ایک تھی عظیم ادیبہ
وہ 15 اگست 1915 کو ہندوستان میں پیداہوئیں اور 24 اکتوبر 1991کو ممبئی میں انتقال کر گئیں۔عجیب آدمی،بدن کی خوشبو،دو ہاتھ،ایک بات،چڑی کی دکی،چوٹیں،دل کی دنیا،دو ہاتھ ،ایک بات ،ایک قطرہ خون،کاغذ ہے پیرھن ،کلیاں،لحاف،معصومہ،سودائی،شیطان ،سوری ممی،ٹیڑھی لکریں ،ضدی وغیرہ ان کے مشہور افسانے اور ناول ہیں ۔اردو فکشن پڑھنے والے یقینا سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کس عظیم ادیبہ کی بات کررہاہوں ۔اردو فکشن کی یہ خوش نصیبی ہے کہ انہیں عصمت چغتائی جیسی عظیم ادیبہ نصیب ہوئی۔اردو ادب کو پڑھنے اور سمجھنے والا عصمت چغتائی کو نہیں جانتا تو یہ اس کی بدنصیبی ہے ۔عصمت چغتائی نے اردو افسانہ نگاری کو جرات اظہار دیا ۔اردو فکشن کو دیدہ وری اور کردارشناسی دی ۔اس بہادر خاتون نے پہلی مرتبہ 1939 میں ڈرامہ تحریر کیا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب وہ ہندوستان میں ایک اسکول میں ہیڈ مسٹریس تھی ۔ان کا پہلا ڈرامہ جب شائع ہوا تو بہت پسند کیا گیا ۔کہانی لکھنا شروع کی تو سماج سے بہت گالیاں پڑیں ،کہا گیا کہ یہ خاتون بہت بدتمیزانہ باتیں لکھتی ہیں ۔تہذیب نسواں اور پھول جیسے میگزین میں ان کی کچھ کہانیاں شائع ہوئی تو سماج کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا۔پورے ہندوستان میں شور شرابہ مچ گیا کہ ان کی زبان بہت بہیودہ اور فحش ہے ۔یہ جو کچھ لکھتی ہیں یہ ادب کی زبان نہیں ہے ۔انہیں منٹو کی طرح گلیاں دی گئی ۔ان کا اس پر کہنا تھا کہ جب سماج ہی واہیات اور بیہودہ ہے تو وہ کیسے اس سماج کو مقدس بناکر پیش کر سکتی ہیں ۔جیسا سماج ہوگا ،ویسے ہی اس کے بارے میں لکھا جانا چاہیئے ْ۔ایک انٹرویو کے دوران عصمت آپا کہتی ہیں کہ ان کی کہانیوں کو واہیات کہاگیا ،اس کے باوجود کہانیاں شائع ہوئیں ۔عصمت آپا منٹو،کرشن چندر،سجاد ظہیر اور چیخوف سے بہت متاثر تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ ان ادیبوں کو پڑھکر انہیں انسان کو شناخت کرنے کا فن سمجھ آیا ۔برنارڈ شاہ وہ پہلے ادیب تھے جس کی وجہ سے عصمت کو انسان اور سماج پر لکھنے کا شوق پیدا ہوا ۔عصمت کھل کر بات کرتی تھی اور کھل کر ہی کہانی میں اظہار رائے دیتی تھی۔جو دیکھتی تھی ،جو مشاہدہ کرتی تھی ،وہی لکھ دیتی تھی ،اسی وجہ سے منٹو کی طرح انہیں بھی گالیاں پڑیں ۔عصمت کو گھٹن سے شدید نفرت تھی ،وہ خود کہتی ہیں کہ انہیں گھٹنن زدہ ماحول سے گھن آتی ہے ۔اس لئے شاید وہ اپنی تحریروں میں گھٹن زدہ ماحول کا مزاق اڑاتی نظر آتیں ہیں ۔انہیں شرم و حیا،مشرقی نسوانیت جیسے لفظوں اور نظریات سے بھی شدید چڑ تھی ۔