ج پاکستان کو دنیا کی برادری میں قابلِ رشک حیثیت حاصل ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں وہ پوری دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ خواندگی کا تناسب صد در صد ہے۔ اس وقت پاکستان اُن ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں لوگ دنیا کے کونے کونے سے آ کر آباد ہونا چاہتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلبہ کا ہجوم ہے۔ فرقہ واریت کا کوئی وجود نہیں۔ امن و امان کا یہ عالم ہے کہ ایک اکیلی عورت زیورات سے لدی پھندی گلگت سے کراچی تک پیدل سفر کرے تو اُسے آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا۔ سوات اور فاٹا میں ہارورڈ اور آکسفورڈ کے مقابلے کے تعلیمی ادارے ہیں۔ ملک میں چینی آٹا گیس برقی روشنی اور پٹرول وافر اور ارزاں ہیں۔
یہ سب کچھ تو اطمینان بخش ہے لیکن ملک کے اہلِ دانش ایک طویل عرصہ سے اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں کہ اس قابلِ رشک مقام کا اصل سبب کیا ہے۔ آخر وہ کون سے محرکات اور عوامل ہیں جو وطن عزیز کو اس اوج پر لیکر آئے ہیں کچھ اصحاب کا خیال ہے کہ پے در پے قبضہ کرنیوالی عسکری حکومتیں اس ترقی کا سبب ہیں۔ کچھ یہ سہرا نوکر شاہی کے سر پر باندھنا چاہتے ہیں لیکن اکثریت کی رائے یہ ہے کہ یہ سب اہلِ سیاست کی کرم نوازی ہے کیونکہ کیا عسکری ملازم اور کیا سول سروس سب انکے ماتحت ہیں۔ جب بھی فوجی حکومت آتی ہے، سیاست دان انکے ساتھ ہوتے ہیں اور دونوں مل کر ملک کو ترقی کے زینے پر چڑھاتے رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رائے وقیع تر ہے اور ہماری شان و شوکت اور جاہ و جلال کا کریڈٹ اہلِ سیاست ہی کو جاتا ہے اور اہلِ سیاست میں بھی جو صفت سب سے زیادہ مثالی ہے وہ انکی سچائی ہے۔ سچائی ایک وسیع اصطلاح ہے اور اس میں امانت، دیانت سب کچھ آجاتا ہے۔ باسٹھ سالوں کے اخبارات ہمارے اس دعوے کی تصدیق سے بھرے پڑے ہیں۔ تازہ مثال ملاحظہ کیجئے۔
’’مسلم لیگ نون کے لیڈر کیپٹن (ر) محمد صفدر نے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ قاف کے رہنما اور سابق وزیر… کی میاں نوازشریف کیساتھ خفیہ ملاقاتوں کو آشکارا کردیا انہوں نے کہا کہ وہ جو کچھ بیان کر رہے ہیں حلفیہ اقرار کرتے ہیں کہ سب کچھ درست ہے… نے چار روز قبل قومی اسمبلی میں میاں نوازشریف سے اپنی کسی خفیہ ملاقات کی تردید کی تھی اور کہا کہ لندن کے ایک سٹور میں شاپنگ کے دوران ان کی نوازشریف سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی تھی۔ کیپٹن صفدر نے کہا کہ پچھلے سال جون جولائی میں لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ میں … گھوم رہے تھے کہ ان کی سرِ راہ میاں صاحب کے صاحبزادے سے ملاقات ہوگئی جس میں انہوں نے نوازشریف کو عظیم لیڈر قرار دیتے ہوئے ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے اور نوازشریف سے ملنے کی آرزو کا اظہارکیا۔ نوازشریف کے صاحبزادے نے اپنے والد کو… کی تمنا سے آگاہ کیا تو حسین نواز کے دفتر میں… کی نوازشریف سے ملاقات ہوئی۔ افتخار جھگڑا بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں… نے قاف لیگ کی قیادت اور پرویز مشرف پر سخت تنقید کی تھی۔ پھر انکی دوسری خفیہ ملاقات رائے ونڈ میں ہوئی۔ کیپٹن صفدر نے کہا کہ… نے صدارتی الیکشن میں اپنی جماعت کے امیدوار مشاہد حسین کو ووٹ نہیں دیا تھا بلکہ مسلم لیگ نون کے امیدوار جسٹس سعید الزمان صدیقی کو ووٹ دیا تھا اور اسکی شہادت کیلئے اپنے موبائل کے کیمرے پر ووٹ کی عکس بندی بھی کی تھی اور یہ عکس بندی ہمارے لیڈروں کو دکھائی تھی تاکہ اپنی وفاداری ظاہر کرسکیں۔
اس خبر سے بہت سے امور کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ ہمارے سیاستدان آکسفورڈ سٹریٹ میں یوں گھومتے پھرتے ہیں جیسے ہم غریب غربا مال روڈ پر گھومتے پھرتے ہیں یہ ملک کی خوشحالی کا واضح ثبوت ہے۔ دوم یہ کہ ہمارے سیاستدانوں کے صاحبزادوں کے کاروباری دفاتر لندن جیسی جگہوں پر ہیں، سوم یہ کہ جب کوئی اپنے آپکو فروخت کرنے کیلئے پیش کرتا ہے تو خریدار بھی فوراً آموجود ہوتا ہے۔ گھوڑے خریدنے والا بھی اتنا ہی عظیم ہوتا ہے جتنا ’’عظیم‘‘ فروخت کیلئے پیش ہونے والا گھوڑا ہوتا ہے اور چہارم یہ کہ ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے زمانے میں گھوڑوں کی خرید و فروخت سائنسی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ اگر سیاست دان نے اپنے امیدوار کی پشت میں چھُرا گھونپا ہے اور خریدنے والی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیا ہے تو اس کا ثبوت ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا مہیا کرنا ان دنوں آسان ہے اور ہمارے سیاست دان پوری دیانت داری سے یہ ثبوت تیار کرتے ہیں اور پیش کرتے ہیں۔
