نیل ڈی گراس ٹائسن (ماہر فلکیات)
انٹرویو لینے والا (لیری کنگ)
ترجمہ: قدیر قریشی
لیری کنگ: آپ جانتے ہیں کہ مذہبی حضرات ایمان بالغیب رکھتے ہیں جبکہ سائنس دان ثبوت کے بغیر بات نہیں کرتے – آپ کے عقائد کیا ہیں؟ آپ کے خیال میں مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ؟
ٹائسن: موت کے بعد کیا ہوتا ہے اس بارے میں میں دیانت داری سے صرف وہی کچھ کہہ سکتا ہوں جس کے شواہد موجود ہیں – آپ تمام عمر غذا کھاتے ہیں جس میں توانائی ہوتی ہے جسے کیلوریز سے ناپا جاتا ہے – یہ توانائی آپ کے جسم میں سٹور ہوتی ہے جسے آپ کا جسم استعمال کر کے آپ کو ایک مستقل درجہِ حرارت یعنی 98.6 ڈگری فارن ہائیٹ پر رکھتا ہے- اگر آپ کے ارد گرد کا درجہِ حرارت اس سے کم ہے تو آپ کا جسم 98.6 کا درجہِ حرارت کیسے برقرار رکھتا ہے؟ یہ یوں ممکن ہے کہ ہم جو توانائی غذا کے ذریعے جسم میں پہنچاتے ہیں ہمارا جسم اس توانائی کو استعمال کر کے حرارت پیدا کرتا ہے – حیاتیاتی طور پر ہمارے زندہ رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمارا جسم اس مستقل درجہِ حرارت پر رہے – اس کے علاوہ آپ کو چلنے پھرنے اور کام کاج کے لیے بھی توانائی کی ضوروت ہوتی ہے – موت کے بعد آپ کا دماغ آُپ کے جسم کا درجہِ حرارت برقرار نہیں رکھ سکتا اس لیے مردہ جسم کا درجہِ حرارت ارد گرد کے ماحول کے درجہِ حرارت کے برابر ہوجاتا ہے – اگر آپ کسی تجہیز خانے میں موجود لاش کو چھوئیں تو آپ کا پہلا ردِ عمل یہ ہوتا ہے کہ لاش بہت ٹھنڈٰی ہے – یہ لاش ٹھنڈی نہیں ہے بلکہ عین اس کمرے کے درجہ حرارت پر ہے – البتہ چھونے والے کے جسم کے درجہِ حرارت کے مقابلے میں لاش کا درجہِ حرارت کم ہے کیونکہ مردے کے جسم میں وہ توانائی استعمال نہیں ہورہی جو جسم کو 98.6 ڈگری پر رکھتی ہے۔ آپ کے جسم کے ہر مالیکیول میں توانائی موجود ہوتی ہے – اگر آپ کی لاش کو جلا دیا جائے تو یہ توانائی حرارت کی صورت میں فضا میں خارج ہوجاتی ہے اور وہاں سے شعاعوں کی شکل میں سپیس میں پھیل جاتی ہے – اس کے برعکس اگر آپ کو دفن کیا جائے تو ایسا نہیں ہوتا – میں یہ چاہوں گا کہ مجھے مرنے کے بعد دفن کیا جائے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے جسم کی توانائی محض خلا میں پھیل کا ضائع ہوجائے اور کسی دوسرے کے کام نہ آئے – مجھے زمین میں دفنایا جائے تاکہ کیڑے اور جراثیم میرے جسم کی توانائی کو اپنی افزائش کے لیے استعمال کریں – کیونکہ میں نے یہ توانائی زندگی بھر زمین کے پودے اور جانور کھا کر ہی حاصل کی ہے اور میں چاہوں گا کہ میری موت کے بعد یہ توانائی زمین کو واپس کردی جائے اور یوں زندگی کا یہ سلسہ چلتا رہے – میں جانتا ہوں کہ یہ ایسے ہی ہوگا کیونکہ ہم یہ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ توانائی کس طرح اور کہاں جاتی ہے – میں اپنا اختتام اس طرح چاہوں گا ۔
کنگ: موت کے بعد آپ کا شعور نہیں ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر موجود رہے گا – درست؟
ٹائسن: اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مرنے کے بعد شعور زندہ رہے گا – لیکن کیا یہ کوئی مضحکہ خیز بات ہے؟ کیا آپ کے پاس پیدائش سے پہلے کوئی شعور تھا؟ کیا آپ پیدائش سے پہلے یہ سوچتے تھے کہ میں ابھی تک زمین پر کیوں نہیں گیا؟ مجھے زمین پر جانا ہے؟ میں کہاں ہوں؟ نہیں – پیدائش سے پہلے شعور غیر موجود تھا – وہ آپ کے لیے ایک عدم وجود کی حالت تھی ۔
کنگ: جی – لیکن اب میں پیدا ہوچکا ہوں اور اب میں اپنے شعور کے نہ ہونے کے بارے میں سوچنا برداشت نہیں کرسکتا – میں جانتا ہوں کہ پیدائش کے بعد اب میرا وجود ہے ۔
ٹائسن: جی ہاں – یہ درست ہے کہ ہم سب موت سے ڈرتے ہیں – کیونکہ آپ کے پیدا ہونے کے بعد آپ کو صرف اس بات کا شعور ہے کہ آپ زندہ ہیں اور وجود رکھتے ہیں – میں مانتا ہوں – لیکن میں اسے مسئلے کو ایک اور پہلو سے دیکھتا ہوں – کیونکہ یہ سوال مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ اگر آپکو ابدی حیات ملے تو کیا آپ اسے قبول کریں گے؟
کنگ: ہاں
