آئندہ انتخابات کس طرف لے جائیں گے۔۔۔
عمران خان نے انتخابات کا مطالبہ کردیا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نیب کے طاقتور چیئرمین کا بھی مطالبہ کیا ہے اور الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ سینٹ میں اس بِل جس میں نااہل وزیراعظم کو سیاسی جماعت کا راہبر ہونے کا حق دیا گیا ہے، پاس ہونے کے بعد اس پر بھی عمران خان نے شدید تنقید کی ہے۔ اُن کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ ایک طرف فوری الیکشن کے خواہاں ہیں تو ساتھ ہی ساتھ، الیکشن کمیشن اور نیب میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ انتخابات تین ماہ بعد ہوں یا آٹھ ماہ بعد، اب درحقیقت قبل از انتخابات صورتِ حال برپا ہوچکی ہے۔ آئندہ انتخابات میں یقینا مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ہی بڑی سیاسی جماعتوں کے طور پر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی نظر آرہی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی اپنی ساکھ برقرار رکھنے یا اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے دو طرح سے سرگرم ہے۔ ایک طرف بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں جو یہ سمجھتے ہیں کہ دو تین ترقی پسندانہ تقریریں کرنے والوں کو پنجاب میں متحرک کرکے اور اپنی تقریروں میں ترقی پسندی کی چاشنی ڈال کر پی پی پی کو ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی بنایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف اُن کے والد گرامی آصف علی زرداری جو محلاتی سیاست کے دائو پیچ لگا کر ایسے لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے میں کوشاں ہیں جو انتخاب جیت سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور پھر وہ حکومت سازی میں بنیادی کردار ادا کرکے بڑا حصہ لینے کے درپے ہیں۔ عمران خان سمجھتے ہیں جس قدر وہ نوازشریف کے خلاف سخت موقف لیں گے، اسی قدر اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ عمران خان کی سیاست کا محور نوازشریف ہیں۔
اس صورتِ حال کے علاوہ جو اہم چیز ابھرتی نظر آرہی ہے، وہ نئے مذہبی گروہوں کا سیاست میں ابھرنا ہے، جس کا پہلا مظاہرہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں دیکھا گیا۔ان مذہبی گروہوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی تو کسی انداز میں ’’ترقی پسند مذہبی سیاسی جماعت‘‘ دکھائی دینے لگی ہے۔ لیکن اس ضمنی انتخاب میں اس جماعت کی کارکردگی مایوس کن نہیں بلکہ ایک تحلیل ہوتی سیاسی قوت کے طور پر نظر آرہی ہے اور اس کی جگہ اور مزید کئی مذہبی وفرقہ وارانہ گروہ سیاست ا ور انتخابی سیاست میں اپنا وجود بڑھاتے اور منواتے نظر آرہے ہیں۔ اُن کا منشور چند الفاظ پر مبنی ہے جو وہ اپنی تقریروں میں بیان کرتے ہیں۔ ’’عسکری اثاثوں‘‘ کے فلسفے کے بطن سے جنم لینے والے یہ گروہ اب ابھرتی سیاسی حقیقت کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ غلبہ اسلام کا فلسفہ وہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سے کہیں بہتر طور پر جوش وجذبے سے پیش کرنے میں زیادہ تازہ دم ہیں، نوجوان اور نئے چہروں کی شکل میں اُن کی طاقت واہمیت کو اب درگزر نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان جیسی ایٹمی طاقت کی سیاست اگر یوں ہی تیزرفتاری سے چلتی رہی تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ Leaderless قومیں ہمیشہ بیرونی قیادتوں کو آئیڈیلائز کرتی ہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی کے صدر طیب اردوآن ہمارے ہاں ایک مقبول لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اُن کی تقریروں اور بیانات کو جس قدر پذیرائی ہمارے ہاں ملتی ہے، اس قدر اُن کو اپنے ہاں شاید ہی ملتی ہو۔ بلکہ اُن کا سیاسی، شخصی اور قائدانہ تصور ہمارے ہاں اپنے خوابوں اور خواہشات کے مطابق گھڑا گیا ہے۔ اگر ترک سیاست میں دیکھیں تو اُن کا سیاسی وجود بالکل مختلف ہے۔ وہ آج کل ترکی کی سب سے بڑی مذہبی تحریک فتح اللہ گلین جو ملاں سعید نورسی کے پیروکار ہیں، کو مکمل طور پر کچلنے میں مصروف ہیں، کہ اُن کے بقول فتح اللہ گلین Fethullah Gülen Terrorist Organization (FETO) ہے اور FETO نے امریکہ کی سرپرستی میں ترکی میں فوجی بغاوت برپا کی۔ حکمرانی اور سیاست کے اس مرحلے میں وہ ملی حرکت پارٹی (MHP) کے ساتھ مل کر دہشت گرد کُردوں کا شدت کے ساتھ قلع قمع کررہے ہیں۔ ملی حرکت پارٹی، تنگ نظر قوم پرست ترک نظریات کی حامل جماعت ہے اور اتاترک کو اپنا عظیم رہبر مانتی ہے جبکہ مین اپوزیشن ترک جماعت ریپبلیکن پیپلزپارٹی جس کی بنیاد ہی اتاترک نے رکھی ہے، ایک سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ہے۔ وہ تنگ نظر قوم پرستی کی بجائے کمال ازم کی تعریف سوشل ڈیموکریسی کے تناظر میں کرتی ہے۔ اس صورتِ حال سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ایک Leaderless Nation کس طرح اپنے خوابوں میں بیرونی رہبروں کا خاکہ اپنے ذہنوں میں بناتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ گروہ اور ان جیسے دیگر، صدر ترکی کو ملاں عمر، اسامہ بن لادن کی شکل میں ایک ہی سیاسی سلسلے کا تسلسل سمجھتے ہیں۔ مغالطوں، مبالغوں، وسوسوں، خود فریبی میں رہنے والی قومیں ہمیشہ فیصلے جذباتی اور سطحی انداز میں کرتی ہیں۔ پاکستان کا آئندہ انتخابی منظرنامہ جو بھی ہوگا، لیکن ایک بات طے ہے کہ جنرل ضیا اور جنرل حمید گل مرحومین کے سیاسی فلسفے کو ہم انتخابات میں شامل دیکھیں گے۔ انتخابات سے پہلے اور بعد میں مسلم لیگ (ن) میں تقسیم برپا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انتخابات کے بعد سب موجود سیاسی طاقتیں بشمول پی پی پی، اے این پی، ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے، جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ (ن) کا باغی دھڑا حکومت بنانے میں لاکھڑا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن میرے جیسے عام سے قلم کار کے لیے اہم سیاسی تبدیلیاں وہ نہیں ہوتیں جو تعداد یا وجود میں بڑی ہوں، اہم سیاسی تبدیلی وہ ہوتی ہے جو غیر متوقع، غیر یقینی، ناقابل تصور ہو۔ آئندہ انتخابات ایسی اہم تبدیلی کو سامنے لارہے ہیں۔ پاکستان میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر سیاست اور انتخابی جمہوریت کا سفر اب تیزرفتار ہوتا جارہا ہے۔ جب ہم سماج کے معاشی، اقتصادی، ثقافتی ڈھانچے کو توڑے بغیر جمہوریت جمہوریت، جمہوریت کی رٹ لگائے رکھیں گے تو پھر وہی جمہوریت ابھرے گی جن کی جڑیں سماج کے معاشی وثقافتی ڈھانچے میں گہری ہیں۔
