جدید اخلاقیات،جسے انسان مرکز اخلاقیات بھی کہا جاتا ہے، اس کے بنیادی اصولوں کاخلاصہ ایرک فرام کے یہاں ملتا ہے۔ وہ اپنی کتاب "Man for Himself " میں انسان مرکز اخلاقیات کو فرانسیسی ماہر دینیات جان کیلون (1509-1564 ) کے اخلاقی تصورات کے مقابل پیش کرتا ہے۔ کیلون کی اخلاقیات کا مرکزی تصور یہ ہے کہ آدمی اپنی اصل میں برااور بے بس ہے۔ وہ خود اپنے طور پر، اپنی بشری صلاحیتوں کی بناپر کچھ ایسا حاصل نہیں کرسکتا جسے خیر کہا جاسکے۔کیلون کا دعویٰ ہےکہ ہم اپنے غیر ہیں۔ لہٰذاہمیں اپنے اعمال کے سلسلے میں اپنی عقل اور ارادے کو معطل رکھنا چاہیے۔ ہم اپنے نہیں خدا کے ہیں، اس لیے ہمارا مرنا جینا اسی کے لیے ہونا چاہیے۔آدمی کو اپنے "نہ ہونے " کا پختہ یقین ہونا چاہیے اور خود کو ذلت سے ہمکنار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے(ملامتی صوفیہ کا طرز عمل) ۔ کیوں کہ یہ ذلت انسانی ذہن کے حقیقی طور پر اطاعت پسند ہونے کی نشانی ہے۔ ایرک فرام کا کہنا ہے کہ بعد میں لوتھر نے بھی اخلاقیات کا یہی تصور پیش کیا اور اسے جدید مغربی سماج میں فروغ ملا۔ ایرک فرام روشن خیالی کے اہم فلسفی کانٹ کا بھی حوالہ دیتا ہے جو آدمی کی خود سے محبت کا نکتہ چیں تھا۔ اخلاقی عظمت یہ ہے کہ دوسروں کی خوشی حاصل کی جائے۔ انسانی فطرت بھی اسی کی جستجو کرتی ہے۔ اگرچہ کانٹ انسان کی اپنے لیے مسرت کے حق میں تھا کہ اس کے بغیر وہ صحت ،دولت حاصل نہیں ہوسکتی تھی جو اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے ضروری تھی۔ ایرک فرام نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اگرچہ کانٹ، کیلون اور لوتھر کے مقابلے میں ایک فرد کی سالمیت ِ ذات کی حمایت کرتا تھا مگر وہ فرد کے مطلق العنا ن حکومت کے خلاف بغاوت کے حق کو تسلیم نہیں کرتا تھا ۔ یہ تک کہتا تھا جو شخص کسی خود مختار حکومت کے لیے خطرہ ہو اسے موت کی سزا دینے میں تامل نہیں کرنا چاہیے۔(یورپی نو آبادیوں میں اس پر عمل ہوا اور آج بھی سابق نوآبادیوں میں اسی نوع کے خیالات پائے جاتے ہیں)۔
کانٹ ،خود مختار حکومت کو ایک مابعد الطبیعیاتی رتبہ دے کر ، اس سے بغاوت کی وہی سزا تجویزکرتا ہے جو عیسوی اخلاقیات میں ہے۔فرد کی آزادی کےسلسلے میں بد گمانی اور خوف عام طور پر ملتا ہے ۔ نطشے ،فرد کی آزادی اور ذاتی مسرت کو دوسروں کی تکلیف کا ذریعہ خیال نہیں کرتا۔ اسی ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ لازم نہیں کہ ایک مکمل سیکولر فرد بھی "آزاد" ہو۔مابعد جدیدیت نے خود فرد اور اس کی داخلی موضوعی دنیا کو ایک تشکیل کہا ہے۔ ایرک فرام نے "استبدای ضمیر" (authoritarian concsience) کا تصور پیش کیا ہے۔بسا واقات آدمی انفرادی ضمیر کی بجائے ، کسی مقتدرہستی ،علامت یا آدرش کو اپنی نفسی دنیا میں حل کرلیتاہے؛ پھر وہ نہیں ، غیر محسوس انداز میں یہ "استبدادی ضمیر" آدمی سے اخلاقی فیصلے کرواتا ہے۔ "ایسا ضمیر آدمی کوایک آدرش رکھنے اور اس کی تحسین کرنے کی ضرورت پیداکرتا ہے،جس کی مدد سے وہ کاملیت کی جستجو کرے اور کاملیت کی یہ علامت کسی خارجی طاقت (شخص، ادارہ ) سے وابستہ ہوجائے ۔ اس کے نتیجے میں باہر کی طاقت کے مثالی ہونے میں اٹوٹ یقین پیدا ہوجاتاہے۔ یہ یقین اس وقت بھی نہیں ٹوٹتا جب حقیقی تجربات ، کسی خارجی طاقت سےمتعلق تصورات کی کھلی تکذیب کرتے ہوں"۔ میثل فوکو نے اسی تصور کو آگے بڑھایا ۔ اس نے کہا کہ آزادی یہ نہیں کہ کوئی شخص کیا منتخب کرسکتا ہے ،کیاچھوڑ سکتا ہے،بلکہ اس سے طے ہوتی ہے کہ وہ کیا ،کس انداز میں کہہ سکتا ہے۔
اپنی زیر طبع کتاب "جدیدیت اور نو آبادیات " سے ایک اقتباس
تصویر: شمیل حسین۔ شمیل نے اس تصویر کو رومانوی سفر و تلاش کا نام دیا ہے۔ وہ سفر جس میں خطرات کا سامنا کرنے کا خوف نہ ہو، جس کا ہر قدم ایک انوکھے ولولے سے اٹھتا ہو ، جس میں نئی حیرتوں اور نئی دنیائوں سے متعارف ہونے اور ان سے بے خودی کے احساس کے ساتھ بغل گیر ہونے کی آرزو ہو ،لیکن کسی متعین منزل پر پہنچنے کا اضطراب سرے سے نہ ہو، وہ رومانوی سفر ہوسکتا ہے۔ اس تصویر کے رنگ اوران کی ایک دوسرے میںمدغم ہوتی سرحدیں اس سب کے علاوہ بھی بہت کچھ کہتی ہیں، انھیں محسوس کیا جانا چاہیے۔