ٹائسن: (ہنستے ہوئے) چلیے – یہ انٹرویو تو ختم ہوگیا – آپ کا جواب ہاں میں ہے – چلیے – یہ یقیناً ایک دلچسپ خیال ہے – لیکن میرا خیال ہے کہ یہ علم کہ ہمیں ایک دن مر جانا ہے مجھے فوکس عطا کرتا ہے اور مجھ میں یہ تحریک پیدا کرتا ہے کہ میرے پاس وقت کم ہے اور مجھے بہت سا کام کرنا ہے – مجھے بہت سے لوگوں سے پیار کا اظہار کرنا ہے اور ابھی کرنا ہے بعد میں نہیں – اگر ہمیں ہمیشہ زندہ رہنا ہو تو ہر روز صبح بستر سے نکلنے کی جلدی کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ اس صورت میں آپ کے پاس بہت وقت ہوگا – آپ یہ کام کل بھی کر سکتے ہیں – میں ایسی زندگی نہیں گذارنا چاہتا –
کنگ: لیکن کیوں؟ کیا آپ کو مرنے کا خوف نہیں ہے؟
ٹائسن: مجھے ایسی زندگی سے خوف آتا ہے جس میں میں کچھ کر سکتا تھا لیکن میں نے نہیں کیا – مجھے صرف اس بات کا خدشہ ہے – مجھے مرنے سے ڈر نہیں لگتا
کنگ: آپ کو نامعلوم چیزوں سے خوف نہیں آتا ؟
ٹائسن: مجھے انجانی چیزیں تو اچھی لگتی ہیں – کیا آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے لوحِ مزار پر کیا لکھوانا چاہوں گا؟ یہ خواہش میری ہمشیرہ کے پاس ان کے نوٹس میں محفوظ ہے تاکہ اگر میں مرنے سے پہلے لوگوں کو یہ خواہش نہ بتلا سکوں تو اس کا ریکارڈ پہلے سے موجود ہو – یہ Horace Mann کا ایک قول ہے جو کہ بہت بڑے ماہرِ تعلیم تھے ‘اگر آپ نے انسانیت کے لیے کچھ فتوحات نہیں کیں تو آپ کو مرتے ہوئے شرم آنی چاہیے’ میں اپنے لوحِ مزار پر یہ لکھوانا چاہوں گا –
کنگ: لیکن آپ کو مرنے کا یا معدوم ہونے کا کوئی خوف نہیں ہے؟
ٹائسن: مجھے مرنے کا اگر کوئی قلق ہوگا تو یہ کہ کاش میں اپنے بچوں کو پھلتے پھولتے دیکھ پاتا۔
کنگ: لیکن کیا آپ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھنا چاہتے؟
ٹائسن: ظاہر ہے کہ اگر ایسا ہو تو اچھا ہوگا – میں یہ دیکھنا چاہوں گا کہ انسان اپنی مجموعی ذہانت سے کون سی نئی ایجادات کرے گا جو انسانی زندگی کو مزید آسان بنا پائیں گی ۔
کنگ: جب آپ ایسے مذہبی لوگوں کو دیکھتے ہیں مثلاً پوپ یا یہودیوں کے ریبائی یا بلی گراہم جو انتہائی دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ درست ہیں – کیا وہ مالیخولیا کے مریض ہیں؟ یا وہ کسی مقام پر ہیں؟
ٹائسن: وہ اپنے عقائد کی دنیا میں ہیں – جب میں تمام عقائد کو مجموعی طور پر دیکھتا ہوں تو یہ دیکھتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ میل نہیں کھاتے – ان کے عقائد خواہ کچھ بھی ہوں وہ تمام کے تمام سچ نہیں ہوسکے اور ہر انسان پر لاگو نہیں ہوسکتے – کیونکہ دوسرے لوگ ان سے مختلف عقائد رکھتے ہیں اور اسی شدت سے اپنے عقائد کی حقانیت کو مانتے ہیں – میں چونکہ معروضی حقائق کا متلاشی ہوں اس لیے جب میں ان سب عقائد کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی راستہ معروضی حقائق کی طرف لے جانے کی قدرت نہیں رکھتا – لوگوں کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ جو چاہیں وہ کہیں – یہ میں ایک ایسے ملک کے شہری کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں جو کہ کسی بھی مذہب کی بنیاد پر نہیں بنا بلکہ سیکولر خیالات پر قائم ہوا اور ہر مذہب کو یکساں حفاظت فراہم کرتا ہے (اس حق کا تحفظ ہمارے آئیں میں ہے) – ہمارا آئین لفظ ‘خدا’ کو استعمال نہیں کرتا جو کہ آئیں کے بننے کے زمانے میں بذاتِ خود ایک متنازعہ بات تھی – لیکن ہمارے ملک کے بنانے والے رہنما یہ نہیں چاہتے تھے کہ ریاست خدا کے کسی ایک تصور کی حمایت کرے اور اسے زبردستی سب پر ٹھونس دے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حکومتیں کس طرح ان لوگوں کا استحصال کرسکتی ہیں جو حکومت کے مذہب سے اتفاق نہ کرتے ہوں – وہ یہ سب جانتے تھے اسی لیے انہوں نے یہ سب آزادیاں فراہم کیں اور ہم آج آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں – لیکن اگر ہم کوئی ایسا قانون بنانا چاہتے ہیں جو ہرایک پر یکساں لاگو ہو اور آپ اس قانوں میں اپنا مذہب داخل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک آزاد اور کھلی جمہوریت نہیں ہوگی ۔
کنگ: اور آپ بلاشبہ ایک حیرت انگیز شخصیت ہیں ۔۔۔
https://web.facebook.com/groups/497005653807304/permalink/1975408232633698/
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...