ایک تھا رابندر ناتھ ٹیگور
اس دنیا میں کبھی ایک انسان ہوا کرتا تھا ،جس کا نام رابندر ناتھ ٹیگور تھا ۔۔۔یہ انسان سات مئی اٹھارہ سو اکسٹھ میں بنگال میں پیدا ہوا تھا ۔اس کی شاعری ،اس کی نظمیں ،اس کا لٹریچر ،اس کا آرٹ سب لاجواب ہیں ۔ایک چھوٹی سی نظموں اور گانوں کی کتاب ۔۔۔گیتن جلی ۔۔۔پر اس انسان کو نوبل پرائز سے بھی نوازا جاچکا ہے ۔کیا انسان تھا جس نے پانچ براعظموں کی سیر و سیاحت کی ،دنیا کے تیس ممالک میں آوارہ گردی کی ۔یہ عصر حاضر کا عظیم انسان ہے ۔یہ یونیورسٹی ہے،اس عظیم انسان کے الفاظ جدید دنیا کے لئے تحفہ ہیں ۔میری نگاہ میں ٹیگور کی معصوم سے نظموں کی کتاب ۔۔گیتن جلی۔۔۔انسانی ارتقاء ۔۔۔۔میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔اس کتاب کی وجہ سے بھی انسانی شعور کو بڑی ترقی نصیب ہوئی ۔یہ عظیم اور نایاب کتابوں میں سے ایک بہترین کتاب ہے۔وہ عظیم ترقی پسند اور لبرل انسان تھا ۔اس کی روح کائناتی تھی اور وہ ایک ملامتی صوفی بھی تھا ۔وہ صرف اپنے ملک تک محدود نہ تھا ،وہ کائنات کی شعوری کیفیت میں آوارہ گردی کرتا رہا ۔وہ اس کائنات کا شہری تھا۔وہ انسان خدا،سورج ،چاند اور ستاروں تک پہنچا ۔اپنی کتاب گیتن جلی میں اس نے اپنی ایک نظم میں اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس طرح غریب ہے جس طرح ایک پرندہ ۔۔۔۔اور وہ اس طرح امیر ہے جس طرح ایک پرندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے لکھا تھا کہ وہ ہر دن ایک نیا اور تخلیقی گانا گا سکتا ہے اور یہی اس کی زندگی ہے ۔۔۔۔رابندر ناتھ ٹیگور کبھی ٹمپل نہیں گیا ،وہ مذہبی رسومات کو نہیں مانتا اور جانتا تھا ،وہ ہندو گھرانے میں تو پیدا ہوا تھا ،لیکن وہ ہندو نہیں تھا ،وہ تو کائناتی روح تھی۔ایک بار اس سے سوال کیا گیا ،رابندر ناتھ تم ہندو مذہب کو نہیں مانتے،لیکن کہتے ہو میں ایک روحانی انسان ہوں،بھگوان کی پوجا نہیں کرتے ،ہندو ؤں کی کتابوں کو نہیں مانتے ،یہ کس طرح کی روحانیت ہے؟اس نے جواب دیا وہ ہندو لٹریچر سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ،کیونکہ اگر کوئی بھگوان ہے بھی تو وہ اپنے انداز میں ان کا تجربہ کرے گے،ان کے ساتھ گپیں لگائیں گے۔رابندر ناتھ کہا کرتے تھے،وہ ایک اوریجنل انسان بننا چاہتے ہیں اور انفرادی تجربات سے بھگوان تک پہنچنا چاہتے ہیں ،اس کے لئے انہیں کسی ہندو مذہب یا الہامی یا غیر الہامی کتاب کی ضرورت نہیں ۔وہ کہا کرتے تھے ان کے دل کی دھڑکنیں ہی ان کا بھگوان ہیں ۔وہ کہتے تھے ان کا تجربہ ہی انہیں مطمئن کرسکتا ہے ،اس کے لئے ان کا ہندو ہونا غیر ضروری اور خطرناک ہے ۔وہ کہتے تھے وہ یقین اور ایمان کو نہیں جانتے اور نہ اس اندھی تقلید کے پیچھے اپنا وقت برباد کرسکتے ہیں ۔رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے ناول ۔۔۔۔آخری کویتا ۔۔۔۔یعنی آخری نظم میں لکھا تھا ۔۔۔ان کے لئے آزادی ہی سب کچھ ہے اور صرف انہیں آزادی کی ضرورت ہے ۔آخری کویتا ان کا کمال ناول ہے ۔یہ کوئی شاعری کی کتاب نہیں ہے ۔آج اپنے دوستوں کو ان کے اس ناول کے بارے میں بتاتا ہوں ۔وہ اصل میں کمال بات کہہ گئے ۔