(Last Updated On: )
جنوری 1942، دوسری جنگ عظیم زوروں پر ہے۔ برٹش آرمی ہر محاز پر پسپا ہو رہی ہے۔
جاپانی فوجیں برما کی سرحدیں عبور کر چکی ہیں۔ انگریز کو ہندوستان بھی ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ ایسے میں ٹاٹا سنز کے بمبئی آفس میں ایک ٹیلی گرام موصول ہوتا ہے۔ یہ ٹیلی گرام برطانیہ کے ہوائی جہاز کی پیدا وار کے وزیر لارڈ بیور بروک کی جانب سے بھیجا گیا ہے۔ اس میں درخواست کی جاتی ہے کہ ٹاٹا سنز کے چیف پائلٹ ونٹسنٹ کو فوری طور پر انگلستان بھیجا جاۓ۔ ٹھیک دو دن بعد لندن کی کہر آلود صبح ونٹسنٹ لندن پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر حکومت برطانیہ اور ٹاٹا سنز کے درمیان پونا ہندوستان میں پہلے سے زیر تعمیر ٹاٹا ایئرکرافٹ فیکٹری میں طیاروں کی تیاری کا معاہدہ طے پا جاتا ہے۔ ونٹسنٹ فطری طور پر بہت جلدباز اور بے چین طبیعت کا آدمی ہے لیکن موجودہ صورتحال میں تو اس کے جوش و خروش میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ بالکل وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے اور جلد از جلد ہندوستان پہنچنے کے لیے بےچین ہو جاتے ہیں، مشکل یہ ہے کہ امپریل ایئر ویز کے مسافر بردار ہوائی جہاز جنگ کی وجہ سے یورپ کے اوپر سے پرواز نہیں کر رہے تھے اور وہ افریقه کے راستے سے ایک بہت لمبا چکر کاٹ کر ہندوستان جاتے تھے، جس میں کافی وقت لگ جاتا تھا۔ اس کو قسمت کی ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ 29 جنوری 1942 کو رائل ایئر فورس کا ایک ہڈسن بمبار طیارہ ہندوستان کے لیے روانہ ہو رہا تھا۔ ونٹسنٹ سخت جدوجہد کے بعد اس میں اپنے لئے عملے کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ حاصل کر لیتا ہے تا کہ جلد ہندوستان پہنچ سکے۔ بد قسمتی سے لندن کے کارنش ایروڈوم سے اڑان بھرنے کے تھوڑی دیر بعد یہ طیارہ غائب ہوجاتا ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ اس کو کسی جرمن لڑاکا طیارے نے مار گرایا۔ اس طرح نیویل ونٹسنٹ کی چالیس سالہ زندگی کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔
آج کل پوری دنیا میں ایئر انڈیا کی نجکاری کے منصوبوں کی گونج سنائی دے رہی ہے، آخر کار ٹاٹا گروپ ایئر انڈیا کے اکثریتی حصص حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ J.R.D ٹاٹا ایئر انڈیا کے بانی تھے۔ اس ضمن میں فطری طور پر بار بار ایئرلائن کے اس شاندار دور کا ذکر ہوتا ہے جب جے آر ڈی ٹاٹا اس ادارے کے سربراه تھے۔
بلاشبہ جے آر ڈی ٹاٹا بہت کامیاب بزنس مین اور لیڈر شپ کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے اور جب وہ ایئر انڈیا کے انتظامی سربراه تھے تو وہ زمانہ ایئر انڈیا کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔ لیکن وہ شخص جسے سب نے مکمل طور پر بھلا دیا وہ ہے نیویل ونٹسنٹ جس نے دراصل ایئر انڈیا کا خیال سوچا تھا۔ جنہوں نے ٹاٹا گروپ کو مقامی ایئر لائن قائم کرنے کا آئیڈیا دیا تھا اور جسے جے آر ڈی ٹاٹا نے خود “بلا شبہ ہندوستانی ہوائی نقل و حمل کا بانی” کہا تھا، وہ تھا نیویل ونٹسنٹ۔
نیویل ونٹسنٹ پہلی جنگ عظیم کا تجربہ کار پائلٹ تھا۔ 1920 کی دہائی میں انہوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں پائلٹ اور ہوا بازی کے مشیر کے طور پر کام کیا۔ لیکن پھر وہ ہندوستان میں آن بسے، ان کا خیال تھا ہندوستان میں نوزائیده ہوا بازی کی صنعت کے ترقی کرنے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ 1928 میں ونسنٹ کو ایک نیا کاروباری موقع نظر آیا جب برطانیہ کی امپیریل ایئرویز ایشیا بھر میں اور آسٹریلیا کے لیے ایک بین الاقوامی سروس شروع کر رہی تھی، ساتھ ساتھ ایئر فرانس اور کے ایل ایم جلد ہی ویتنام اور انڈونیشیا کے لیے بھی اسی قسم کی سروس شرو ع کرنے والے تھے۔ اس سروس کا بنیادی مقصد ڈاک کی جلد از جلد ترسیل تھا لیکن اس میں مسافر بھی سفر کرسکتے تھے۔ ہندوستان کے لئے امپیریل ایئر ویز کا منصوبہ یہ تھا کہ ھندوستان کی تمام بین الاقوامی ڈاک کراچی پہنچائی جاۓ، پھر اس ڈاک کو پورے برصغیر میں ریل کے ذریعے تقسیم کیا جاۓ۔ یہ ایک ایسا عمل ہوتا جس میں کئی دن لگ جاتے۔ ونٹسنٹ نے ملایا میں اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک مقامی ایئر میل سروس کا تصور دیا جو کہ کراچی میں بین الاقوامی ڈاک اٹھائے اور اسے 24 گھنٹوں کے اندر ہندوستان کے تمام اندرونی مقامات تک پہنچا دے۔ اس تصور کو عملی شکل دینے کے لیے ایک ایئر لائن کی ضرورت تھی۔ چونکہ اس کے پاس خود ایسی ایئر لائن قائم کرنے کے لیے وسائل نہیں تھے، اس لیے ونٹسنٹ نے اپنا یہ آئیڈیا اس زمانے کہ ایک معروف پارسی صنعت کار سر دوراب جی ٹاٹا کو پیش کیا، جو اس وقت ٹاٹا گروپ کے چیئرمین تھے۔ دوراب جی کو ونٹسنٹ کا آئیڈیا کچھ خاص سمجھ میں نہیں آیا اس لیے انہوں نے زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ ویسے بھی وہ ستر سال کے ہو چکے تھے، لیکن ان کا 24 سالہ نوجوان بھتیجا “جے آر ڈی ٹاٹا” جو خود بھی ایک تربیت يافته ہوا باز تھا اور ہوا بازی کا شوقین بھی تھا، اس نے ونٹسنٹ کے آئیڈیا کو سمجھا اور پھر گروپ کے چیئرمین کو قائل کرنے میں ونٹسنٹ کی مدد بھی کی۔ اس طرح 2 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری سے ٹاٹا سنز لمیٹڈ کا قیام عمل میں آیا۔ ٹاٹا سنز لمیٹڈ میں ونٹسنٹ بطور پارٹنر اور چیف پائلٹ شامل ہوا۔ یہ ایئر انڈیا کی بنیاد کا پہلا پتھر تھا۔ مارچ 1929 میں ٹاٹا سنز لمیٹڈ نے برٹش نوآبادیاتی حکومت کو ہندوستان میں باقاعدہ شیڈول ایئر میل سروس قائم کرنے کی پہلی تجویز پیش کی کہ ٹاٹا ایوی ایشن سروسز امپیریل ایئر ویز کی موجودہ سروس کا دائرہ کار بڑھا دے گی جو وہ انگلینڈ سے کراچی تک فراہم کر رہی ہے۔ کراچی سے ٹاٹا کی ایئر لائن ساری ڈاک جمع کر کے بمبئی لے آئے گی اور اسے 24 گھنٹوں کے اندر ہندوستان کے تمام اندرونی مقامات تک پہنچا دے گی۔
آخر کار ٹاٹا اور ونٹسنٹ کی اس پیشکش کو برطانوی حکام انکار نہیں کر سکے، حکومت کو تقریباً بلا قیمت ایک ایئر لائن کی خدمات مل رہی تھیں۔ 24 اپریل 1932 کو ٹاٹا سنز لمیٹڈ اور حکومت ہندوستان کے درمیان 10 سال کے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور اس کے ساتھ ہی ٹاٹا ایئر لائنز پیدا ہوئی۔ اس پہلی ہندوستانی ایئرلائن نے اصل میں پہلی دفعہ کراچی اور بمبئی کے درمیان ڈاک کو غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی کنٹرول میں پہنچایا تھا۔ یہ پہلی پرواز 15 اکتوبر 1932 کو کراچی کے ڈرگ روڈ ائیرپورٹ سے “جے آر ڈی ٹاٹا” نے اڑائی اور یہ 55 کلوگرام کی ڈاک لے کر احمد آباد کے راستے بمبئی کے جوہو ائیرپورٹ پہنچی۔
1938 میں 34 سالہ جے آر ڈی کو ٹاٹا گروپ کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا، لیکن ان کی بنیادی دلچسپی ایئر لائن میں ہی رہی، جس کے لیے وہ ابھرتے ہوئے عالمی ہوا بازی کے رجحانات کے تناظر میں ایک انتہائی امید افزا شاندار مستقبل دیکھ رہے تھے۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کا پھیلنا، ٹاٹا ایئر لائنز کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گیا۔ حکومت برطانیہ نے فوری طور پر اس کی خدمات کو فوج اور فوجی سامان لے جانے کے لیے مختص کرنے کا حکم دے دیا۔ لیکن ان حالات میں بھی جے آر ڈی اور ونٹسنٹ نے ہمت نہ ہاری اور ایک بہت ہی دلچسپ متبادل موقع ڈھونڈھ نکالا۔ جنگ کے نقطہ نظر سے دونوں کو ہندوستان میں ہوائی جہاز کے کارخانے کے قیام کی اسٹریٹجک ضرورت کا احساس ہوا اور انہوں نے ٹاٹا ایئر كرافٹ فیکٹری پونا کی بنیاد ڈالی۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ٹاٹا ایئر لائنز کو ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی بنا دیا گیا اور اس کا نام تبدیل کر کے ایئر انڈیا رکھ دیا گیا۔
