ایک تھا ساحر لدھیانوی۔۔۔
ساحرلدھیانوی اس دھرتی کے عظیم شاعر تھے ۔ساحر حقیقت میں بھی ایک جادوگر تھے ،جی ہاں لفظوں کے جادوگر ،جنکی شاعری پڑھ کر اکثر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں ۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ ساحر اور میرا کسی طرح کا کوئی نہ کوئی روحانی رشتہ ہے ۔خیر اس حوالے سے پھر کبھی بات کریں گے ،ابھی ساحر کے بارے میں کچھ مختلف اور منفرد باتیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جب بھی ساحر صاحب کا نام زہن میں آتا ہے تو ان کے لکھے گئے سینکڑوں گیت یادوں میں گنگنانے لگتے ہیں ۔ابھی نہ جاو چھوڑ کے ،میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا ،میں پل دو پل کا شاعر ،یہ رات ،یہ چاندنی ۔۔۔۔یہ ساحر صاحب کے وہ گیت ہیں جو اب بھی کروڑوں انسانوں کے یادوں میں خوشیاں بکھیررہے ہیں ۔ساحر نے تلخ اور ترش انداز میں زندگی کا ساتھ نبھایا اور شاید زندگی نے بھی ان کے ساتھ کچھ ایسا ہی کیا ۔یہی وہ مقام ہے جہاں میرا اور ساحر صاحب کا کوئی نہ کوئی تعلق اور رشتہ بن جاتا ہے ۔بس فرق یہ ہے کہ وہ ایک عظیم شاعر تھے اور میں ایک عام انسان ہوں ۔ساحر صاحب لدھیانہ کے پاس ایک گاوں میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد اس گاوں کے جاگیردار تھے ،جن کانام چوہدری فضل احمد تھا ۔والدہ کا نام سردار بیگم تھا ۔وہ کہا کرتے تھے کہ ساحر کسی جاگیردار کے گھر نہیں ،بلکہ سردار بیگم کے گھر پیدا ہوا تھا ۔اس لئے کہ جاگیردار تو شادیاں کرتے رہتے ہیں ،پھر اپنی بیویوں کو بھی چھوڑتے رہتے ہیں ۔ساحر کے والد نے بھی گیارہ شادیاں کی تھی ،ان میں ایک سردار بیگم بھی تھی جنہیں چوہدری فضل احمد نے چھوڑدیا تھا ۔لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جاگیردار کے گھر صرف ایک ہی بیٹا پیدا ہواتھا ،جن کانام ساحر لدھیانوی تھا ۔اس جاگیر دار نے سردار بیگم کو کہا کہ جتنا چاہے پیسہ لے لو ،لیکن بیٹا اسے دے دو ۔جاگیردار دنیا کی وہ واحد مخلوق ہیں جنہیں ہمیشہ جہالت کے رواج کو پھیلانے کے لئے بیٹوں کی ضرورت پڑتی ہے۔لیکن سردار بیگم نے کہا بیٹا چاہیئے تو مجھے بھی قبول کرنا ہوگا ۔لیکن کمبخت جاگیردار نے کہا تم تو ایک عورت ہو ،تمہیں کیسے قبول کرلوں ،مجھے صرف اپنا بیٹا چاہیئے ۔معاملہ عدالت میں گیا ،عدالت نے ساحر سے پوچھا ،بیٹا امیر باپ کے پاس جانا ہے یا غریب والدہ کے پاس،آٹھ سال کے ساحر نے کہا وہ جاگیردار باپ کے ساتھ نہیں ،بلکہ غریب ماں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ۔ساحر کا یہ فیصلہ بتاتا ہے کہ وہ کتنا بڑا انسان ہے ۔وہ کتنا بڑا آرٹسٹ ہے ۔ساحر اسی فیصلے کے بعد ساحر بن گیا تھا ۔اب ایک غریب ،مفلس اور زمانے کی ستائی ہوئی ماں نے ساحر کی پرورش کرنا شروع کردی ۔ساحر اب غریبی اور مفلسی میں پرھنا ،لکھنا ،سوچنا شروع ہوگیا ۔ایک غریب ماں نے بڑی مشکلوں سے اپنے لخت جگر کو پالنا شروع کردیا ۔ساحر کی ماں نے ساحر کے لئے جو مشکلات برداشت کی ،ان مشکلات کا عکس ساحر کے بہت سے گیتوں میں ملتا ہے ۔انیس سو اٹھتر میں ایک فلم بنی تھی ،جس کا نام تھا ترشول،اس کا ایک گانا تھا ،جس کے بول تھے ،میں تجھے رحم کے سائے میں نہ پلنے دوں گی ،زندگانی کی کڑی دھوپ میں جلنے دوں گی ۔ساحر اس زمین کا وہ واحد بیٹا ہے جو ماں کی اولاد بنا ۔