عید مبارک ۔ ایثار یا قربانی کی اہمیت ۔
اب سے کچھ دیر پہلے میں نیوجرسی کہ ایک بہت خوبصورت پارک میں عید قربانی کی نماز کے لیے تھا۔ مختلف ممالک سے مسلمان اس عظیم تہوار کے لیے موجود تھے ۔ میں پچھلے ہفتہ ایک بہت زبردست کتاب “ہمدردی “ انگریزی میں empathy ،کہ موضوع پر پڑھ رہا تھا ۔ اس کا عنوان تھا
The Science of evil
کتاب کیمبرج کہ نفسیات کہ پروفیسر سائمن بیرن کوہن نے ۲۰۱۱ میں لکھی ۔ جس دلیل اور بحث کو وہ اس کتاب میں لے کر چلا ، وہ ہے
“کیا ظلم ، ظالمانہ زہن ہونے کی علامت ہے یا ہمدردی کا عنصر نہ ہونے کی وجہ سے ہے “
سائمن نے بہت دلچسپ مثالیں دیں ظلم کی اور بہت اچھا مدلل بیانیہ کہ کس طرح ، جب ایک انسان دوسرے انسان کو انسان کی بجائے ایک object سمجھتا ہے تو ساری نفسیات بدل جاتی ہے ۔ ایک کرسی ، میز یا الماری جیسی چیز انسان کو سمجھنا ہی اصل میں ظلم کی شروعات ہے ۔
سائمن کہ نزدیک دماغ یا سوچ ظالمانہ نہیں ہوتی ، بلکہ ہمدردی دماغ اور سوچ سے غائب ہونا ظلم کا سبب بنتا ہے ۔ نازیوں کا یہودیوں پر ظلم ، ترکوں کا آرمیئنوں کا قتل اور اب شام میں جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ سارا ہمدردی کا element انسان کہ وجود سے ختم ہونے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ سائمن نے ۲۰۰۶ کی کینیا کی مثال دی جہاں ایک کھچا کھچ بھری مارکیٹ میں اس نے ایک عورت کی انگلی کاٹ کر ایک شخص کو بھاگتے دیکھا ۔ اس شخص نے انگلی پر سونے کی انگوٹھی اتارنے کے لیے یہ ظلم کیا ۔
آتے ہیں عید الاضحی کی طرف ۔جو اصل میں ایثار ، قربانی اور ہمدردی کہ جزبہ سے سرشار تہوار ۔ ہر سال اسی عظیم جزبہ کو ہم ایک درخت کی طرح اس عمل سے پانی دیتے ہیں کھاد ڈالتے ہیں ۔
میں اکثر اپنے بلاگز میں اسلامی طرز معیشت اور حکومت کا تزکرہ کرتا ہوں جس کا در حقیقت مقصد ہی بھائ چارے کی فضا اور اجتماعی خود کفالت ہے ۔ جس کی بنیاد ہی خرچ کرنا ہے نہ کہ بچت ۔ جس کی خوبصورتی ہی قربانی ہے نہ کہ خود غرضی ۔ میں نے جیسا کہ پرسوں کہ بلاگ میں لکھا تھا کہ میں اپنے روحانیت کہ علم کو دلیل اور سائنس کی کسوٹی پر ضرور پرکھتا ہوں ، اسی طرح میں اس قربانی والے احساس اور جزبہ کو بھی دلیل اور سائنس کی روشنی میں بیان کر رہا ہوں ۔ مندرجہ بالا کتاب اور ماہر نفسیات کی مثال اسی لیے دی کہ سمجھ آ سکے ۔ زہن ظالمانہ نہیں ہوتا بلکہ قربانی اور ہمدردی والا حصہ shut off کر دیا جاتا ہے منفی اور خود غرضی سے ۔ آپ کیوں ایسا کرتے ہیں ؟ لالچ ، خودغرضی اور انتقام میں آ کر ۔ دراصل یہ سارے لوگ زہنی مریض ہوتے ہیں ۔ نواز شریف کو اس کا زہنی مرض جیل میں پہنچا گیا ، وہ اربوں روپے اس نے چبانے تو نہیں تھے ؟ ویسے تو ایسے لوگوں کی کسی Rehab میں باقاعدہ therapy ہونی چاہیے ۔ ہم سب چیزوں کو اگر ایک نمونے یا pattern سے دیکھیں تو ہمیں حقائق کا صیحیح ادراک ہوتا ہے ۔ Archimedes نے آئنسٹائین سے ۲۰۰۰ سال پہلے یہ تو بتا دیا تھا کہ ایک اگر دائرے کا قطر ۱ ہو گا تو فریم یا circumference تین اشاریہ چودہ سو پندرہ ہو گا جسے pi بھی کہتے ہیں ۔ لیکن اس کا عملی تجربہ , یہاں نیوجرسی کی پرنسٹن یونیورسٹی سے ہی ، ۲۰۰۰ سال بعد relativity کی تھیوری دے کر آئنسٹائین کر گیا ۔ کل ہی میں اپنے ایک دوست کو کہ رہا تھا کہ
“ہے وقت کی قید میں زندگی مگر ، چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں “
اصل میں relativity کی مثال ہے ۔ آپ ماضی کے تجربات سے کوئ اندازہ تو لگا سکتے ہیں لیکن ماضی یا مستقبل کو کسی ٹائم فریم یا وقت میں قید نہیں کر سکتے ۔ لہٰزا زہن بلکل آزاد ہے اور اس شعور اور آگہی کا حصہ ہے جو روح کا کائنات کہ ساتھ منسلک ہونا ثابت کرتا ہے ۔ اس میں صرف پیار ، محبت ، ہمدردی یا شکرگزاری کا عمل ہے یا مرکب ہے ۔ اس کو غصہ ، نفرت ، لالچ ختم کرتے ہیں یا مدھم کرتے ہیں اور نتیجتا روح کی روشنی بھی ختم ہوتی جاتی ہے ۔ انسان حیوان بن جاتا ہے اور ظلم پر اتر آتا ہے ۔
یہ قربانی کی عید اور اس کہ ساتھ حج کی ادائیگی ہی اصل میں بھائ چارہ کی روح کی عکاسی کرتی ہے ۔ یہ اسی اجتماعیت کا درس ہے جو حضور صلعم نے اپنی امت اور سب جہانوں کے لیے نور کی صورت میں پھیلایا ۔ ہم کتنے بد بخت ہیں کہ اس کو بجھانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جانور زبح کرنے کی بجائے غریب کو پیسے دے دو ، یا ڈیم فنڈ میں وہ پیسہ جمع کروا دو ۔ ہم اس قربانی کی spirit کو ہی نہیں سمجھ پائے ، دکھ ہوتا ہے ۔ اس کو بھی ایک دھندہ بنا دیا ، شو بازی کا یا کھالیں اکٹھی کرنے کا ، فرج بھرنے کا ۔ ہمارا اللہ ہی حافظ ہے ۔ قدرت کی طرف واپس لوٹنے کا وقت آ گیا ہے ۔ ہمدردی یا empathy جو مسلمان قوم کا امتیاز رہا وہ ہم میں سے بلکل ختم ہو رہی ہے جس وجہ سے مسلمان ہر جگہ پریشان ہے ۔ نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ عمران خان نے یقین تو دلوایا ہے کہ اس کی حکومت میں انسان کو انسان سمجھا جائے گا ، یہ تو کل ہی پتہ لگے گا جب وہ یا بلاول تھر کہ بچوں کہ ساتھ عید کریں گے اور ایک سو اونٹ کی قربانی دیں گے ۔ بہت خوش رہیں۔ دلی کی گہرائیوں سے آپ سب کو عید مبارک !
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