باغ کی کرسی پر بیٹھا وہ سگریٹ کے کش پر کش لگائے جارہا تھا۔ دھوئیں کے مرغولے اسکے اطراف فضا میں چکر کاٹ رہے تھےجسے کبھی کبھی وہ اپنا ہاتھ اٹھا کر اپنے سے دور کرنے کی کوشش کرتا حالانکہ اسکا سانس پھول رہا تھا۔ لگاتار کش سے کبھی کبھی اس زور کی کھانسی کا حملہ ہوتا کہ وہ بیدم سا ہو جاتا اور پھر ذرا کھانسی کم ہوتی کہ سگریٹ پینے کا عمل دوبارہ جاری ہو جاتا۔ شاید اسکی بیچینی اسے ایسا کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔ چہرہ پر وحشت نمایاں تھی۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ وہ اکٹر اپنے منےکی انگلیاں پکڑ کر روز شام اسی باغ میں چلا آتا اور پھر دیر گئے دادا و پوتے ایکدوسرے میں مگن وقت گذار کر گھر پہنچتے۔ یہ اسکا روزانہ کا معمول تھا۔
زندگی بڑی آسان گذر رہی تھی۔ بیٹا بہو اور منا یہی اسکی دنیا تھی۔ راحیل اس کی اکلوتی اولاد تھا جسے بچپن سے اسکی ماں کے گذرنے کے بعد بڑی چاؤ سے اس نے پالا تھا۔ دن رات اسکی پرورش کرتے ہوئے اس نے کبھی تکان نہ محسوس کی۔ راحیل کی اعلیٰ تعلیم کیلئے اس نے اپنی ساری پونجی خرچ کر دی تھی ۔ اسکے دوست نے راحیل کیلئے جب اپنی بیٹی کی شادی کا پیغام بھیجا تو وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ راحیل نے بھی بابا کی پسند پر حامی بھری اور پھر بڑے دھوم دھام سے راحیل کی شادی ہوئ۔ سارے رشتہ دار و احباب اسے مبارکباد دے رہے تھے اور وہ اپنی قسمت پر نازاں ہر ایک کا شکریہ ادا کرتا رہا۔ شادی میں بچا کچا اثاثہ پھونکنے کا اسے قطعی کوئ غم نہ ہوا۔۔ شادی کے ایک سال بعد پوتے کی آمد نے مانو اسکے وجود کو مسرت سے لبریز ایک نئ دنیا عطا کر دی۔ ساحل ایک کھلونے کی طرح اسکی بانہوں میں ہمکتا اور گھر میں کلکاریاں بکھیرتا ۔ اس کے ساتھ وقت گذار کر اسے لگتا کہ دونوں جہان کی دولت اسکے ہاتھ لگ گئ ہے۔ ریٹائر مینٹ کے بعد اب یہی ایک مشغلہ تھا جو دادا پوتے کی دھما چوکڑی پر رات ختم ہوتا۔ پنشن کے طو ر پر جو معمولی رقم ہر ماہ اسکے ہاتھوں میں آتی اسے آدھے سے زیادہ وہ اپنے پوتے کے ناز اٹھانے پر خرچ کر دیتا۔ دن رات گذر رہے تھے کہ ایکدن راحیل نے اعلان کیا کہ وہ اپنی بیوی و بیٹے کے ساتھ دوسرے شہر جا رہا ہے جہاں اسے بہترین نوکری مع رہائش کے مل گئ ہے۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھا کہ بیٹے کی ترقی کا خواب اس نے اسکے بچپن سے ہی اپنے دل میں پال رکھا تھا لیکن کچھ ہی لمحہ میں اس کا وجود دہل کر رہ گیا جب راحیل نے کہا کہ بابا آپ کو یہیں رہنا ہے اور آپ ساتھ نہیں جارہے۔ اس نے لرزتی آواز میں بیٹے کو اپنی ضعیفی کی دہائ دی۔ منے سے جدا ہونے کی تڑپ کا ذکر کیا۔ لاوارث زندگی کاٹنے سے مغذوری ظاہر کی لیکن وہی بیٹا جسکے پیچھے اسکا سارا اثاثہ ختم ہو چکا تھا ٍ طوطا چشم بن چکا تھا۔ راحیل نے ایک نہ سنی اور دوسری صبح بہو اور منے ساحل کو ساتھ لے کر روانہ ہوگیا کبھی نہ آنے کیلئے۔
وہ بے چین ہو اٹھا۔ اب پہاڑ سا وقت کیسے گذرے گا؟ منا تو ہے نہیں کہ وہ اسے اپنی پیٹھ پر بٹھا کر معمول کی طرح کمرے کے چکر کاٹتا اور اسکی ہنسی کی آواز میں اپنے غم کو بھول جاتا۔
وہ گھر سے نکلا بازار سے سگریٹ کا پیکیٹ و ماچس خرید کر اس نےباغ کا رخ کیا حالانکہ ڈاکٹر نے اسے سگریٹ پینے سے سخت منع کیا تھا کہ اس کا ایک پھیپھڑا سگریٹ کے دھوئیں کی بھینٹ چڑھ چکا تھا پر بیچینی بڑھتی جا رہی تھی۔ منا برابر یاد آ رہا تھا۔ باغ میں داخل ہو کر وہ اسی خالی کرسی پر جا بیٹھا جہاں وہ ہمیشہ بیٹھتا اور سامنے لگے جھولے پر منا کو جھولتے دیکھ کر خوش ہو تا ۔ آج وہ تنہا تھا اور کوئ ساتھ تھا تو متے کے بچھڑنے کا غم یا پھر سگریٹ کے کش۔
کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کہ قریب کی حوبلی کی ملازمہ ساحل کی عمر کے ایک بچے کو ساتھ لئے آ رہی ہے۔ باغ میں داخل ہوتے ہی بچہ نے ملازمہ کی انگلی چھوڑی اور تیزی سے جھولے کی جانب لپکا۔ یہ حرکت تو ساحل بھی کیا کرتا تھا کہ باغ میں داخل ہوتے ہی اسکی انگلی چھوڑ کر جھولے کی جانب تیزی سے لپکتا۔ اسے لگا کہ سامنے جھولے پر ساحل آ براجمان ہوا ہے اور پینگیں لے رہا ہے۔ اسے کچھ طمانیت محسوس ہوئ۔ اب وہ اس بچہ کو بغور دیکھ رہا تھا لیکن یہ کیا کہ اچانک جھولے کی زنجیر ٹوٹی اور وہ بچہ زمین پر گر پڑا۔ اسکے حلق سےایک چینخ بلند ہوئ " منا۔ منا "۔ اسکے ساتھ ہی اس نے تیزی سے کرسی سے اترن کر جھولے کی طرف لپکنے کی کوشش کی لیکن اسکے قدموں نے ساتھ نہیں دیا اور وہ زمین پر آن گرا ۔
اب وہ ایک بے جان جسم تھا۔ اسکی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...