وہ کسی جاگیردار کی اولاد نہیں بنا ۔ساحر میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس نے زندگی میں مفلسی ،غریبی اور تنگ دستی دیکھی ،ساتھ ساتھ بہتر زندگی کے خواب نہ صرف اپنے لئے بلکہ دنیا کے تمام مفلس انسانوں کے لئے دیکھے ۔یہی شاید عام انسان اور ساحر لدھیانوی میں فرق ہے ،یہی شاید اجمل شبیر اور ساحر لدھیانوی میں فرق ہے ،فنکار اور عام انسان کا فرق ہی یہی ہے کہ فنکار کا جو غم ہوتا ہے ،وہ اسے اپنا نہیں دنیا کا غم سمجھتا ہے ۔وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ اکیلا غم زدہ نہیں بلکہ اس دنیا میں لاکھوں کڑوروں انسان ایسے ہیں جو اس طرح کے غم میں مبتلا ہیں ۔اب صاحر انیس سو پنتالیس میں لاہور میں ایک میگزین میں نوکری کررہے تھے ،اسی زمانے میں ان کی پہلی شاعری کی کتاب تلخیاں شائع ہوئی ۔یہ کتاب نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ان نظموں اور غزلوں میں ان کرواہٹوں اور زلتوں کا زکر ہے جو ساحر لدھیانوی نے برداشت کیں ۔ساحر صاحب اپنے خیالات اور نظریات کے حوالے سے ایک پروگریسو ،روشن خیال اور لبرل انسان تھے ۔ہر وقت پرانے نظریات کے لوگوں سے ان کا تصادم ہو جاتا تھا ۔اسی زمانے میں لاہور میں سویرا نامی ایک میگزین میں انہوں نے ایک مضمون لکھا تھا ،اس مضمون میں ساحر نے انتہا پسند ی،تعصب اور تنگ نظری کے خلاف اپنا نقطہ نظر بیان کیا ،اسی وجہ سے ان کے خلاف فتوے جاری کردیئے گئے کہ وہ ایک ملحد اور کافر ہے۔وارنٹ بھی جاری ہو گئے ۔انتہا پسند عناصر سے بچنے کی خاطر ساحر نے لاہور چھوڑ دیا اور دہلی چلے گئے ۔وہاں بھی ساحر نے چھوٹی موٹی نوکریاں کی ۔دہلی میں ان کی ملاقات امریتا پریتم کے ساتھ ہو گئی ۔پھر کیا تھا امریتا جی کو ان سے محبت ہو گئی ۔امریتا پریتم جی کی محبت میں عقیدت اور عشق غالب تھا ۔ساحر سگریٹ پی کر جب پھینک دیتے تو امریتا جی وہ سگریٹ سنبھال کررکھ دیتی ۔لیکن ساحر کا تو زندگی کے بارے میں یہ خیال تھا کہ ،زندگی صرف محبت نہیں کچھ اور بھی ہے ،زندگی زلف و رخسار کی جنت نہیں کچھ اور بھی ہے ،بھوک اور پیاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں ،اس کی ہی حقیقت نہیں کچھ اور بھی ہے ۔انیس سو اٹھاون میں ایک فلم بنی تھی جس کا نام تھا پھر صبح ہو گی ،اس فلم کا ایک نغمہ ہے جسے ساحر نے لکھا تھا ،اس کے بول کچھ یوں ہیں کہ ،ان کالی صدیوں کے سر سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا ،جب سکھ کے ساغر چھلکے گے ،جب غم کا بادل پگھلے گا ،جب امبر جھوم کے ناچے گا ،جب دھرتی نغمے گائے گی ،وہ صبح کبھی تو آئے گی ؟اسی طرح انیس سو ستاون میں ایک فلم بنی تھی ،جس کا نام تھا پیاسا ،اس کا ایک نغمہ ہے ،جس کے بول کچھ یوں ہیں کہ ،محلوں ،یہ تختوں ،یہ تاجوں کی دنیا ،یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا ،یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا ،یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟یہ وہ غم کا اظہار ہے جسے ساحر نے برداشت کیا ۔دنیا بھی عجیب چیز ہے جہاں ایک فنکار دو وقت کی روٹی کے لئے محبت جیسے عظیم جزبے سے منہ پھیر لیتا ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ ساحر امریتا جی سے منہ پھیرتا رہا ۔مالی مشکلات کا شکار ساحر زندگی کی گاڑی کو چلاتا چلا گیا ۔