آج بیری کی ٹہنیاں کاٹ رہا تھا تو چیچی اُنگلی میں کانٹا لگ کر اندر ہی ٹوٹ گیا _ کافی گہرائی میں تھا _ گھر میں نکالنے کی کوشش کی پر سُوئی نا ملی _ بیٹے پاس ٹوٹا تین سو ہی تھا ، وہ پکڑا ، بائک کو کک لگائی اور پونے آٹھ بجے شام درد سے سی سی کرتا ، موبائل بھی گھر بھولتا کانٹا نکلوانے مین روڈ ملت ٹاؤن ڈاکٹر صاحب پاس چل دیا _
تیس روپے کانٹا نکلوانے کے دیئے _ کلینک کے سامنے ریڑھی کھڑی تھی ، دو سو ستر روپے کے آٹھ کلو پیاز خریدے اور مُکمل خالی پاکٹ واپس گھر کو چل دیا _
اندھیرا ہو چکا تھا _ جبھی میں قبرستان کے کارنر پر اوپن یونیورسٹی والی روڈ کے سامنے پہنچا تو دائیں سے ایک ون ٹو فائیو والا لڑکا میرے برابر آیا اور پوچھنے لگا کہ سر جی دھنولہ کتنی دور ہے _ میں بتانے لگا تو بولا بائیک سائیڈ پر لگا کر بتائیں _
میں سمجھ گیا کہ کیا ہونے والا ہے _ بائیک سائیڈ پر روکی تو وہ بولا کہ آگے اندھیرے میں ہو جاؤ _کلاش پارک کی باؤنڈری ساتھ اندھیرے میں ہوا تو گن پوائنٹ پر بڑی بدتمیزی سے بولا بائیک سے اُترو _ اُتر کر کھڑا ہوا تو اُس نے میری تلاشی لینا شروع کر دی _
پاس تو کچھ تھا ہی نہیں _ موبائل تک تو میں گھر بھول آیا _ اُس نے میری مکمل تلاشی لی _ پنڈلیوں پر ہاتھ مارا _ شلوار کا نیفہ چیک کیا _ وہ کھسیانہ ہو کر ممنوعہ علاقے کی تلاشی بھی لینے لگا تو میں نے کہا _ کاکا ڈاکو بنڑ ، ٹھرکی نا بنڑ _
تھک ہار کر اس نے پوچھا کہ _ چاچا پیسے کتھے نیں تے موبائل کتھے وے _ تو میرا جواب تھا کہ چار ماہ سے بزنس بند ہے _ نا پاس پیسے ہیں اور نا ہی موبائل _ تم نے تلاشی لے لی ، کچھ ہوتا تو مل نا جاتا _ آخر میں اُس نے بائیک کی چابی مانگی لیکن پُرانا بائیک تھا ، بغیر چابی کے سٹارٹ ہونے والا تو چابی بھی ہوتی تو دیتا _
اس بات پر اُسے غصہ آیا _اُس کے دائیں ہاتھ میں پسٹل تھا تو بائیں ہاتھ سے اُس نے مجھے تھپڑ لگانے کی کوشش کی لیکن میں نے سر جھٹکا اور اُس کی اُنگلی میری ٹھوڑی کو ٹچ کر کہ گُزر گئ _
میرا کچھ بھی نقصان ہو جاتا ، میرے لئے قابل برداشت تھا _ میں جوابا" کچھ بھی نا کرنا چاہتا _ لیکن یہ تھپڑ والی بات قطعا" ناقابل قبول تھی _ مجھے اپنی سخت توہین محسوس ہوئی _ تھپڑ مجھے لگا یا نا لگا اُس نے میرے پر ہاتھ کیوں اٹھایا ۔
وہ سٹارٹ بائیک پر واپس بیٹھا ، ایکسلریٹر دیا اور چل پڑا _اگلے تقریبا" دو ، تین سیکنڈ میں میں نے اُنگلیوں سے اپنی بائیک کا پہلے سے کچھ ٹوٹا سائیڈ ٹاپہ توڑا _ پسٹل نکالا اور اُس باڈی بلڈر ٹائپ لڑکے کی کمر کا نشانہ لیا _ قریبا" سو ، سوا سو فٹ فاصلہ اور سڑک پر روشنی تھی ، ٹرینڈ بندہ ہوں _ ایک فیصد بھی گنجائش نا تھی کہ وہ میرے فائر سے بچ جاتا _ لیکن ٹریگر دباتے دباتے اپنے آپ کو روک لیا _
میں نے دل میں کہا _ بیٹا ٹھیک ہے تیری ماں تُجھے اس گندے دھندے سے نا روک سکی _ اُسے اسکی سزا ملنی چاہیئے _
لیکن تب بھی _ جا تُجھے تیری اُسی بوڑھی ماں کے صدقے معاف کیا _ وہ گھر پر تیرا انتظار کر رہی ہو گی _