پروین شاکر
جستجو کھوئے ہُوو ں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر
شِہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
ہم نے خود سے بھی چھپایا اور سارے شہر کو
تیرے جانے کی خبر دیوار و دَر کرتے رہے
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا،اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر،کرتے رہے
آج آیا ہے ہمیں بھی اُن اُڑانوں کا خیال
جن کو تیرے زعم میں ' بے بال و پر کرتے رہے
احمد علی برقیؔ اعظمی
زندگی جن کے لئے شیر و شکر کرتے رہے
دل کی دنیا وہ مرے زیر و زَبَر کرتے رہے
اُن کی تصویرِ تصور تھی نظر کے سامنے
’’چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے‘‘
ہم پہ جو گذری کسی پر بھی نہ گذرے وہ کبھی
اُن کے غم میں خونِ دل خونِ جگر کرتے رہے
کام آئے کچھ نہ میرے نالہ ہائے نیم شب
میرے وہ سوزِ دروں کو بے اثر کرتے رہے
پُرسشِ احوال کو آئے نہ میری وہ کبھی
جیسے تیسے زندگی اپنی بسر کرتے رہے
اپنی نادانی پہ ملتے ہیں کفِ افسوس اب
ناز برداری نہ کرنی تھی مگر کرتے رہے
نذر ہے پروین شاکر کی مری طرحی غزل
جن کے گلہائے سخن ہر دل میں گھر کرتے رہے
وہ دکھاتے تھے ہمیشہ ہم کو برقیؔ سبز باغ
ہم مسلسل انتظارِ نامہ بر کرتے رہے