کہتی ہیں جب کوئی یہ کہتا ہے کہ مشرقی نسوانیت عورت کا زیور ہے تو دل کرتا ہے اس کا منہ نوچ لوں ۔کہتی ہیں مرد اور عورت کے الگ الگ زیور نہیں ہوتے ،سب انسان ہیں ۔سب کے زیور ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ شرم و حیا گھٹن زدہ ماحول میں پیدا ہوتے ہیں ،یہ وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں جھوٹ اور منافقت کا راج ہوتا ہے ۔عصمت آپا نے ابتدائی کہانیاں گھر میں بیٹھ کر لکھی ۔۔وہ کہتی ہیں کہ گھر کے ایک کمرے میں پلنگ پر لیٹ کر لکھنا انہیں ہمیشہ پسند تھا ۔کہتی ہیں کہ ان کے زمانے میں جب لڑکیاں لڑکوں کو دیکھتی تھی تو ان کے چہرے کی رنگت بدل جایا کرتی تھی ۔لیکن وہ ہمیشہ لڑکیوں کے ٹولے میں کہتی تھی دیکھو وہ لڑکا کتنا حسین اور خوبصورت ہے ۔ان کے اس جملے پر باقی لڑکیاں توبہ توبہ کر اٹھتی تھی ۔وہ کہتی ہیں کہ جب کوئی لڑکا کسی لڑکی کو اچھا لگ رہا ہے تو وہ کیوں نہ کہے کہ دیکھو کتنا خوبصورت لڑکا ہے ۔کہتی ہیں کہ مرد سے صرف ایک رشتی نہیں ہوتا ۔مرد اچھا دوست بھی ہوسکتا ہے ۔اچھا رفیق بھی ہوسکتا ہے ۔اچھا ساتھی بھی ہوسکتا ہے ۔کہتی ہیں اچھا صرف وہی لکھ سکتا ہے جو کسی کا دکھ اور غم دیکھے اور اس درد اور غم کو اپنا دکھ اور غم سمجھے ،اس طرح لکھنے سے لطف بھی آتا ہے ۔ایک انٹرویو کے دوران عصمت کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو قید میں رکھنے سے وہ مقدس اور پارسا نہیں ہوجاتی ،اصل پارسائی ،اصل نیکی اور اصل شرافت یہ ہے کہ انہیں آزادی دی جائے ،انہیں گھر سے باہر نکلنے کی آزادی ۔لیکن اس غلیظ معاشرے میں بڑی بڑی دیواروں میں جانوروں کی طرح لڑکیوں کو قید کردیا گیا ہے ۔زہن میں غلاظت اور گندگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی مرد یا عورت پر پابندی لگائی جاتی ہے ۔کہتی ہیں ایک لڑکا یا ایک لڑکی جب کسی دوسرے لڑکے یا لڑکی سے محبت کرتی ہے یا کرتا ہے تو نیکی ،شرادت اور طہارت اس وقت پیدا ہوتی ہے ۔محبت کسی صورت میں بھی ہو وہ مقدس ہوتی ہے ۔چاہے وہ محبت جسمانی ہو یا پھر روحانی ۔جسمانی کشش میں بھی زندگی ہے ۔کسی انسان کو قید رکھنا غیر انسانی اور گھٹیا فعل ہے ۔ایک سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ عورت اور مرد دونوں کا آزاد ہونا ضروری ہے ،اگر عورت آزاد ہے اور مرد نہیں ،تو اس طرح کی آزادی کی بھی کوئی اہمیت نہیں ۔ممبئ میں ترقی پسند ادیبوں اور کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ بھی ان کا گہرا تعلق تھا ۔کہتی ہیں کہ پیٹ کی بھوک کی وجہ سے کتنی سماجی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اس کا احساس انہین ممبئی میں آنے کے بعد ہوا،اسی وجہ سے وہ کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ منسلک ہوئیں ۔ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے عصمت آپا کارل مارکس اور فرائیڈ کے قریب ہوئی ،اسی وجہ سے ان کی تحریروں میں انقلابی فکر سامنے آیا ۔عصمت آپا کا کہنا ہے کہ گھٹن معاشرہ ،حکومت ،سماج اور ریاست پیدا کرتی ہے ۔سماجی ناانصافی کے پیچھے بھی کسی الہامی یا غیر الہامی نظریئے کا ہاتھ ہوتا ہے اور ریاست اس طرح کے نظریات کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرکے سماج کو تباہ کرتی ہے ۔عصمت چغتائی کی کہانی ٹیڑھی لکیریں اسی طرف اشارہ ہے ۔موقع ملے تو اس نایاب کہانی کو ضرور پڑھیئے گا۔کہتی ہیں کہ اگر سماج کو تبدیل کرنا تو ضروری ہے کہ ادیب اپنی ہر تحریر میں بغاوت کا اظہار کریں ۔رنگ و نسل اور مذہب سے آگے بڑھ کر سوچنے کی ضرورت ہے ۔ہمیشہ ادیب کو ٹیڑھا راستہ اختیار کرنا چاہیئے ۔ٹیڑھا راستہ مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن یہ سچا راستہ ہوتا ہے ۔کہتی ہیں کہ جنہیں دنیا نیک و شریف کہتی ہے وہ گندے بھی ہوسکتے ہیں ۔غیر دلچسپ ،جھوٹےاور منافق بھی ہو سکتے ہیں ۔کہتی ہیں ایک طوائف میں انسانیت ہو سکتی ہے ،اس میں خوداری بھی ہوسکتی ہے ،لیکن ہم ہمیشہ طوائف کو گالیاں دیکر آگے نکل جاتے ہیں ۔انسان جس قدر میں میلا کچیلا ،جھوٹا ،مکار یا گھٹیا ہو ،اندر سے وہ انسان ہی ہوتا ہے ۔انسانی قدریں اور انسانیت ہمیشہ اس میں رہتی ہے ۔عصمت آپا کا کہنا ہے کہ ادیبوں کو چاہیئے کہ وہ انسانوں کے اقتصادی اور جسمانی مسائل سامنے لائیں ۔ان پر سوالات اٹھائیں ۔عصمت آپا ترقی پسند مصنفین میں بہت مقبول رہی ،کہتی ہیں کہ ترقی پسندوں کی وجہ سے انہیں معلوم ہوا کہ زندگی اور انسان کیا ہیں ؟کہتی ہیں کہ وہ جو علامتی ادب لکھتے ہیں اور اس ادب کو جدید ادب کہتے ہیں ،ان ادیبوں کی سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنی تحریروں میں کہنا کیا چاہتے ہیں ۔نہ وہ سماج پر لکھتے ہیں ،نہ وہ سیاست پر لکھتے ہیں ،نہ وہ انسان پر لکھتے ہیں ،تمثیلات اور تشبیہات میں بات کرتے ہیں ،انسانوں کو انسان سمجھنا چاہیئے ،انہیں علامات نہیں سمجھنا چاہیئے ۔ادیبوں کو معاشی ،سیاسی ،سماجی اور معاشرتی نظریات پر لکھان چاہیئے ۔ایک انٹرویو میں عصمت چغتائی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے عام انسانوں کو ترقی پسند ادب پڑھنا چاہیئے ،جس دن ان کو ترقی پسند ادب کی سمجھ آگئی ،یہ دونوں ملک دوست بن جائیں گے ۔لیکن بدقسمتی سے ترقی پسند ادب پاکستان اور بھارت کے عام عوام تک پہنچا ہی نہیں ہے ،یا پہنچنے ہی نہیں دیا گیا ۔