برازیل کے شہر الدورادو دوکاراجاس ( Eldorado do Carajá) میں 19 بے زمین کسانوں کا اس وقت قتل عام کیا گیا تھا جب وہ جاگیرداری کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کر رھے تھے،
پاکستان میں جب 17 اپریل 2016 کو اوکاڑہ کے گاؤں 4/4L ملٹری فارم پر انجمن مزارعین پنجاب اور پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری مہر عبدالستار نے کسانوں کے عالمی دن پر ایک جلسے کا اعلان کیا تو انہیں دو روز قبل انکے گھر سے گرفتار کر لیا گیا، اس سے قبل کئی اور کسان اور مزارعین راھنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں شبیر چوھدری، ندیم اشرف، ملک سلیم جھکڑ اور دیگر شامل تھے۔ بعد میں نور نبی اور حافظ حسنین کو بھی پابند سلاسل کیا گیا۔
ان کی رھائی کے لئے کسان اور مزارع عورتوں سمیت درجنوں کو پابند سلاسل کیا گیا اور اوکاڑہ میں ایک طرز کا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔
مہر عبدالستار اب بھی دس سال کی جیل بھگت رھے ہیں۔ ان کا قصور بھی برازیل کے بے زمین شہید کسانوں کی طرح کا تھا کہ جو زمین سو سال سے کاشت کر رھے ہیں اسے ہمارے نام کیا جائے۔
17 اپریل 2018 کو نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 73 سیشن میں دنیا بھر کے ممالک نے کسانوں اور دیہاتوں میں رھنے والے دوسرے محنت کشوں کے حقوق کا چارٹر منظور کر لیا،
پاکستان بھی اس چارٹر کے حق میں اقوام متحدہ میں ووٹ دینے والے ملکوں میں شامل تھا۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے اس چارٹر کی تیاری میں La Via Campisena کا ساتھ دیا تھا۔
یہ ڈیکلریشن ایک عالمی قانونی دستاویز ہے، ہم اپنے اپنے ممالک میں اس ڈیکلریشن میں درج حقوق پر عمل درآمد کرانے کے لئے پوری کوشش کریں گے۔ اس کے مطابق ریاست کی زمہ داری ہے کہ زمینیں کسانوں کے نام کرے، ان مقامی بیجوں کی حفاظت کرے جسے کمرشلائز کرنے کی کوششیں کی جا رھی ہیں۔ زمینوں سے بے دخلیاں بند کی جائین۔ اگرو کیمکلز کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔ اور سماجی انصاف مہیا کیا جائے یعنی جو دنیا کو فیڈ کرتے ہیں انہیں ایک باعزت زندگی گزارنے کا موقع فراھم کیا جائے۔ اگر وہ زمینوں کی ملکیت کا مطالبہ کرتے ہیان تو ان کو ریاستی جبر کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
آج کسانوں کو زمینوں سے بے دخل کر کے زمینوں پر شہری آبادیاں بنائی جا رھی ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے مالکان قدیمی ھاریوں اور کسانوں کو ریاستی و غیر ریاستی جبر کے ساتھ زمینوں سے بے دخل کر رھے ہیں۔ ڈیفنس ھاوسنگ سوسائٹیاں تعمیر ہو رھی ہیں اور کسانوں سے اونے پونے داموں یا جبر کے ساتھ زمینیں چھینی جا رھی ہیں۔
ایک نیو لبرل پالیسیوں کا حملہ جاری ہے اور بے زمین اور چھوٹے کسان، مزارعین اور ھاری اس کے نشانہ پر ہیں۔
ہم 17 اپریل کسانوں کے عالمی دن کے طور پر لاھور میں منا رھے ہیں۔ ہم سماجی تحریکوں، کسان دوست تنظیموں، بائیں بازو کی تنظیموں، شخصیات اور نوجوانوں، عورتوں، مذھبی اقلیتوں اور سیاسی کارکنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس روز ہمارا ساتھ دیں۔
کسانوں کے حقوق اگرو بزنس اور گلوبل مارکیٹ کے مفادات میں بنائی جانے والی پالیسیوں کے ذریعے نہیں دئیے جا سکتے، ہم ایسے ماڈلز کی مزمت کرتے ہیں جو محکوم عوام اور کسانوں کو مذید استحصال کا نشانہ بنا کر تیار کئے جاتے ہیں۔
سرمایہ درانہ اور جاگیردرانہ نظام کسانوں اور مزارعین کے استحصال کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ ان کے خاتمہ کی جدوجہد کسانوں کے عالمی دن کو منانے کا ایک اہم جزو ہے۔
ہم کسانوں کے حقوق، خوراک کی خودمختاری، ایگروایکالوجی (Agroecology) اور کسانوں اور مزارعین کے حقوق ملکیت کےلئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دئیے جانے کے خلاف رٹ پٹیشن کو سپریم کورٹ کا فل بنچ تشکیل دے کر اسے فوری سنا جائے۔
ملک بھر میں جاگیرداری نظام ختم کر کے بڑی جاگیریں بے زمین کسانوں میں تقسیم کی جائیں۔ ریاست کی ملکیت زرعی فارم ان میں کام کرنے والے مزارعین کے نام کئے جائیں اور ان کو زمینوں کا مالک بنایا جائے۔
قدرتی پائیدار کاشتکاری نظام کو اپنایا جائے اور بیجوں، کھادوں اور زرعی دوائیوں کی کمپنیوں کے استحصال سے کسانوں کی جان چھڑائی جائے۔ دیہاتوں میں نوجوانوں کے لئے زرعی سکول تعمیر کئے جائیں۔ چھوٹے کسانوں کے قرضے ختم کئے جائیں اور دیہاتوں میں صاف پانی، تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کی جدید سہولیات کو یقینی بنایا جائے۔
(لاھور میں پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے زیر اھتمام کسانوں کے عالمی دن سترہ اپریل کےپروگرام کا اس ھفتے اعلان کر دیا جائے گا)
“