دنیا میں مشروبات کی سالانہ فروخت پونے سات کھرب ڈالر کی ہے۔ (موازنہ کرنا ہو تو یہ پاکستانی حکومت کی سالانہ آمدنی سے پندرہ گنا زیادہ ہے)۔ ان میں سب سے بڑا حصہ کوکا کولا کمپینی کی مشروبات کا ہے جن کی روزانہ فروخت پونے دو ارب گلاس ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ڈرنک کوکا کولا ہے۔ دنیا میں اقوامِ متحدہ کے جتنے ممبر ممالک ہیں، ان سے زیادہ ملکوں میں یہ مشروب بکتا ہے۔ پاکستانی حکومت کی سالانہ آمدنی سے زیادہ آمدنی رکھنے والا یہ ادارہ اس وقت عالمی رینکنگ کے حوالے سے 87ویں نمبر پر بڑی کمپنی ہے۔ اس کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ آپ کے سکول، کالج یا دفتر کی کینٹین میں، کشمیر کے پہاڑوں پر کسی دکان سے، ٹمبکٹو میں کھوکھے پر یا لندن کے مہنگے ریسٹورنٹ میں، نہ صرف یہ ہر جگہ ہے بلکہ یہ کہ بالکل وہی ذائقہ، بالکل وہی ڈبہ اور لیبل پر رنگ کا بالکل وہی شیڈ، حالانکہ یہ دنیا میں نو سو سے زیادہ جگہوں پر بنتا ہے اور اس سے زیادہ تعداد میں سپلائرز اس کی بوتلیں، لیبلز اور دوسرے اجزاء بناتے ہیں۔ جہاں پر اس کی کہانی مارکیٹنگ، ڈسٹریبیوشن، سپلائی چین، مینیجمنٹ اور دوسرے شعبوں میں انتہائی دلچسپ ہے، وہاں پر ٹیکنالوجی اور انجینرنگ میں بھی کم نہیں۔
چند چیلنجز کا ذکر جن کو عبور کئے بغیر اتنے بڑے عالمی سکیل تک اس کی پہنچ ممکن نہیں تھی۔
روبوٹکس۔ صنعتی روبوٹکس کا بہت بڑا استعمال اس کی اسمبلی لائن میں ہے۔ اس شعبے میں ہونے والی ریسرچ میں اس کا بڑا حصہ ہے۔ اس کو بنانے کے عمل کو تیز، سستا اور کم غلطیوں والا کیسے کیا جائے؟ اس کے لئے درجنوں روبوٹکس کی مشینیں مل کر کام کرتی ہیں۔ ان میں سے بہت سے روبوٹ وہ ہیں جو صرف سافٹ ڈرنکس کی انڈسٹری سے خاص ہیں۔
کوالٹی کنٹرول۔ تیز رفتار مینوفیکچرنگ لائن میں کسی غلطی کو باہر نکالنے والا سسٹم زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے دوسرے طریقے کے ساتھ گاما شعاعوں اور ہائی سپیڈ فوٹوگرافی جیسے طریقے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ کنٹرول بہت سے پوائنٹس پر الگ الگ طرح کے ہیں اور شیشے، کین اور پلاسٹک کے لئے بالکل مختلف ہیں۔
فلٹرنگ۔ اس میں نوے فیصد پانی ہے لیکن دنیا میں ہر جگہ پانی کا ذائقہ ایک نہیں۔ اس پانی کے ذائقے کو اپنے ہر پلانٹ میں ایک کرنا۔ اس کے لئے نینو فلٹرز کی ٹیکنالوجی ہے۔
پیکنگ۔ یہ شیشے، ایلومینم یا پلاسٹک کی پیکنگ میں کنزیومر تک پہنچتی ہے۔ سب سے زیادہ استعمال ان میں سے پلاسٹک کا ہے۔ پلاسٹک کی بوتل کو نہ صرف ہلکا ہونا ہے بلکہ مضبوط بھی۔ گاڑی کے ٹائر میں ہوا کا پریشر 32 پی ایس آئی ہے۔ اس میں یہ 50 پی ایس آئی تک ہو گا۔
درجہ حرارت کی ریگولیشن۔ ہر قدم پر درجہ حرارت کا بڑا خاص لیول چاہیۓ۔ مثلا، کاربن ڈائی آکسائڈ بھرتے وقت یہ تین ڈگری سینٹی گریڈ ہونا چاہیۓ تاکہ اس کا لیول یکساں رہے اور مسلسل برقرار بھی۔ اسی طرح پیکنگ کے وقت تیس ڈگری سینٹی گریڈ تا کہ اس وقت بوتل پر جمے بخارات کارٹن کو خراب نہ کر دیں۔
ترکیب۔ اس کے اجزاء اس کی بوتل یا کین پر لکھے ہیں۔ ان میں سے ایک 'نیچرل فلیور' ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ بڑی کامیابی سے چھپایا گیا ٹریڈ سیکرٹ ہے۔
اس کا آغاز 1886 میں اٹلانٹا کے ایک دواخانے سے ہوا اور اس کو بنانے والے اس کے دو سال بعد ہی فوت ہو گئے۔ یہ کسی بھی طرح کا پہلا 'کولا' ڈرنک تھا۔ مرنے سے پہلے یہ اس کو بیچ گئے تھے اور اگلے کئی سال یہ صرف دواخانوں میں بکتا رہا، جہاں ہر گلاس کو انفرادی طور پر تیار کیا جاتا۔ پہلی بار اسے 1899 میں بوتل میں بھرا گیا اور مارکیٹ میں اس کی فروخت شروع ہوئی۔ اس کے مؤجد، جن کے لئے روزانہ دس گلاس بیچنا کامیابی تھی، وہ شاید تصور بھی نہ کر سکیں کہ ان کا تیار کردہ ڈرنک ایک سو پچیس سال بعد اب کتنا کامیاب ہے۔
نوٹ: ساتھ لگی تصویر جنوبی افریقہ میں کیمڈور کے مقام پر قائم ایک پلانٹ کی ہے۔ اگر زوم کر کے دیکھ لیں تو سکیل کا بہتر اندازہ ہو گا۔ اس پلانٹ میں ایک بوتل شروع سے آخر تک تین کلومیٹر کا سفر کرتی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