کہانی کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ کہانی وہ ہوتی ہے جس کی سمجھ آجائے ،انسان نے شروع ہی سے جو کہا اسے کہانی میں بتادیا ۔ہر تحریر میں کہانی کا ہونا بہت ضرور ہے ۔یا وہ تحریر افسانہ ہو ،ڈرامہ ہو ،فلم ہو یا کچھ اور ۔خیالات اور نظریات کو کہانی میں پرو دینے سے حقیقت زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے ۔دنیا کو عصمت چغتائی کی اہمیت کا پورا احساس ابھی تک نہیں ہوا ۔لیکن وقت کے ساتھ یہ احساس بڑھے گا ۔ان کی سوچ،ان کا تجزیہ اور نقطہ نظر کمال تھا ۔کرشن چندر کہتے ہیں کہ ایک ادیب کا انتقال ہو گیا اور میری بدقسمتی کہ میں نے عصمت کہ سامنے کہہ دیا کہ اب اس عورت بیچاری کا کیا ہوگا جو اس ادیب کی بیوی تھی ،ان بچوں کا کیا ہوگا ۔تو اس پر عصمت چغتائی ناراض ہو گئی اور کہنے لگیں ،کچھ نہیں ہوگا ،اب وہ مزے کرے گی ،کرشن جی کہتے ہیں کہ عصمت نےپوری تقریر کر ڈالی ۔کرشن جی نے بعد میں کہا کہ انہیں ایسا لگا جیسے وہ بیوی سے زیادتی کررہے ہیں ،ان تو جلد مرجانا چاہیئے تاکہ ان کی بیوی سکون میں آجائے اور زندگی کا لطف اٹھائے ۔کہتے ہیں میں نے عصمت کو کہا کہ نہ مر کے میں بیوی سے زیادتی کررہاہون ۔کہنے کا مطلب ہے نہ وہ ہمدردی جتاتی تھی اور نہ ہی ہمدردی کرنے کی اجازت دیتی تھی ۔انہیں انسان سے ہمدردی کرنا ایسے لگتا تھا جیسے انسان کی توہین کی جارہی ہو۔ان کے دل میں انسان کے لئے اس قدر احترام تھا کہ انہیں ہمدردی جیسے لفظ سے گھٹن ہوتی تھی ۔انہیں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں کرداروں پر رحم کھائے بغیر لکھا ۔کبھی کردار کے لئے رحم کی اپیل نہیں کی ۔اس کردار کی محرومیاں بتائیں ،ان کا درد بتایا ،لیکن کبھی اپنی تحریر میں یہ تاثر نہیں آنے دیا کہ ان پر رحم کھایا جائے ۔انہیں ٹوٹے پھوٹے کردار بہت پسند تھے ،ایسے کردار جو نامکمل ہوں،لالچی اور بے وفا ہوں ،اس کے باوجود وہ کہانی میں بتادیتی تھی کہ انسان کیا ہے اور اس کا مسئلہ کیا ہے اور وہ کیوں نامکمل اور منافق ہے؟اپنے خاوند شاہد لطیف کے ساتھ ملکر انہوں نے کئی فلموں کے اسکرپٹ لکھے ۔بالی وڈ کی فلم ضدی کا اسکرپٹ انہوں نے لکھا تھا ۔شاہد لطیف بہت بڑے فلم پروڈیوسر اور ڈائرکٹر تھے ۔فلم آرزو کا سکرپٹ عصمت چغتائی نے لکھا ۔سونے کی چڑیا کا اسکرپٹ انہوں نے لکھا ۔ان کے لئے ایک شعر ہے کہ ۔۔۔لے دے کے فقط اپنے پاس ایک نظر تو ہے۔۔۔۔۔کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم ۔۔۔۔۔۔انہوں نے زندگی کو اپنی نظر سے دیکھا ۔جو دیکھا ،وہی لکھا ۔بڑی جرات مند اور دلیر خاتون تھی ۔امید ہے ہم عصمت آپا کی تحریوں کو ایک مرتبہ ضرور پڑھیں گے ۔باقی آپ کی مرضی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