ایک تھی رادھا
چھٹی قسط:
(تحریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں)
رادھا تمام راستے روتی رہی تھی.وہ اپنی سب سے قیمتی متاع پردیس میں چھوڑکر آگی تھی,کیا زندگی ہے ہماری,جس کی جس شہرمیں موت آگئ اسے اسی مٹی کے سپرد کر کے آگے بڑھ جانا,سرکس والے بھی تو پکھی واس ہی ہوئے,وہ جونی سے مخاطب ہوئی,جونی اداس نگاہوں سے کھوئی کھو ئی رادھا کو دیکھنے لگا,رادھا کےبال ہوا سے اڑ رہے تھے اور چہرے پر مُردنی چھائی تھی,رادھا مجھے بھی تو دیکھو,جس نے ساری عمر ماں کی آغوش سے محروم ہو کر گزار دی,میری زبان ماں جیسے لفظ سے ناآشنا رہی,مجھے نہیں معلوم کہ ماں کا لمس کیسا ہوتا ہے,ماں کی خوشبو کیسی ہوتی ہے.جونی کی خوبصورت آنکھیں بھیگ گئیں,رادھا تڑپ کر اس کی طرف بڑھی .اس نے آج سے پہلے جونی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے,وہ جونی کو اداس نہیں دیکھ سکتی تھی اس نے جونی کے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کر دیے اور دل ہی دل میں خود سے عہد کر لیا کہ اب وہ ماں کو جونی کے سامنے کم ازکم یاد نہیں کرے گی.بہت سے دن گزر گئے رادھا جونی کے پیار کے سہارے اٹھ کھڑی ہوئی دوبارہ سے ہوا میں ہلکورے لینے لگی, مرد کے پیار میں بہت طاقت ہے.اور جونی کی محبت ہی رادھا کی طاقت بنی,وہ سارا دن ماں کو بھولی رہتی مگر جب رات کو تھک کر لیٹتی تو اس کا دل چاہتا کہ کہیں سے ماں آجائے اور وہ اس سے لپٹ کر سو جائے,وقت بہت بڑا مرہم ہے.اب رادھا کو صرف اس لمحے کا انتظار تھا جب وہ اور جونی ایک ہو جائیں گے.وہ اکثر پلاننگ کرتے.رادھا کی آنکھوں میں مستقبل کے کئ دلفریب خواب سجے تھے.مگر وہ دونوں کسی خاص موقع کے انتظار میں تھے,جب وہ میاں جی سے جا کر بات کر سکیں,آج کل سرکس میں بہت تبدیلیاں ہو رہی تھیں,لوگ ایک جیسا کھیل تماشوں سے اکتا نہ جائیں.کئ نئے کرتب دکھانے والے آچکے تھے.بیرون ملک سے بھی کئ وفد سرکس کا حصہ بن رہے تھے,سرکس کی نئے سرے سے تزئین وآرائش ہو رہی تھی.اسی دوران ساچی بھی سرکس کا حصہ بنی,گوری چٹی ساچی سنہرے بالوں اور براون آنکھوں والی نو عمر لڑکی تھی.اور اس کا انتخاب بھی اسکے الوہی حسن کی بنا پر کیا گیا تھا.مگر اس کا بدن بہت لچکدار تھا.سرکس ماسٹر نے اس کے بدن کے پیچ وخم اور بل دیکھ کر اسے جونی کے حوالے کر دیا کہ اس کی ٹریننگ کرئے تاکہ ساچی صرف ڈیکوریشن پیس کے بجائے سرکس کا کارآمد پرزہ بن سکے.ساچی جب جونی کے پاس آئی تو جونی کو دیکھتی ہی رہ گئ.کیا کوئی مرد بھی اتنا خوبصورت ہو سکتا ہے وہ توحسن کو صرف عورت کی میراث سمجھتی تھی.اب فارغ تمام وقت میں وہ جونی کے ساتھ ہوتی.جونی اسے رسیوں سے بندھے ڈنڈے پر اٹھا کر کھڑا کرتا اس کی نازک سی کمر کو تھامتا تو ساچی کے رگ و پے میں انوکھے سرور کی لہریں دوڑجاتیں.جونی کبھی اس کی نازک کلائیوں کو تھامتا کبھی اس کے پاوں رسے پر جماتا,اسے اپنے ساتھ کھڑا کر کے جب وہ فضا میں لہراتی پینگ پر اسے جھلاتا تو ساچی کے کورے بدن میں پر سے لگ جاتے سنہرے رو پہلے پر جیسے کہانیوں کی پریوں کے ہوتے ہیں.وہ ہواوں میں اڑنے لگتی اسے جونی کا ساتھ اچھا لگنے لگا تھا,اور یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک دل میں آگ لگی ہو اور اس کی تپش دوسرا دل محسوس نہ کرئے,نہ جانے قربت کے کس لمحے میں جونی اپنا دل ساچی پر ہار چکا تھا.
جاری ہے
“