یکم اپریل 1958
عطیہ دائود صاحبہ کا یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھی زبان کی نامور ادیبہ، مصنفہ اور شاعرہ عطیہ دائود صاحبہ یکم اپریل 1958 کو گوٹھ مولا ڈنو لاڑک نوشہرو فیروز سندھ میں پیدا ہوئیں۔ عطیہ اپنی تحریروں اور شاعری میں سندھ کی مظلوم خواتین کے حق میں آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ وہ 1975 میں کراچی منتقل ہو گئیں جبکہ 1980 سے انہوں نے لکھنے اور شاعری کا آغاز کیا۔ اب تک ان کی 8 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)آئینے کے سامنے-2004
۔ (2)سندھ کی عورت سپنے سے سوچ تک
۔ 2002
۔ (3)انپوری چادر-2002
۔ (4)سندھی عورت کی کہانی-2000
۔ (5)شرافت جی پل صراط-1997
۔ (6)Raging To be Free
۔ 1995
۔ (7)سپنے سے سچ تک
۔ (8)آپ کاجسم اور صحت
عطیہ دائود صاحبہ کو پاکستان کے علاوہ ہندوستان
سے بھی متعدد ادبی ایوارڈز مل چکے ہیں بھوپال میں ان کے اعزاز میں دو ادبی نشستوں کا انعقاد بھی کیا گیا جبکہ ان کی سندھی شاعری کا اردو، انگریزی اور جرمن زبانوں میں ترجمے بھی ہو چکے ہیں ۔ عطیہ لاڑک صاحبہ نظم کی شاعرہ ہیں جن کی 2 نظمیں یہاں بطور نمونہ نذر قارئین ہیں۔
نظم
۔۔۔۔۔۔
محبت کی منزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے تو نہیں چھیڑو میرے جسم کے طنبورے کو
جیسے کوئی بچہ شرارت کرے
میرا جسم کوئی راز نہیں ہے
جسے دریافت کرنے کے لئے
کسی نقشے کی ضرورت ہو
یہ الجبرا کا سوال نہیں ہے
جس کا پہلے سے فارمولا تیار ہو
اس ساز کو بجانے کے لئے کوئی بھی ترکیب
دنیا کی کسی بھی کتاب میں درج نہیں
یہ ساز از خود بجنے لگے اگر
تیرے نین محبت کے دیئے بن کر جل اٹھیں
تیری انگلیوں کی پوریں
میرے جسم پر ایسے سفر کرتی ہیں
جیسے کوئی مہم جو پہاڑ کی چوٹی پر
فتح کا پرچم لہرانا چاہے
برف کا پہاڑ بھی پگھلنے لگے اگر
تیرے ہاتھ میرے پر بن کر
مجھے محبت کی منزل کی طرف
اڑا کر لے جائیں
نظم
۔۔۔۔۔۔۔
بھروسے کا قتل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہب کی تلوار بنا کر
خواہشوں کے اندھے گھوڑے پر سوار
میرے من آنگن کو روند ڈالا
میرے بھروسے کو سولی پر ٹانگ کر
تم نے دوسرا بیاہ رچا لیا
تمہارے سنگ گزارے پل پل کو
میں نے اپنے ماس پر کھال کی طرح منڈھ لیا تھا
تمہارے ساتھ آنچل باندھ کر
بابا کا آنگن پار کر کے
تمہارے لائے سانچے میں
میں نے پایا تھا اپنا وجود
پیار کیا ہے یہ نہیں جانتی
پر تمہارے گھر نے بڑ کے پیڑ سی چھاؤں کی تھی مجھ پر
بچایا تھا زمانے کے گناہوں کے
تیروں کی بوچھاڑ سے
اس سانچے میں رہنے کی خاطر
میں اپنے وجود کو کاٹتی چھانٹتی تراشتی رہی
تمہارے لہو کی بوند کو اپنے ماس میں جنم دیا
اولاد بھی ہم دونوں کا بندھن نہ بن سکی
بندھن کیا ہے یہ نہیں جانتی
مجھے فقط ایک سبق پڑھایا گیا تھا
تمہارا گھر میری آخری پناہ گاہ ہے
میں نے کئی بار دیکھا ہے
زمانے کی نگاہوں سے سنگسار ہوتے
طلاق یافتہ عورت کو
اس لیے بارش سے ڈری بلی کی طرح
گھر کے ایک کونے اور تمہارے نام کے استعمال پر
قناعت کیے بیٹھی رہی
جنت کیا ہے جہنم کیا ہے یہ نہیں جانتی
مگر اتنا یقین ہے
جنت بھروسے سے بالاتر نہیں
اور جہنم سوت کے قہقہوں سے بڑھ کر گراں نہیں
طعنوں اور رحم بھری نظروں سے بڑھ کر مشکل
کوئی پل صراط نہیں
کبھی کبھی سوت کا چہرہ مجھے اپنا جیسا لگتا ہے
اس کی پیشانی پر بھی
میں نے بے اعتباری کی شکنیں دیکھی ہیں
جب وہ مجھے دیکھتی ہے
خوشی اس کے سینے میں
ہاتھوں میں دبائے کبوتر کی طرح پھڑ پھڑا اٹھتی ہے
میں ان سے لڑ نہیں سکتی
ان میں تم شامل ہو
میں تم سے لڑ نہیں سکتی
مذہب قانون اور سماج تمہارے ساتھ ہیں
ریتیں رسمیں تمہارے ہتھیار ہیں
دل چاہتا ہے کہ زندگی کی کتاب سے
وہ باب ہی پھاڑ کر پھینک دوں
جو اپنے مفاد میں تم نے
میرے مقدر میں لکھا ہے