ایک تھا سید سجاد ظہیر عرف بنے میاں
سید سجاد ظہیر المعروف بنے میاں کے والد محترم کا نام تھا سرسید وزیر حسن جو ہندوستان کے چیف جج تھے ۔موتی لال نہرو اور سید وزیر حسن کی آپس میں بہت اچھی دوستی تھی ۔وزیر حسن نے کانگریس کے سیکریٹری کے طور بھی کام کیا ۔وزیر حسن کے کئی بیٹے اور بیٹیاں تھی ۔حسن علی ظہیر جو مسلم لیگ کا حصہ تھے ،حسن ظہیر کانگریس میں تھے ۔سجاد ظہیر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں تھے ۔باقر رضا ایک اعلی تعلیم یافتہ انسان تھے ۔سجاد ظہیر کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔یعنی پیسے والی فیملی سے ان کا تعلق تھا ۔سجاد ظہیر بیرسٹری کرنے لندن گئے ،وہاں جاکر لیفٹ ونگ کا حصہ بن گئے ۔اور بائیں بازو کی علمی و فکری سرگرمیوں میں ملوث ہو گئے ۔بنے میاں نے لندن میں ہی پروگریسو رائیٹر ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈال تھی ۔اس کے بعد ہندوستان وآپس لوٹے اور منشی پریم چند کے ساتھ ملکر بھارت میں پروگریسو رائیٹر ایسوسی ایشن کے لئے کام کرنے لگے ۔منشی پریم چند اور بنے میاں کی کوششوں کی وجہ سے سارے ہندوستان میں پروگریسو رائیٹر ایسوسی ایشن کی شاخیں بن گئیں ۔بھارت میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بنیادی رکن تھے ۔1942 میں ممبئی سے اردو کا ایک ہفتہ روزہ اخبار نکالا ۔اس اخبار کا نام تھا قومی جنگ۔جو دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کا مقبول اخبار بن گیا ۔سجاد ظہیر اور سردار جعفری نے ملکر اس اخبار کی بنیاد رکھی تھی ۔یہ دونوں صاحبان تمام مضامین اور خبریں لکھتے تھے ۔انگریزی سے اردو کا ترجمہ بھی خود ہی کرتے تھے ۔خود ہی کتابت کراتے تھے ،دونوں ملکر پروف ریڈنگ کرتے،پھر دونوں اس اخبار کو پریس لے جاتے ،اخبار کی چھپائی ہوتی ،اس کے بعد ممبئی کے علاقوں بھنڈی بازار اور محمد علی روڈ پر جاکر یہ دونوں وہ اخبار بیچتے تھے ۔آوازین لگاتے تھے کہ قومی جنگ آگیا ۔کیا کمال کی بات ہے کہ سجاد ظہیر جیسا خوبصورت دراز قد انسان سردار جعفری جیسے باروعب انسان کے ساتھ ملکر گلی کوچوں میں اخبار فروخت کررہا ہے ۔ممبئی کی ایک پرانی بلڈنگ کا ایک کمرہ تھا جس کا نام ریڈ فلیگ تھا ۔یہ کمرہ اردو والوں کے نام سے معروف تھا ۔ممبئی میں سب جانتے تھے کہ اردو کے سب عظیم ادیب اور مارکسٹ انقلابی اس کمرے میں آتے جاتے تھے ۔یہی وہ کمرہ تھا جہاں سے فکری انقلابی سرگرمیاں کی اسٹرٹیجی بناکرتی تھی ۔یہی پر عظیم لکھاری اور اردو دان فرش پر کمبل بچھا کر سوجایا کرتے تھے ۔بنے بھائی اپنا زیادہ وقت اسی کمرے میں گزارا کرتے تھے ۔اس کے باوجود کے ممبئی میں ان کا ایک چھوٹا سا گھر تھا ،جہاں بنے میاں کی بیوی اور بچے رہائش پزیر تھے ۔پروگریسو رائیٹر ایسوسی ایشن اور کمیوسٹ پارٹی کے اجلاس اسی کمرے میں ہوا کرتے تھے ۔اردو اور ہندی کے تمام ترقی پسند ادیب یہاں آتے تھے ۔روشن خیال ۔ترقی پسندیت کے موضوع پر بحث و مباحثے ہوتے ۔