دہلی میں بھی کسمپرسی جیسی صورتحال تھی ،اب فیصلہ کیا کہ ممبئی میں قسمت آزمائی جائے ۔ساحر اب ممبئی میں آگئے تھے ۔ممبئی کی فلم نگری میں کرشن چندر،عصمت چغتائی ،شکیل بدایونی ،مجروح سلطان پوری جیسے عظیم انسان کے نغموں کا راج تھا ۔ساحر نے فیصلہ کیا کہ وہ فلم انڈسٹری کے لئے گانے لکھیں گے ۔ممبئی میں قسمت آزمائی کا دور شروع ہو گیا ۔تلخیوں سے مزین ساحر کی زندگی کا فیصلہ اب بالی وڈ فلم انڈسٹری کے ہاتھ میں تھا ۔اب ممبئی میں ایک چھوٹے سے کمرے میں ساحر اور مجاز ایک ساتھ رہنے لگے ۔مجاز جو اپنے زمانے کے عظیم شاعر تھے ساحر کے ساتھ ملکر کام ڈھونڈ رہے تھے ۔اسی دوران مجازکے جاننے والے ایک پروڈیوسر سے ان دونوں کی ملاقات ہوئی ،پروڈیوسر نے کہا ،مجاز صاحب یہاں ممبئی میں کیا کررہے ہیں ،انہوں نے کہا ،فلموں کے گانے لکھنے کا کام ڈھونڈ رہے ہیں ،پروڈیوسر نے فورا کہا ،میں ایک فلم بنارہا ہوں ۔اس فلم کے لئے اچھے نغمے چاہیئے،کل آپ میرے آفس آجائیں ،مل بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں ۔مجاز اور ساحر دونوں اگلے دن ہی اس پروڈیوسر کے آفس پہنچ گئے ۔پروڈیوسر نے سیچویشن سمجھائی اور کہا کہ اس پر گانا لکھ کردیں ۔دونوں وہاں سے اپنے کمرے میں آگئے ،ساری رات بیٹھ کردونوں نے ایک نغمہ لکھا ۔دوسرے دن پھر پروڈیوسر کے آفس پہنچ گئے ۔مجاز نے جیب سے گانا نکالا اور پروڈیوسر کے ہاتھ میں تھمادیا ۔پروڈیوسر نے گانا پڑھا اور کہا کہ مجاز صاحب گانا تو اچھا ہے ،لیکن اس میں وہ بات نہیں جو ہونی چاہیئے تھی ۔مجاز پروڈیوسر کے اس جواب سے دلبرداشتہ ہو گئے ۔دونوں کمرے میں وآپس آئے ،مجاز نے کہا ساحر میں وآپس لکھنو جارہا ہوں ،یہاں تو اب میری شاعری پر سوال اٹھنے لگے ہیں ،ساحر نے کہا مجاز صاحب آپکی مرضی ،میں تو لڑوں گا ۔میرے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ۔اس کے بعد مجاز وآپس لکھنو آگئے ۔ساحر ممبئی میں اکیلے رہ گئے ۔اس کے بعد ساحر نے جدوجہد تیز کردی اور جلد ہی انہیں کامیابی مل گئی ۔انیس سو اکاون میں ایک فلم بنی تھی جس کا نام بازی تھا ۔اس میں ایک گانا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے ،تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنالی ۔اس کے علاوہ ایک نغمہ تھا ،یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں ۔یہ گانے لوگوں کو بہت پسند آئے ۔ساحر کے لفظوں کا جادو اب سر چڑھ کر بولنے لگا تھا ۔لیکن ساحر کی تلخیاں روز بروز بڑھ رہی تھی ،آئے دن ان کا جھگڑا سنگرز اور پروڈیوسرز کے ساتھ ہوجاتا تھا ۔اس زمانے میں ساحر گیارہ فلموں کے لئے نغمے لکھ رہے تھے ،نو فلموں سے انہیں نکال دیا گیا ،اب صرف دو فلمیں ان کے ہاتھ میں تھی ۔ساحر کی زندگی میں انیس سو ستاون کا سال انتہائی اہمیت کا حامل تھا ۔انہوں نے دو فلموں نیا دور اور پیاسا کے گانے لکھے ،یہی دو فلمیں سپر ہٹ ہوئی ،ان کے سپر ہٹ ہونے کی وجہ ساحر کے نغمے تھے ۔نیا دور کا ایک نغمہ تھا ،اڑیں جب جب زلفیں تیری ،کنواریوں کا دل مچلے ۔یہ گانا ہندوستان کے لاکھوں انسانوں کے زہن و دماغ پر چھا گیا ۔ساحر بھی آگے بڑھتا رہا ،اس کی تلخیاں بھی آگے بڑھتی رہی ۔کسی نہ کسی بات پر ساحر کا سنگرز اور پروڈیوسرز کے ساتھ جھگڑا ہوجاتا تھا ۔معروف میوزک ڈائریکرز اوپی نئیر اور ایس ڈی برمن کے ساتھ ساحر کی ہمیشہ لڑائی رہی ۔