1953 میں حکومت ہندوستان نے ایئر انڈیا کے اکثریتی حصص خرید لیے، اس طرح ایئر انڈیا قومیا لی گئی اور اس کا نام ایک بار پھر تبدیل کیا گیا اور یہ اب ایئر انڈیا انٹرنیشنل لمیٹڈ ہو گئی۔ اس ہفتے تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دہرایا اور اسی ٹاٹا سنز نے جس نے 1928 میں دو لاکھ روپے سے ایئر لائنز کا کام شروع کرتے ہوئے ٹاٹا ایئر لائنز قائم کی تھی، اکتوبر 2021 میں 2.4 بلین ڈالر میں ایئر انڈیا کو دوبارہ خرید لیا۔
آج میرے کانوں میں جہانگیر رتن جی دادا بھائی ٹاٹا کی سوانح حیات میں لکھے گئے یہ الفاظ گونج رہے ہیں؛
“اگر ٹاٹا ایئر لائن نہیں ہوتی تو آج ایئر انڈیا نہیں ہوتی اور اگر نیول ونٹسنٹ نہ ہوتا تو ٹاٹا ایئر لائن نہیں ہوتی”
آخر کار ٹاٹا اور ونٹسنٹ کی اس پیشکش کو برطانوی حکام انکار نہیں کر سکے، حکومت کو تقریباً بلا قیمت ایک ایئر لائن کی خدمات مل رہی تھیں۔ 24 اپریل 1932 کو ٹاٹا سنز لمیٹڈ اور حکومت ہندوستان کے درمیان 10 سال کے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور اس کے ساتھ ہی ٹاٹا ایئر لائنز پیدا ہوئی۔ اس پہلی ہندوستانی ایئرلائن نے اصل میں پہلی دفعہ کراچی اور بمبئی کے درمیان ڈاک کو غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی کنٹرول میں پہنچایا تھا۔ یہ پہلی پرواز 15 اکتوبر 1932 کو کراچی کے ڈرگ روڈ ائیرپورٹ سے “جے آر ڈی ٹاٹا” نے اڑائی اور یہ 55 کلوگرام کی ڈاک لے کر احمد آباد کے راستے بمبئی کے جوہو ائیرپورٹ پہنچی۔
1938 میں 34 سالہ جے آر ڈی کو ٹاٹا گروپ کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا، لیکن ان کی بنیادی دلچسپی ایئر لائن میں ہی رہی، جس کے لیے وہ ابھرتے ہوئے عالمی ہوا بازی کے رجحانات کے تناظر میں ایک انتہائی امید افزا شاندار مستقبل دیکھ رہے تھے۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کا پھیلنا، ٹاٹا ایئر لائنز کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گیا۔ حکومت برطانیہ نے فوری طور پر اس کی خدمات کو فوج اور فوجی سامان لے جانے کے لیے مختص کرنے کا حکم دے دیا۔ لیکن ان حالات میں بھی جے آر ڈی اور ونٹسنٹ نے ہمت نہ ہاری اور ایک بہت ہی دلچسپ متبادل موقع ڈھونڈھ نکالا۔ جنگ کے نقطہ نظر سے دونوں کو ہندوستان میں ہوائی جہاز کے کارخانے کے قیام کی اسٹریٹجک ضرورت کا احساس ہوا اور انہوں نے ٹاٹا ایئر كرافٹ فیکٹری پونا کی بنیاد ڈالی۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ٹاٹا ایئر لائنز کو ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی بنا دیا گیا اور اس کا نام تبدیل کر کے ایئر انڈیا رکھ دیا گیا۔
1953 میں حکومت ہندوستان نے ایئر انڈیا کے اکثریتی حصص خرید لیے، اس طرح ایئر انڈیا قومیا لی گئی اور اس کا نام ایک بار پھر تبدیل کیا گیا اور یہ اب ایئر انڈیا انٹرنیشنل لمیٹڈ ہو گئی۔ اس ہفتے تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دہرایا اور اسی ٹاٹا سنز نے جس نے 1928 میں دو لاکھ روپے سے ایئر لائنز کا کام شروع کرتے ہوئے ٹاٹا ایئر لائنز قائم کی تھی، اکتوبر 2021 میں 2.4 بلین ڈالر میں ایئر انڈیا کو دوبارہ خرید لیا۔
آج میرے کانوں میں جہانگیر رتن جی دادا بھائی ٹاٹا کی سوانح حیات میں لکھے گئے یہ الفاظ گونج رہے ہیں؛
“اگر ٹاٹا ایئر لائن نہیں ہوتی تو آج ایئر انڈیا نہیں ہوتی اور اگر نیول ونٹسنٹ نہ ہوتا تو ٹاٹا ایئر لائن نہیں ہوتی”
(انور اقبال)