باڑ(Fence) سے چھلانگ لگانا ہمارے سیاست دانوں کیلئے ایک معمول کا کام ہے۔ کبھی اِدھر سے اُدھر اور کبھی اُدھر سے اِدھر۔ یہ جدھر اور کدھر کا مسئلہ نہیں، یہ ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کا مسئلہ ہے اور یہ سیاست دان ہی ہیں جو ہر وقت کی محنت شاقہ کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام پر احسان کر رہے ہیں ورنہ عوام تو دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں او ر وفاداری، دیانت اور امانت کے چکروں میں پڑے ہیں۔ موسم بدلا تو زاہد حامد قاف سے نکلے اور نون میں جا پہنچے اور ہاتھوں ہاتھ لئے گئے۔(کیوں؟ اس کا جواب آپ خود سوچئے) پھر ایک اور جھونکا تیز ہوا کا آیا تو محترمہ حنا ربانی کھر قاف سے پیپلز پارٹی میں چلی گئیں۔ پھر نئی کونپلیں پھوٹنے کا وقت آیا۔ جماعتِ اسلامی نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ پارٹی کیساتھ وفاداری اور قربانی ہمارے سیاست دانوں کو کبھی اچھی نہیں لگی۔ حنیف عباسی صاحب جماعت اسلامی سے نکلے اور نون لیگ میں چلے گئے اور صرف انہیں ہی کیوں قصوروار ٹھہرایا جائے، اہل سیاست نے ہمیشہ ٹریڈنگ یعنی تجارت کی ہے۔ تقسیم کے فوراً بعد پنجاب میں نواب ممدوٹ کی حکومت تھی۔ دولتانہ انکے حریف تھے۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ پنجاب اسمبلی میں ’’میری‘‘ اکثریت ہے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان لاہور تشریف لائے، دونوں نے وزیراعظم کو اپنے اپنے حمایتیوں کی فہرست دی۔ دونوں فہرستوں میں سات نام مشترک تھے۔ یعنی سات سیاست دانوں نے نواب ممدوٹ اور دولتانہ دونوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا تھا۔ کاش اپن سات ’’وفاداروں‘‘ کوننگا کیا جاتا لیکن افسوس! حکومت ٹوٹ گئی لیکن ’’عزتیں‘‘ محفوظ رہیں!
آپ اہلِ سیاست کی دانائی کا کمال دیکھئے، ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ عسکریت پسندی کی ایک بڑی وجہ ملک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اور یوں لگتا ہے پاکستان سرداروں، ملکوں، خانوں، چوہدریوں، سرداروں، جاگیرداروں اور زمینداروں کیلئے بنا تھا۔ قبائلی علاقوں میں چند ’’برگزیدہ‘‘ خوانین کو ہمیشہ بھاری رقوم دی گئیں اور اسکا نتیجہ یہ ہے کہ آج عام قبائلی نے بندوق اٹھا لی ہے۔ بجائے اسکے کہ قوم کو یہ بتایا جاتا کہ باسٹھ سالوں میں کن کن خوانین کو کس کس پولیٹیکل ایجنٹ نے کتنی کتنی رقم دی، خوانین کو مزید دولت دی جا رہی ہے۔ سینٹ میں بتایا گیا ہے کہ فاٹا امن کمیٹیوں کو چھ سو پچاس ملین یعنی پینسٹھ کروڑ روپے دیئے گئے ہیں۔ یہ ’’امن‘ق کمیٹیاں کیا ہیں؟ انہوں نے کون سے علاقے میں کون سا ’’امن‘‘ قائم کیا ہے؟ انکے ارکان کون کون ہیں اور یہ پینسٹھ کروڑ روپے کہاں اور کیسے ’’خرچ‘‘ کئے جائینگے؟ کسی کو نہیں معلوم نہ کسی کو پرواہ ہے!
رہے فوجی یا سرکاری ملازم، خاکی یا سول۔ تو سارے سیاستدانوں کے ماتحت رہے ہیں اور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فوجی حکومت آتی ہے تو مٹھائیاں کون بانٹتا ہے؟ جرنیلوں کی جیب میں کون جا بیٹھتا ہے اور اُن کی پشت کون کُھجاتا ہے؟ ’’مہربانوں‘‘ کے مستقل ’’ساتھی‘ق کون ہیں، خفیہ ملاقاتیں کون کرتے ہیں، وردی میں بار بارکون منتخب کرواتے ہیں، بیورو کریسی کو کون بدعنوانیاں سکھاتا ہے۔ یہاں تو یہ بھی ہوا ہے کہ نوکر شاہی کے سینئر ارکان نے پانچ سال کی چھٹی لی اور سیاستدانوں کی فیکٹریوں میں ملازم ہوگئے۔ انکی انتخابی مہم چلائی اور واپس آکر صوبے کے چیف سیکرٹری بن گئے۔ اقبال نے اہل سیاست ہی کو تو کہا تھا…؎
گلہ ہا داشتم از دل بزبانم نہ رسید
مہر و بے مہری و عیاری و یاری ازنست
شکوہ دل سے زبان تک نہ آئے تو اور بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مہر اور بے مہری، عیاری اور یاری سب کچھ ’’وہی کر رہے ہیں۔
http://columns.izharulhaq.net/2010_01_01_archive.html
“