ایک خاص بات یہ تھی کہ اس زمانے میں ممبئی میں فلم انڈسٹری عروج پو تھی ۔اردو کے سب عظیم ادیب ممبئی آگئے تھے ۔کچھ ادیب نغمے لکھ رہے تھے ،کچھ فلمیں لکھ رہے تھے ۔کرشن چند ،سردار جعفری،حمید اختر ،مجروح سلطان پوری ،عصمت چغتائی ،،ان سب کا فلم انڈسٹری سے تعلق بن چکا تھا ۔یہ سب سجاد ظہیر کے پاس ریڈ فلیگ نامی کمرے میں آتے تھے ۔وہ جو کمیونسٹ پارٹی کے لئے کام کرتے تھے اور وہ جو فلمیں بناتے تھے ،ان کی بیٹھک ہوتی ،ہندوستان میں روشن خیال معاشرے کی باتیں ہوتی ۔کمال کا خوبصورت دور تھا ۔سب دوست یار تھے ۔سب معاشرے کو جدید ،روشن خیال اور پروگریسو روپ میں دیکھنے کے خواہش مند تھے ۔کہا جاتا ہے کہ کیفی اعظمی ،ساحر لدھیانوی جب قومی جنگ کے دفتر میں آتے تو ساتھ سگریٹ کے ڈبے لیکر آتے تھے ،کمیونسٹوں کو چائے پلاتے تھے ،ان کے لئے لزیز کھانوں کا انتظام کرتے ،اس طرح ایک شاندار ماحول بن گیا تھا ۔ممبئی میں سجاد ظہیر کا گھر بھی فکری اور علمی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا ۔بائیں بازو کے تمام فکری انسان یہاں آتے تھے ۔ہر ہفتے کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسند مصنفین کی ایک میٹنگ بنے میاں کے گھر میں ہوا کرتی تھی ۔سجاد ظہیر کی بیوی رضیہ ،جن کو تمام اردو کے ادیب رضیہ آپا کہا کرتے تھے ،وہ سب کے لئےکھانا اور چائے کا انتظام کرتی تھی ۔سجاد ظہیر اور رضیہ کی چار بیٹیاں تھی ۔نجمہ ظہیر اور نسیم ظہیر ہندوستان میں اعلی عہدوں پر فائز رہی ہیں ۔نسم تو وائس چانسلر بنی ۔نادرہ ظہیر اسٹیج ڈراموں کی ہدائیتکارہ تھی ۔بائیں بازو کے خیالات کو اسٹیج پر پیش کرکے انہوں نے لاکھوں انسان کی سوچ کو بدلا ۔نور ظہیر افسانہ نگار اور شاعرہ رہ چکی ہیں۔پروگریسو انقلاب کے لئے سجاد ظہیر نے بہت مشکلات اور تکالیف برداشت کی ۔وہ ہمیشہ روشن خیال فکر کی بات کرتے تھے ،وہ ایسے انقلاب کی بات کرتے تھے جہاں سوچ پر کوئی پابندی نہ ہو ،جہاں اظہار رائے پر کوئی پابندی نہ ہو ۔سجاد ظہیر نے بہت ٹھوکریں کھائی ۔تقسیم کے بعد ہندوستان سے پاکستان میں آگئے اور یہاں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی بنیاد ڈالی ۔پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر بن گئے ۔پھر وہی ہوا ،پاکستان میں گرفتار کر لئے گئے ،مقدمہ چلا ،پانچ سال جیل میں رہے ،لیکن اسی دوران جیل میں لکھتے رہے ،کئی کتابیں جیل میں لکھی ،جن میں ایک کتاب کا نام ہے زکر حافظ ،ایک معروف کتاب روشنائی لکھی ۔روشنائی وہ عظیم تاریخ کی کتاب ہے جس میں پروگریسو تحریک کی پوری تاریخ موجود ہے ۔ویسے تو ہندوستان کی تحریک آزادی پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں ۔لیکن تاریخ کی کسی بھی کتاب میں یہ نہیں بیان کیا گیا کہ تحریک آزادی میں آرٹسٹوں ،ادیبوں ،فنکاروں ،تھیٹر اور سینماوں کا کیا کردار تھا ۔لیکن روشنائی میں اس حوالے سے تفصیل سے تمام کہانی موجود ہے ۔