یقینا چند ماہ بعد انتخابات کے بعد کوئی حکومت تو بن جائے گی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سماج کس طرف جا رہا ہے؟ جمہوریت، انتخاب، پارلیمنٹ اور سیاسی حکومت تک محدود رہے تو ایسا ہی ہوتا ہے، جو ہمارے ہاں ہورہا ہے۔جہاں سیاسی قیادتیں قتل کردی جائیں، وہاں پر بونے سر نکالتے ہیں یا غیروطن رہنمائوں کو اپنا ہیرو ٹھہرا کر سکونِ قلب حاصل کیا جاتا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا، ہمارے ہاں ہٹلر بھی ایک مقبول لیڈر ہے۔ ایک فاشسٹ جس نے تاریخ انسانی میں قتل وغارت کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ یہ کس ذہنی نفسیاتی کمزوری کا اظہار ہے؟ یقینا کمزور قومیں ایسا کرتی ہیں۔ جذباتی تقریروں اور لچھے دار تجزیوں سے لوگ یا قومیں بہادر قرار نہیں دی جاسکتیں۔ قوموں کی بہادری کے پیمانے اُن کا سیاسی وریاستی ڈھانچا ہوتا ہے۔ علم وسائنس میں جوہر دکھانے والی قومیں بہادر یا کامیاب ہیں۔ جذباتی تقریریں کرنے والی قوموں کی بھلا کیا حیثیت۔ جس طرح ہمارے ہاں ریاست بکھرنا شروع ہوئی، پھر سماج ، اب جمہوریت بھی بکھرنا شروع ہوگئی۔ آئندہ انتخابات کے بعد ہم اس منظرنامے کو آسانی سے دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ افسوس عمران خان اس بکھرنے کے عمل کو روکنے کے شعور اور ادراک ہی سے محروم نکلے۔ انہوں نے بھی بکھرنے کے اس عمل کو Enhance کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر وہ اپنی سیاست کو عوامی فکر کی بنیاد پر کھڑا کرتے تو یہ عمل رک سکتا تھا۔ جیسے شخصی سیاست کرنا کوئی کمال نہیں، اسی طرح سیاسی عمل میں کسی ایک شخصیت کو نشانہ بنانا بھی کوئی کمال نہیں۔ اُن کی سیاست دو ستونوں پر کھڑی ہے۔ ایک ستون نوازشریف اور دوسرا ستون عمران خان۔ ایک غلط، دوسرا درست۔ یہ ہے اُن کی سیاست کا عنوان۔ گمشدہ قومیں ایسے ہی لیڈر جنم دیتی ہیں۔
آئندہ انتخابات کیا جمہوریت کو مضبوط کریں گے؟ یہ سوال اُن کے لیے بھی ہے جو جمہوریت کے تسلسل کے نئے نئے علمبردار بنے ہیں۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اگر گندا پانی پی کر جی رہے ہوں تو اس دوران یہ شعور دیا جائے کہ یہ گندا پانی ہے، یہ پیاس اور عارضی زندگی کا سبب تو ہے لیکن حتمی طور پر یہ گندا پانی موت کا سبب بھی ہے، اس لیے پانی کو صاف کرکے پیا جائے۔ تو ایسے ہی ہماری جمہوریت ہے۔ جمہوریت کو سماجی ڈھانچے سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ قومیں ایٹم بموں سے مضبوط نہیں بلکہ علم اور شعور سے مضبوط ہوتی ہیں۔ ہم نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جو سفر شروع کررکھا ہے، اس پر مکمل غور کی ضرورت ہے۔ جہاں کی دانش جہالت پر کھڑی ہوجائے۔۔۔ پاکستان کا سماج ایک مکمل فکری، شعوری اور علمی تبدیلی کا تقاضا کررہا ہے۔ اگر ہم نے عراق، شام اور لیبیا میں برپا تبدیلیوں سے بھی سبق نہیں سیکھا اور اُن لوگوں کو اپنا ہیرو بنا لیا ہے جو وہاں کے ولن ہیں۔ تو پھر کیا کہا جائے۔ ابھی وقت ہے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں ان نکات پر غور کریں جس کا اشارہ اس تحریر میں کیا ہے۔ سیاسی جماعتیں ہی قوموں کا مقدر بدلتی اور بناتی ہیں۔ اُن کو اس انداز میں منظم کرنے اور چلانے کی ضرورت ہے جو سماج کو بدلنے میں بھی اپنا کردار ادا کریں، نہ کہ محض حکومتیں بدلنے تک کا کردار۔
“