ایک زندہ اور ایک مردہ بچی کی کہانی
1945 میں نازی عقوبتی کیمپ میں مرنے والی پندرہ سالہ یہودی بچی اینیلیز فرینک محض یہودی ہونے کے جرم کی مرتکب تھی۔ اسی جرم میں گرفتار ہونے سے پہلے 1942 سے 1944 تک اپنے گھر کی پرچھتی پر بیٹھ کر وہ روز کی باتیں اپنی ڈائری میں لکھتی رہی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں۔ اپنی بہنوں سے لڑائی، اپنی ماں کی شکایتیں، اپنی دوستوں کے چٹکلے، اپنے باپ کی شفقت، کھانے کی اپنی پسند، اپنے معصوم سے خواب، اپنی زندگی کے منصوبے اور نجانے کیا کیا کچھ۔ جہاں ڈائری میں یہ ساری باتیں تھیں وہیں بارہ تیرہ سالہ انیلیز نے اپنے ڈر، اپنے خوف اور اپنی پریشانیاں بھی لکھ ڈالیں۔ ہر وہ پابندی جو ہالینڈ کے شہری جرمنوں کے ہاتھوں برداشت کرنے پر مجبور تھے، انیلیز کی ڈائری کا حصہ بن گئی۔
یہ ڈائری جنگ ختم ہونے کے بعد اس کے باپ نے 1946ء میں شائع کروائئ۔ اور آج ہم اسے ’’این فرینک کی ڈائری‘‘ کے نام سے جاتنے ہیں۔ اس ڈائری نے پوری انسانیت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ ایک تاریخ دان نے کہا۔ ’’ یہ ڈائری نہیں ہے۔ یہ ایک بچی کی آواز میں ظلم کے خلاف سب سے بڑی گواہی ہے۔ نیورم برگ میں پیش کی گئی ساری گواہیوں سے زیادہ پر اثر اور زیادہ طاقتور"
یہودیوں نے اس ڈائری کو اپنے سر کا تاج بنا لیا۔ یہ ڈائری دنیا کی سب سے زیادہ چھپنے والی کتابوں میں سے ایک ہے اور این فرینک اس ڈائری کی زبانی قربانی، عزم، حوصلے اور صبر کا استعارہ بن گئی۔ 1999ء میں ٹائم میگزین نے این فرینک کو بیسویں صدی کے عظیم ترین ہیروز میں شامل کیا اسے آج بھی انسانی عزت و احترام کے لیئے بلند کی جانے والی طاقتور ترین آواز سمجھا جاتا ہے۔
ایسی ہی ایک ڈائری ایک اور قوم کے پاس بھی تھی اور ہے۔ ایسی ہی ایک اور آواز ظلم اور جبر کے خلاف آج بھی توانا ہے۔ موت کے منہ سے واپس آئی ہوئی اس آواز کا بھی نعرہ صرف انسانیت اور احترام انسانیت ہے۔ فرق شاید صرف قوم کا ہے۔ یہ بات سمجھنا کوئی دشوار نہیں کہ نہ پندرہ سالہ این فرینک نے کوئی دستور لکھا تھا نہ آج کی اس آواز نے کوئی حکومت چلائی ہے۔ یہ تو استعارے ہیں صبر، عزم، حوصلے اور بہادری کے جن کی تلاش میں قومیں اپنی پوری زندگی گزار دیتی ہیں۔ یہودیوں نے این فرینک سے محبت کی اسے اپنا آئیڈیل جانا اور اسے پوری قوم کا اثاثہ بنا دیا۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے ملاله کے ساتھ کیا کیا؟ شاید زندہ اور مردہ قوموں میں یہی فرق ہوتا ہے۔ زندہ قومیں اپنی مری ہوئی بچیوں کو بھی زندہ رکھتی ہیں اور مردہ قومیں اپنی زندہ بچیوں کو بھی مار ڈالتی ہیں، کبھی گولیوں سے، کبھی طعنوں سے اور کبھی اپنی نفرت سے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