تمام بڑے بڑے میوزک ڈائیرکٹرز نے ساحر کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا ۔ساھر نے خیام اور روشن جیسے میوزک ڈائیرکٹرز کے ساتھ کام کیا ۔ساحر کی فلمیں برسات کی رات اور پھر صبح ہو گی ،ان کے نغموں کی بدولت سپر ہٹ ہو گئی ۔ساحر نے اپنے گانوں میں ایسی زبان استعمال کی ،جو پہلے کبھی نہ کی گئی تھی ۔انیس سو انسٹھ میں ساھر کی فلم ڈھول کا پھول کامیاب ہوئی ۔جس کا ایک گانا یہ تھا کہ اچھا ہے ابھی تک تیرا کچھ نام نہیں ہے ،تجھے تو کسی مذہب سے کوئی کام نہیں ہے ،جس علم نے انسان کو تقسیم کیا ہے ،اس علم کا تجھ سے کوئی کام نہیں ہے ،توں بدلے ہوئے وقت کی آواز ہے ،توں انسان کی اولاد ہے ،انسان بنے گا ،توں ہندو بنے گا ،نہ مسلمان بنے گا ۔یہ نغمہ اس زمانے میں بہت پسند کیا گیا ۔اسی طرح ان کا ایک نغمہ تھا کہ نہ تو کارواں کی تلاش ہے نہ ہمسفر کی تلاش ہے ،تیرے شوق خانہ خراب کو تیری رہگزر کی تلاش ہے ۔ساحر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ رومانس میں بھی فطرت کا تڑکا لگا دیتے تھے ۔جیسے یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں ،وہ ہیرو اور ہیروئن کی محبت میں پوری کائنات کو ملوث کردیتے تھے ۔یہ وہ بات تھی جو اس زمانے میں کسی اور فنکار میں نہ تھی ۔وہ واقعی ہی جادوگر تھے ۔ساھر نے بہت ہی خوبصورت گیت لکھے ۔مجھے ان کا ایک گانا بہت پسند ہے ،شاید ہم میں سے ہر ایک نے وہ گانا سن رکھا ہے ،جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا ۔ساحر اپنے مزاج کی وجہ سے ہمیشہ اکیلے رہے ۔امریتا پریتم کی محبت کو بھی جھٹلا دیا ۔صرف ایک ماں تھی جن کے ساتھ ان کا محبت سے لبریز رشتہ برقرار رہا ۔وہ ماں کے بغیر کچھ بھی نہ تھے ،ہر کام ،ہر فیصلہ ماں کے حکم کے مطابق کرتے رہے ۔کہا جاتا ہے ساحر ماں کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتے تھے ۔آخرکار ایک دن بوڑھی ماں کا بھی انتقال ہو گیا ۔اس کے بعد ساحر ٹوٹ گئے ۔وہ جو ہر کسی سے لڑپڑتا تھا ،وہ جس کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی تھی ،وہ جو تلخیوں میں پلا بڑھا تھا ۔اب ٹوٹ چکا تھا ۔کہتے ہیں ماں کی موت پر ساحر بہت روئے تھے ۔وہ جس نے ماں کے سوا کسی کی پرواہ تک نہ کی ،اب اکیلا بیٹھا رو رہا تھا ۔وہ بے بس ہو گیا تھا ۔اب ساحر اکیلا تھا ،امریتا بھی ساتھ نہ تھی ،ماں بھی اس دنیا کو چھوڑ گئی تھئ ۔ساحر کی کرواہٹیں زندگی بھر مٹ نہ پائیں ۔ماں کی موت کا صدمہ برداشت نہ کرسکا اور آخر کار تلخیوں ،تنہائیوں اور مصیبتوں کو جھیلنے والا ساحر بھی مر گیا ۔ساحر اکیلا دنیا سے چلا گیا ۔وہ زندگی بھر اکیلا رہا ،اور اکیلا ہی دنیا کو چھوڑ کر چلا گیا ۔اب پیچھے دو بہنیں تھی اور ایک دوست جنہوں نے ساحر کو دفنایا ۔انیس سو اکھتر میں ساحر لدھیانوی کو ہندوستان کے سب سے بڑے ایوارڈ پدم شری سے نوازا گیا ۔ان کے نام پر لدھیانہ میں لدھیانہ پارک ہے ،ساحر آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں ،لیکن ان کے گیت آج بھی ہماری یادوں میں گنگنا رہے ہیں ۔جب تک اس دنیا میں ساحر کے لکھے گئے نغمے بجتے رہیں گے ،ساحر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا ۔بس یہی ایک خواہش ہے کہ جہاں وہ گیا ہے ،وہاں اس کی زندگی میں وہ تلخیاں نہ ہوں ،جو اس نے اس دنیا میں جھیلیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