تقدیر نے ہمیں ایک چھت تلے جمع کر دیا تھا –
اگر بس میں ہوتا تو میں مر کر بھی ایسا نہ ہونے دیتی
چاہے وہ دنیا کا آخری مرد ہی کیوں نہ ہوتا –
جبکہ میرے شوہر کی تو لاٹری نکل آئی تھی کہ اس کی محبت پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں آن گری تھی –
اس کی ایک عادت بہت عجیب تھی کہ وہ ہار بار پوچھتا کہ وہ اسکی لسٹ میں کس نمبر پر ہے اور جوابا میں چپ رہتی –
تب اس کا چہرہ دیکھنے والا ہوتا –
دل غم سے بھر جاتا '
چہرہ زرد پڑ جاتا
اور آنکھوں میں جلتے امید کے دیے بجھنے لگتے –
لیکن ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ سجا کر
بڑے مان اور یقین سے کہتا :
" مت مانو ۔۔۔
چھپا لو مجھ سے اپنے دل کی بات ۔ِ۔۔۔ لیکن یاد رکھنا ۔۔۔۔
ایک دن آئے گا جب تم خود سے میرے مقام کو تسلیم کرو گی –
اعتراف کرو گی کہ میرا مقام سب سے جدا ہے ' سب سے الگ ' سب سے منفرد –
پھر بچے ہو گئے تو میری خاموشی ٹوٹی –
اب پہلے نمبر پر میرا بیٹا آتا اور دوسرے نمبر پر بیٹی –
اور اس تک پہنچنے سے پہلے میری گنتی کی سانس اکھڑ جاتی –
اور وہ غمزدہ چہرہ لیے بس مجھے گھورتا رہ جاتا –
اس نے کبھی شکایت کا ایک لفظ منہ سے ادا نہ کیا تھا –
لگتا ہے شکوہ کرنا اسے آتا ہی نہیں تھا –
یا پھر یہ کہ اس کا صبر انتہا کا تھا –
تاہم اس کا دعویٰ اپنی جگہ برقرار رہتا تھا – گاہے گاہے جس کا ظہار کرنا وہ کبھی نہیں بھولتا تھا –
اور کبھی کبھی تو زچ ہو کر میں
کہہ دیتی کہ تم کسی قطار شمار میں نہیں آتے –
اور کبھی کبھی تو بری طرح ڈانٹ دیتی
" کیا بچوں جیسی حرکتیں کرتے ہو –
ایک بار کا کہا ہوا تمھاری سمجھ میں آتا – تمھارا میری زندگی میں سوائے اس کے کوئی مقام نہیں کہ تم میرے نا چاہنے کے باوجود میرے بچوں کے باپ ہو اور بس ۔ِ۔ِ۔۔۔۔۔"
وہ لمحے اس کے لیے بہت بھاری ہوتے – کئی کئی ماہ اسے چپ سی لگ جاتی –
بے چارہ سہم کر رہ جاتا –
سوال تک کرنا چھوڑ دیتا –
لیکن کب تک ۔۔۔
کچھ ہی عرصے بعد پھر وہ ہوتا تھا اور وہی اس کا بے مقصد سا سوال ۔ِ۔۔۔٬
" بتاؤ میرا کون سا نمبر ہے ؟
آج پہلی بار میرا دل شدت سے یہ چاہتا تھا کہ وہ مجھے پھر وہی سوال کرے
وہی پرانا اور ایک ہی سوال –
اور میں جواب میں کہوں کہ
" تمھارا مقام سب سے جدا ہے ' سب سے الگ ' سب سے منفرد "
مگر وہ تو خاموش ہو گیا تھا
نہ بول رہا تھا
نہ سن رہا تھا
نہ دیکھ رہا تھا
اس کا وجود سفید ک پہ لباس میں چھپ گیا تھا اور وہ خود کہیں دور بہت دور جا چھپا تھا –
شاید روٹھ گیا تھا
اچانک میری نظر اسکے ہونٹوں پر پڑی جس پر معنی خیز مسکراہٹ گویا ثبت ہو کر رہ گئی تھی –
لگتا تھا وہ کہہ رہی ہوں
" دیکھا ۔۔۔ کہا تھا ناں کہ ایک دن تم ہار مانو گی
خود اعتراف کرو گی "
" میری جان میری بات تو سنو –
دیکھو تم جیتے میں ہاری ۔۔۔۔
اٹھو آنکھیں کھولو اور سنو –
میں اعتراف کرتی ہوں
" تمھارا مقام سب سے جدا ہے ' سب سے الگ ' سب سے منفرد "