راولپنڈی سازش کیس میں انہیں غدار قراردیا گیا ۔الزام لگایا گیا کہ انہوں نے فوج کے ساتھ ملکر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ۔پھانسی کے احکامات جاری ہوئے ۔خوش قسمتی سے رہائی مل گئی ۔یہ دور بنے بھائی کے لئے مشکلات کا دور تھا ۔جس میں ان پر بیہیمانہ تشدد ہوا ۔سجاد ظہیر اس کے بعد بھارت چلے گئے ۔اس زمانے میں جواہر لال نہرو وزیر اعظم تھے ،اس لئے وہ آسانی سے بھارت میں آگئے ۔اب ممبئی کی بجائے زندگی دہلی میں بسر ہونے لگی ۔زندگی دوبارہ جوڑنے کی کوشش کی ،ایک بار پھر پروگریسو تحریک کے لئے کام کرنا شروع کردیا ۔بھارت میں ایفرو ایشین رائیٹر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی ،اس کے لئے کانفرنسیں کی ،عالمی دورے کئے ،قاہرہ اور روس کے دورے کئے ۔روسی ادیبوں کے ساتھ ملکر کام کیا ۔سجاد ظہیر صرف ایک انقلابی لیڈر نہ تھے ۔بلکہ وہ ایک عظیم آگنائزر بھی تھے ۔وہ ایسے ادیب تھے جنہوں نے بائیں بازو کی تحریک کی آبیاری کے لئے ٹرینڈ سیٹ کئے ۔لندن گئے تو وہاں ایک ڈرامہ تحریر کیا جس کا نام تھا بیمار ۔جسے بہت پسند کیا گیا ۔ایک ناولٹ لکھا جس کا نام تھا لندن کی ایک شام ،کبھی فرصت ہو تو اسکا ضرور مطالعہ کریں ۔سجاد ظہیر نے شاعری میں بھی نیا ٹرینڈ سیٹ کیا ۔وہ آزاد شاعری کو پسند کرتے تھے اور آزاد شاعری ہی لکھتے تھے ۔ایک دفعہ فیض احمد فیض کو کہا ،یہ کیا آپ لوگ قافیے ،ردیف اور بحر میں الجھے رہتے ہو ،اس سے نکلو اور آزاد شاعری کرو جہاں کسی قسم کی بندش نہ ہو ۔فیض نے کہا بنے میاں کیا کریں ہم سے تو قافیئے ،ردیف اور بحر کے بغیر شاعری بھی نہیں ہوتی ،کمبخت عادت پڑ گئی ہے ۔آزاد شاعری کے حوالے سے بھی ان کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے پگھلا نیلم ۔اس کتاب کی ایک نظم جس کا نام ہے آج رات ،اس کی چند لائیںیں سنا دیتا ہوں ۔۔۔۔۔آج رات تم آئیں ہوتیں ۔۔۔۔۔جاڑ اور اندھیرا ہم نے ۔۔۔۔چھوٹے سے کمرے سے اپنے ۔۔۔۔باہر پھینک دیا تھا ۔۔۔۔ویسے جیسے روز صبح کو ۔۔۔۔جھاڑو دیکر مٹی گرد اور ایش ٹرے کی ۔۔۔۔راکھ نکالی جاتی ہے ۔۔۔۔وقت ہو تو کبھی یہ نظم مکمل پڑھیئے گا ۔پڑھنے والا حیران رہ جائے گا کہ بنے میاں نے کیا کمال خیال ایک نظم میں پرو دیا ہے ۔اب بنے میاں پروگریسو تحریک کے لئے تاشقند روس چلے گئے ۔راستے میں دل کادورہ پڑا ۔وہی انتقال کرگئے ۔فیض احمد فیض ان کی لاش لیکر دلی آئے ۔اور پھر دہلی میں ہی ان کو دفنایا گیا ۔سجاد ظہیر المعروف بنے میاں پانچ نومبر انیس سو پانچ کو پیدا ہوئے اور پندرہ ستمبر انیس سو تھتر کو انتقال کر گئے ۔آپ اردو کے عظیم ادیب تھے ،کمال کے مارکسسٹ اور پروگریسو انسان تھے ،آزاد ،روشن خیال اور انسانیت پرست معاشرے کے لئے عظیم جدوجہد کی ۔بائیں بازو کے انقلابی رہنما تھے ۔بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں بائیں بازو کی ترقی کے لئے انتھک کوشش کی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