نون لیگ اور فضل الرحمن گروپ جتنا بھی زور لگا لیں ایک اعزاز عمران خان سے نہیں چھین سکتے۔ اور وہ ہے اس کا اب تک اقتدار میں نہ ہونا۔ کوئی مانے نہ مانے، عمران خان کے حمایتیوں کی کثیر تعدد ایک ہی بات کہتی ہے: سب کو آزما لیا ہے۔ عمران کو بھی موقع ملنا چاہیے۔ آخر آزمانے میں کیا حرج ہے؟
جولوگ پوچھ رہے ہیں کہ وزیرستان مارچ سے کیا حاصل ہوا۔ وہ یا تو بچے ہیں یا تجاہل عارفانہ کے عارضے میں مبتلا۔ اس مارچ سے اور کچھ حاصل ہوا ہو یا نہیں، پاکستانی سیاست کے ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی کنکر تو پڑا ہے اور کچھ دائرے تو بنے ہیں۔ ایک انگریزی معاصر کا دعویٰ ہے کہ جلوس چودہ کلومیٹر طویل تھا اور گاڑیوں کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ رہی یہ بات کہ شمالی وزیرستان کیوں نہیں گئے یا یہ اعتراض کہ قبائلی دستار کیوں اچھالی، تو یہ اس ہمیشہ منفی بات کرنے والی جھگڑالو عورت کے اعتراض کی طرح ہے جو بھرپور دعوت کے بعد خلال کرتے ہوئے تنقید کرتی ہے کہ کھانے میں نمک زیادہ تھا۔ جو حضرات شور برپا کررہے ہیں کہ پہلے شمالی وزیرستان کا کہا گیا تھا، کیا ان سے عمران خان نے شمالی وزیرستان جانے کا کوئی تحریری معاہدہ کیا تھا؟ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ایک علامتی مارچ تھا۔ دنیا کو ڈرون حملوں سے آگاہ کرنے کے لئے۔ اور ضمنی نکتہ اس میں یہ ثابت کرتا ہے کہ طالبان کے مخصوص علاقوں میں دوسری طاقتیں بھی جا سکتی ہیں۔ کچھ قلم کار حضرات نے یہ درست لکھا ہے کہ جلسے اس علاقے میں ہوتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں حالیہ جلسوں کی مثالیں بھی دی گئی ہیں جو اکرم خان درانی‘ مولانا عطاالرحمن اور ڈپٹی سپیکر کنڈی صاحب نے منعقد کیے ہیں۔ لیکن جلسے میں مقامی آبادی کو اکٹھا کرنا اور پورے پاکستان اور بیرون ملک سے مارچ کے شرکا کو اس علاقے میں لانا، دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
پمفلٹ بانٹ کر مارچ کے شرکا کو ڈرانے پر فضل الرحمن گروپ کو معاف کردینا چاہیے۔ ان کے یہ حیلے اور تدبیریں بالکل فطری تھیں۔ یہ علاقہ ان کی محفوظ جائے پناہ تھی۔ اگر عمران خان کے بجائے کوئی اور جماعت یا کوئی اور طاقت بھی اس محفوظ جائے پناہ کے اندر گھسنے کی کوشش کرتی تو ردعمل یہی ہونا تھا۔ اپنی اقلیم کی حفاظت کرنا ہر فرد اور ہر گروہ کا حق ہے۔ گزشتہ انتخابات میں نوجوان کنڈی نے مولانا کو چیلنج کیا۔ ابھی وہ مصیبت سر پر ہی ہے کہ اوپر سے عمران خان کئی ہزار لوگوں کے ساتھ، دندناتا ہوا، مولانا کی کچھار میں گھس آیا۔ اس بلائے بے درماں کو وہ یہود و ہنود کا نمائندہ نہ کہتے تو کیا کہتے۔ ویسے یہ یہودو ہنود والا نسخہ بھی لاجواب ہے۔ کچھ سال پہلے اسلام آباد کے ایک معروف صحافی نے جب یہ خبر دی تھی کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے گردو نواح میں کچھ زمینیں محکمہ دفاع سے ”حاصل“ کی گئی ہیں تو اس نمازی صحافی کو بھی یہودیوں کا ایجنٹ کہا گیا تھا! یہود و ہنود بہت برے ہیں۔ خدا انہیں غارت کرے لیکن اگر وزیراعظم بننے کیلئے امریکیوں کی منت سماجت کرنا پڑے تو یہ عمل غالباً فقہی اعتبار سے اضطراری ہوگا، اس لیے جائز ہے۔
پہلے بھی کہا ہے ع
بارہا گفتہ ام و بار دگر می گویم
نظام گل سڑ چکا ہے۔ تعفن اتنا ہے کہ ناک پر کپڑا رکھ کر بھی چلنا مشکل ہے۔ ایسے میں خلق خدا کو عمران خان کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا۔ کیا اس نظام کو مولانا فضل الرحمن یا نوازشریف یا پیپلزپارٹی والے درست کریں گے؟ گویا بلّی دودھ کی حفاظت کرے گی اور بھیڑیئے ریوڑ کی رکھوالی کریں گے!
