ایک تھی رادھا !
آٹھویں قسط :
(تحریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں)
رادھا کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا,آنکھوں کے آگے تاریکی بڑھ گئ,اس نے خود کو بہت مشکل سے سنبھالا.خیمے میں رکھی لکڑی کی تپائی پر چائے کا پیالہ رکھ کر وہ باہر نکل آئی.اور اپنے خیمے میں آکر لمبے لمبے سانس لینے لگی.جیسے بہت لمبا سفر طے کر کے آئی ہو,جونی اس وقت کہاں جا سکتا ہے.دن بھر کی مشقت کے بعد سب تھک ہار کر سو چکے تھے.کہیں جونی ساچی کے ساتھ…اس سوچ سے ہی اس کا سر چکرا گیا.وہ اس وقت کہاں جائے جونی کو ڈھونڈنے.وہ خیمے کے باہر آکر بیٹھ گئ.رات بھیگنے لگی تھی.اگر جونی ساچی کے پاس گیا ہے تو وہ دائیں طرف سے ہی آئے گا,وہ سو چنے لگی,اللہ کرے یہ سب اس کا وہم ہو.بہت سے لمحے بیت گئے,اس کی کمر اکڑگئ.دور سے اذان کی آوازیں آنے لگیں تھیں,اسی وقت دائیں جانب سے جونی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی,رادھا تو آہٹ سےہی جونی کو پہجان لیتی تھی,وہ تیزی سے سرک کر خیمے کی اوٹ میں ہو گئ.جونی تیز تیز قدموں سے اپنے خیمے کی طرف بڑھ گیا,رادھا اسے پیچھے سے جاتا ہوا دیکھتی رہی,جونی بہت دیر سے جاگا تھا.رات کو بہت سوئے تم,رادھا نے کہا,ہاں تھکا ہوا تھا,سر میں بھی درد تھا.جاتے ہی سو گیا.جونی اطمينان بھرے لہجے میں بولا.اچھا کیا جو سوئے رہے,اب تازہ دم ہو گئے,رادھا نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا,ہاں ہاں وہ کچھ سوچ کر مسکرا دیا.ہیلو کیا ہو رہا ہے,اچانک وہاں ساچی آگئ.رادھا اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی یوں کہ جیسے اس کی چہرے پر رقم رات کی ساری داستان ہی پڑھ لے گی,ساچی کے خوبصورت چہرے پر ایک سرخوشی اور سر شاری تھی.رادھا کا چہرہ اور تاریک ہو گیا,اچھا بھئ آپ لوگ باتیں کرو میں ذرا ٹیلر کو اپنا ناپ لکھوا آوں کل سے تو میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ اوپن پر فارم کروں گی,وہ مسکرا کر آگے بڑھی.رادھا اسے جاتا دیکھنے لگی,اچانک اس نے اسے آواز دی.ساچی…ساچی نے وہیں سے ایک ادا کے ساتھ آدھا مڑکر اسے دیکھا,کیا ہے رادھا ?
تمھارے پاوں میں تو کل موچ نہیں آئی تھی.جونی بتا رہا تھا.رادھا نے سوال داغا.موچ ساچی کچھ سوچنے لگی.ہاں ہاں وہ کل تمھارا پاوں الٹا ہو گیا تھا نا جونی جلدی سے بیچ میں بولا, ہاں ہاں میں تو بھول ہی گئ,ساچی مسکرا کر بولی.اب میں ٹھیک ہوں وہ جلدی سے یہ کہہ کر آگے بڑھ گئ.کمال ہے ایک رات میں ہی موچ ٹھیک بھی ہو گئ.رادھا بڑبڑائی.جونی نے اس کی بات سنی ان سنی کردی.چلو تیار ہو جاو ہماری باری آنے کو ہے.اب ساچی بھی سب کے سامنے جونی کے ساتھ پر فارم کر نے لگی تھی جونی ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ساچی کو ہی اپنے نگاہ میں لئے رکھتا جھولتے ہو ئے اس کی باری پر دور تک پینگ لے جاتا,ساچی کو زیادہ بار آنے کا موقع دیتا,رادھا کا دل دکھتا,اسی تکلیف میں اس سے پرفارم کرنا مشکل ہو جاتا,اس نے اس رات کے بارے میں جونی سے کوئی بات نہیں کی تھی,لیکن یہ بات اسے ازبر ہو گئ تھی کی مرد کی پہرہ داری نہیں ہو سکتی.اب بس اسے صرف ایک ہی جنون سوار تھا کہ جلد ازجلد وہ جونی کو ہمیشہ کے لئے پا لے,وہ اس دن خود ہی میاں جی کے پاس جا پہنچی.اسے ان پر بہت یقین تھا,ماں کی بیماری میں بھی تو میاں جی نے اس کا ساتھ دیا تھا,آو آؤ رضیہ ,میاں جی اسے ہمیشہ اس کے اصلی نام سے پکارتے.وہ سلام کر کے زمین ہر بچھی قالین پر بیٹھ گئ.اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اپنے آنے کا مقصد کیسے بیان کرئے,اس کے ہو نٹ خشک ہو رہے تھے,بو لو رضیہ بچے.میاں جی کے شفقت بھرے لہجے نے اس کی ڈھارس بندھائی.اس نے اپنے اور جونی کی شادی کی درخواست ان کے سامنے بیان کردی,میاں جی کچھ سوچ کر بولے کیا جو نی کی بھی یہی مرضی ہے.جی میاں جی بالکل,وہ پر اعتماد انداز میں بولی,اچھا پھر بھلا مجھے کیا اعتراض ہو گا,تم دونوں بچپن سے میرے پاس ہو,میں اپنے ہاتھوں سے یہ فریضہ سر انجام دوں گا,یہ کچھ رقم تم رکھ لو,حسنی اور شکیلہ کے ساتھ مل کر کچھ ضرورت کی چیزیں لے لو.میں کسی مناسب تاریخ کا اعلان کر دیتا ہوں .رادھا رقم لے کر ان کی طرف کمر کئے بنا باہر آگئ.اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی,وہ بھاگتی ہوئی جونی کے پاس آئی جو رسیاں کس رہا تھا,
جو نی جو نی وہ چیختی ہوئی اس کی طرف بڑھی اور جونی سے جا کر لپٹ گئ.کیا ہوا رادھا جونی حیران ہو کر بولا.لگتا ہے تمھاری لاٹری نکل آئی ہے.وہ اسے خود سے الگ کرتے ہو ئے بولا.
جاری ہے
https://www.facebook.com/errum.malik.5/posts/220638465053334
“