ایک تھی رادھا !
ساتویں قسط:
(تحریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں)
ساچی کی محبت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا.جونی ساچی کی معصوم اداوں اور ملکوتی حسن پر مر مٹا تھا,رادھا کو بہت جلد اس بات کی بھنک پڑ گئ.مگر اسے
جو نی پر بہت اعتبار تھا,عورت ہمیشہ مرد سے یقین کے معاملے میں مار کھاتی ہے.رادھا کو ساچی کے وجود سے چڑ ہونے لگی,وہ زیادہ سے زیادہ کو شش کرتی کہ جونی اور ساچی ایک دوسرے سے الگ رہیں,وہ شو کے بعد بھی وہیں رکی رہتی.اب ساچی کو بھی رادھا کا ان دونوں کے درمیان موجو د رہنا زہر لگتا تھا,مگر وہ کچھ کہہ نہیں سکتی تھی.رادھا سرکس کی پرانی کھلاڑی اور جونی کی پارٹنر تھی,البتہ جونی کو اب رادھا کا وجود کھٹکنے لگا تھا,ساچی کے حسن کے سامنے رادھا کی سانولی سلونی رنگت اور سیاہ ہو جاتی,وہ اسے بہانوں بہانوں سے ادھر ادھر بھیجتا رہتا,رادھا جاو چائے لے آو,سموسے بھی پکڑ لاو.رادھا کو جونی کے حکم پر جانا پڑتا,اس دن بھی یہی ہوا تھا,رات کے شو کے اختتام پر وہ اور جونی ساتھ ساتھ خیموں کی طرف آئے تھے,جونی نے اس کے پو چھنے پر بتا یا کہ آج ساچی کے پاوں میں موچ آگئ ہے.اس لئے وہ آج سیکھنے نہیں آئے گی,اللہ کرے کبھی اس کے پاوں کی موچ ٹھیک نہ ہو,رادھا نے دل میں سوچا,چاندنی خیموں پر لکیروں کی طرح اتر رہی تھی.اور بہت خوبصورت منظر تھا,ساچی نے ساتھ چلتے جونی کا ہاتھ تھام کر اپنا سر اسکے کندھے سے لگا دیا,میرا دل چاہ رہا ہے آج ہم کچھ دیر چاند کی چاندنی میں بیٹھ کر ڈھیر ساری باتیں کر یں جیسے ہم پہلے کیا کرتے تھے,رادھا نے چاہت بھرے لہجے میں کہا,نہیں آج نہیں رادھا,آج مجھ بہت نیند آئی ہے.پلیز پلیز جونی میرے لئے.وہ اصرار کرنے لگی,نہیں نا رادھا پھر کبھی آج میرا سر بھی بھاری ہے,آدھے سر میں درد ہے,جونی اس سے اپنا ہاتھ چھڑا کر اپنے خوبصورت بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہو ئے بولا,پھر کبھی سہی .ٹھیک ہے نا میری رادھا .جونی اس کے رخسار پر چٹکی کا ٹتے ہوئے اپنے خیمے کی طرف بڑھ گیا,لیکن
جو نی..پھر شاید اس رات چودہویں کا چاند ہی نہ ہو,وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہو ئے مایوس ہو کر بولی,رات ڈھلنے لگی تھی,مگر نیند رادھا کی آنکھوں سے غائب تھی.
چاند آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا.وہ لیٹ چکی تھی اچانک اسے خیال آیا کہ آج ایک بار بھی جونی نے اس کے سامنے چائے نہیں پی تھی,آور وہ رات کو بھی تو چائے پی کر سوتا ہے,شاید آج اس لئے اس کا سر بھاری ہے,وہ اٹھی اور سرکس کے عارضی رسوئی خانے کی طرف بڑھی,تار کے ساتھ بندھے لوہے کے گول سے چھینکے میں رکھی دیگچی میں تھوڑا سا دودھ موجود تھا,مٹی کے بنے چولہے میں ابھی آگ سلگ رہی تھی,اس نے ایک کپ چائے بنائی اور لے کر جونی کے خیمے کی طرف بڑھی.خیمے میں گھپ اندھیرا تھا.خیمے کہ پاس آکر وہ رک گئ اور اندر جانے کے بجائے جونی کو آوازیں دینے لگی شاید وہ سو گیا ہے,وہ مایوس ہو کر واپس جانے کو بڑھی تو اچانک اسے وہم ستانے لگے,کہیں جونی کی طبیعت زیادہ بگڑ نہ گئ ہو اور وہ ماں کی طرح بے ہو ش نہ ہو… وہ اس سے زیادہ نہ سوچ سکی اور اپنے خیمے سے لالٹین لے کر جونی کےخیمے کی طرف تیزی سے بڑھی.اندر جا کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی.جونی خیمے میں نہیں تھا.
جاری ہے
“