اس ناول میں ایک ہیرو ہے جو ایک مہذب ،دولت مند اور خوبصورت خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔وہ خوبصورت خاتون بھی اس انسان سے شادی کرنے کی خواہش مند ہے ،لیکن اس کے لئے وہ یہ شرطط رکھتی ہے کہ اس کی ایک جھیل ہے ،اس کے ساتھ اس کا ایک خوبصورت محل ہے ،وہ اس جھیل میں کشتی رانی کرتی ہے اور اپنے محل میں رہتی ہے ،شادی کے بعد وہ وہاں رہے گی ،کشت رانی کرے گی ،لیکن جس انسان سے شادی کرے گی وہ اس کے ساتھ نہیں رہے گا ۔ہاں اسے وہ ایک اور محل بناکر دے گی اور جھیل بھی اس کے لئے بنائی جائے گی ۔۔۔لیکن وہ اور مرد دونوں مختلف جگہوں پر رہیں گے ،کبھی شادی کرنے والے مرد کے ساتھ وہ اکھٹے نہیں رہے گی ۔ہاں کبھی جھیل میں حادثاتی طور پر ملاقات ہو جائے تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا ،ہاں اگر صبح کی سیر کے دوران ملاقات ہو جائے تو وہ یہ ملاقات کر سکتی ہے ،لیکن شادی کرنے والے انسان کے ساتھ وہ ایک گھر ایک کمرے اور ایک جھیل میں نہیں رہ سکتی ۔اس ناول کا ہیرو کہتا ہے،پھر یہ شادی کس کام کی ؟تو وہ خوبصورت عورت کہتی ہے،وہ دونوں اکھٹے رہے تو ان کے درمیان جو محبت ہے وہ قتل ہو جائے گی ۔اس لئے وہ شادی نہیں کرسکتی ،وہ کہتی ہے آئے میری محبت کے شہزادے انسان اسے کوئی اعتراض نہیں ،جاکر وہ کسی اور سے شادی کرلے ۔،وہ اسے خواب و خیال میں یاد رکھے گی لیکن شادی کرکے وہ اپنی محبت اور آزادی کا قتل نہیں ہونے دے گی۔وہ کوئی فکسڈ رشتہ نہیں چاہتی۔۔۔۔اس ناول میں رابندر ناتھ ٹیگور آزادی اور محبت کے ساتھ ساتھ ایک لچکدار تعلق کا نظریہ بھی دیتا نظر آتا ہے ۔رابندر ناتھ ٹیگور نے اسی ناول میں لکھا ہے ۔۔۔۔جب تک تم دور نہیں رہو گے تم قریب نہیں ہو سکتے ۔اگر تم ہمیشہ دور رہو گے،محبت مر جائے گی اور اگر تم ہمیشہ قریب رہو گے،محبت پھر بھی قتل ہو جائے گی ۔رابندر ناتھ کے مطابق محبت ہمیشہ بہتے دریا کی طرح ہوتی ہے ۔اس میں کوئی قید نہیں ،کوئی زنجیریں نہیں ،اس میں کوئی سزا جزا نہیں ۔یہ ناول صرف ناول نہیں ہے ،بلکہ انسانیت کے لئے ایک عظیم خواب ہے ۔رابندر ناتھ ٹیگور ہمیشہ خوبصورتی کی تلاش میں رہے ،خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ،وہ کتنے بے وقوف ہیں ،کتابوں میں خوبصورتی تلاش کرتے رہتے ہیں ،اور خوبصورتی ہمیشہ دروازے کے باہر کھڑی ان کا انتظار کرتی رہتی ہے ،وہ دروازہ کھٹکھٹاتی رہتی ہے ۔وہ کہتے ہیں خوبصورتی کمرے کے اندر مطالعہ کرنے والی کتاب میں نہیں ملتی ،خوبصورت تو تب ملتی ہے جب انسان کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آتا ہے،چاند کی دلکشی کو دیکھتا ہے،رقص کرتے ستاروں کو انجوائے کرتا ہے،یہی خوبصورتی تلاش کرنے کا بھگوانی انداز ہے ۔وہ کہتا ہے ،کتابیں بند کرو ،انا یا ایگو کی بتی بجھاؤ اور کمرے سے باہر کائنات میں پھیل جاؤ،پھر دیکھو ہر طرف تمہیں خوبصورتی ہی خوبصورتی نظرآئے گی۔میری تمنا ہے کہ میرے دوستو رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ مل جاؤ،جب تک ساتھ دینے کا من کرے ،پھر جب چاہو آزادی کے ساتھ اسے چھوڑ دو ۔۔۔۔۔لیکن ایک بار رابندر ناتھ ٹیگور کی باتیں سننی اور پڑھنی ضرور چاہیئے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