وفاق کی حالت یہ ہے کہ وفاقی حکومت کا وجود ہی کوئی نہیں۔ صرف ایک مثال سے اندازہ لگایئے کہ نظام کس طرح منہدم ہوچکا ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ موجود ہے۔ کروڑوں روپے تنخواہوں اور دفتروں پر ماہانہ خرچ ہورہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ سے چند کلومیٹر دور‘ شاہ پور کی بستی ہے جو اسلام آباد ضلع کا حصہ ہے۔ اس میں سڑکیں ناپید ہیں، مکین گڑھوں اور کھڈوں میں رہ رہے ہیں۔ چیف کمشنر اسلام آباد سڑک بنانے کا حکم دیتا ہے لیکن پتا تک نہیں ہلتا۔ کوئی نظام ہے نہ سسٹم۔ وفاقی حکومت کیا ہے۔ چند کھنڈر ہیں جن کے اوپر آرائش کرکے دفتروں کے بورڈ لگا دیئے گئے ہیں۔
دنیا کہاں جا پہنچی ہے اور اس ملک کے باشندوں کو کن تہہ خانوں میں رکھا جارہا ہے؟ کیا طلال بگتی سے بغل گیر ہونے والے نوازشریف کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ بگتی قبائل کے عام لوگ جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ تو کل کا واقعہ ہے کہ جرگے نے سات کم سن معصوم بچیوں کو ونی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس جرگے کی صدارت ایک بگتی سردار نے کی‘ جو بلوچستان اسمبلی کا رکن بھی ہے۔ کیا یہ سرداری نظام جس کی جنوبی ایشیا کیا پوری مہذب دنیا میں کوئی مثال نہیں، قیامت تک قائم رہے گا؟
اس نظام کے تعفن کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پنجاب میں، جو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سیاسی لحاظ سے باشعور صوبہ ہے، تین تو وزیراعلیٰ کی سرکاری قیام گاہیں ہیں۔ بڑے بھائی جو سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ان کے پروٹوکول کے اخراجات بھی صوبائی حکومت کے ذمے ہیں۔ صاحبزادے کا پروٹوکول اس کے علاوہ ہے۔ درجنوں اہلکار جو صوبائی حکومت کے تنخواہ دار ہیں، ڈیوٹی کہیں اور سرانجام دے رہے ہیں اور یہ تو مُشتے نمونہ از خروارے ہے۔
اس گلے سڑے سسٹم میں جو لوگ سانس لینے پر مجبور ہیں، وہ آخر کس کی طرف دیکھیں؟ انہیں عمران خان کے علاوہ اور کوئی نظر نہیں آرہا!
اب یہ ان بے سہارا‘ بے بس اور چند خاندانوں کی حکومتوں میں گھرے ہوئے لوگوں کی قسمت پر منحصر ہے کہ خود عمران خان ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ اس سے پہلے انہی بے بس لوگوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے امیدیں باندھیں تھیں۔ انہوں نے کھمبوں کو بھی بھٹو کے نام پر ووٹ دے ڈالے تھے لیکن قسمت خراب تھی۔ بھٹو اقتدار میں آیا تو اس نے اپنے کھر، اپنے جتوئی، اپنے لغاری اور اپنے مخدوم عوام سے الگ کیے اور ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ عمران خان بھی اپنے ترین اور اپنے قریشی ساتھ لے کر نکلا ہے۔ دیکھئے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یا عوام کے ساتھ۔
ابھی تو عمران خان دو دو کشتیوں میں سوار ہے لیکن بہت جلد اسے ایک کشتی چھوڑنا ہوگی۔ کھرب پتیوں کا مائنڈ سیٹ کبھی ایسے فیصلوں کی اجازت نہیں دیتا جو عوام کیلئے ہوں۔ یہ جو مغربی درسگاہوں کے پڑھے ہوئے نوجوان، کمرں میں بند ہو کر لیپ ٹاپوں پر، پالیسیاں تصنیف کررہے ہیں، کبھی توانائی کی اورکبھی تعلیم کی، ان کا پاکستان کے حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں! ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی گاﺅں ہی نہیں دیکھا۔
طالبان کے حوالے سے بھی عمران خان دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ خودکش حملوں کے بارے میں ان کا نکتہ نظر کیا ہے؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ چودہ سالہ ملالہ پر حملے کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ وہ قبائلی جرگہ نظام کے مداح ہیں تو کیا ونی جیسے جرائم کا بھی دفاع کریں گے؟
پیش منظر میں عوام کو عمران خان کے علاوہ کوئی اور دکھائی نہیں دے رہا اور عمران خان عوام کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ یہ وقت بتائے گا! کہ بقول میر
آئے تو ہو طبیباں! تدبیر گر کرو تم
ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم
http://columns.izharulhaq.net/2012_10_01_archive.html
“