ایک تھا منٹو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک کہانی
آج ایک ایسی شخصیت کےبارے میں باتیں کرتے ہیں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔جس انسان کی لکھی گئی تحریریں میں نے سب سے پہلے پڑھی ،اس کا نام ہے سعادت حسن منٹو ۔سعادت حسن منٹو کمال ملامتی انسان تھے ۔وہ انسان جو میٹرک کے بعد ایف اے میں دو مرتبہ فیل ہوگیا ۔آج اسے ادب کی دنیا کا عظیم ترین دانشور مانا جاتا ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ منٹو جی ایسے انسان تھے جنہیں رسمی تعلیم سے رتی برابر بھی دلچسپی نہ تھی ۔کمال بات ہے نہ کہ ایسا انسان جو رسمی تعلیم میں ناکام رہا ،اس نے بعد میں انگریزی ،فرنسیسی اور روسی ادب کو خوب پڑھا ۔پڑھنے کا اتنا رسیا کہ جیب میں پیسے نہ تھے تو بک اسٹال سے کتابیں چوری کرکے پڑھی ۔پھر کیا تھا وکٹرہو گو کا ترجمہ کر ڈالا۔آسکروائلڈ کے ڈرامے ترجمہ کئے جیخوف اور گورکی سب کو سجھا اور وہ ادب اردو کا حصہ بنا ۔معلوم نہیں منٹو جی کو مرنے کی اتنی جلد کیا تھی ۔اتنی جلدی کہ سب کچھ جلدی جلدی کیا اور اس پاگیزہ اور مقدس دنیا سے روانہ ہو گئے ۔انیس سو اکتیس میں پہلا افسانہ لکھا اور یہ افسانہ جڑانوالہ باغ ٹریجیڈی کے پس منظر میں لکھا گیا ۔اس کے بعد کہانیوں کے بائیس مجموعے لکھ ڈالے ۔ریڈیو ڈرامے لکھے مضامین تحریر کئے ،شخصیات پر خاکے لکھے ۔فلمی کہانیاں لکھی ۔نوکریاں کی ۔فحش نگار ہونے کی وجہ سے مقدمات کا سامنا کیا ۔ترقی پسند ادیبوں سے لڑائیاں فرمائیں ۔۔یہ سب کچھ عالمی ادب کو دیا اور پھر شراب کو ساتھ لئے صرف تنتالیس برس کی عمر میں کسی اور دنیا میں چلے گئے ۔منٹو تھا کیا؟ یہ بات ابھی تک الباکستانیوں کی سمجھ میں نہیں آسکی ۔ہندوستان والوں کو تو شاید کچھ نہ کچھ منٹو کے بارے میں معلوم ہو ،لیکن ہم آج بھی منٹو کو فحش نگار اور بدتمیز افسانہ نگار ہی جانتے ہیں ۔وہ کمال کا حقیقت پسند اور رجعت پسند تھا ۔وہ ادب کی دنیا کا ایسا شہنشاہ تھا جسے ہم سمجھنا نہیں چاہتے اور نہ ہی اس کی خواہش تھی کے ہم جیسے مقدس ترین لوگ اسے جان سکیں ۔منٹو منافقت سے بھرپور معاشرے میں ایک خوفناک سچائی تھی ۔معاشرہ جن کو دھتکارتا ہے ،معاشرہ جن سے نفرت کرتا ہے ،منٹو معاشرے کے اس طبقے سے محبت کرتے تھے اور انہی پر ہی لکھتے تھے ۔اشرافیہ اور مقدس ترین طبقے کو جس طرح منٹو نے للکارا ہے ،اور ان کا مزاق اڑایا ہے ،شاید تاریخ انسانی میں ایسا کوئی ادیب نہ ہو ۔منٹو افسانوی اردو ادب کا پہلا باغی اور انقلابی ادیب ہے ۔ایسا ادب تخلیق کیا کہ منٹو کے بعد ایسا ادب پھر سامنے نہیں آسکا ۔اچھا سب سے مزے کی بات یہ تھی کہ جو منٹو کو فحش نگار اور کافر کہا کرتے تھے ،منٹو ان کا بڑا احترام کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ جو انہیں کافر اور فحش نگار کہہ رہے ،یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔منٹو کی وجہ سے ہی اردو ادب کو عالمی سطح پر پر پزیرائی ملی ۔اب ایسے ادیب کو گالیاں تو پڑنی چاہیئے ۔دنیا کے پندرہ ممالک میں منٹو صاھب پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جاچکی ہے۔انگریزی میں منٹو صاحب پر بیشمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔منٹو کو سمجھنا ہے تو پھر بھگت سنگھ اور بھگت سنگھ جیسے تمام انقلابیوں کو سمجھنا ہوگا ۔اس کی وجہ ہے کہ منٹو کے انقلابیوں اور باغیوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور وہ باغی گرہ میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے ۔منٹو کے بارے میں ادیبوں کی رائے تو یہ ہے کہ وہ ترقی پسند تھے ،لیکن ترقی پسندوں کی منافقتوں کے خلاف تھے ۔ترقی پسندوں کی منافقانہ تحریکوں کے خلاف تھے ۔منٹو صاحب کھل کر شراب پیتے تھے اور شرابیوں میں ہی ان کا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا تھا ۔امرتسر سے ممبئی تک بھرپور زندگی گزاری اور جب پاکستان آئے تو بدترین صورتحال کا شکار ہو گئے ۔ممبئی کا زمانہ ان کی زندگی کا خوشحال ترین دور شمار کیا جاتا ہے ۔پیسوں کے اعتبار سے وہ اس دور میں بہت خوشحال تھے ۔کیونکہ اس زمانے میں وہ فلمیں لکھ رہے تھے ،کہانیاں لکھ رہے تھے ،پیسہ آرہا تھا ۔بھائی انہوں نے تو شراب پینے کا حق بھی ایماندرانہ انداز میں ادا کیا ،شراب ایسے پی جیسے شراب پینی چاہیئے ۔انیس اٹھتالیس میں پاکستان آگئے ۔پھر وہی ہونا تھا جو ہونا چاہیئے ۔بدترین صورتحال کا شکار ہو گئے ۔ان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بدترین سلوک روا رکھا گیا ۔وہ آخر میں خود کہتے تھے کہ یہاں ان کا دم گھٹتا ہے ۔یقین نہیں ہے تو ان کے وہ خطوط ضرور پڑھ لیں جو انہوں نے عصمت چغتائی کے نام تحریر کئے ہیں ۔ان پر مقدمات بنائے گئے ،وجہ یہ تھی کہ انہوں نے جنسی اشاروں کو بے رحمانہ سچائی کے ساتھ استعمال کیا ۔پاکستان میں پبلشروں نے ان کے افسانے شائع کرنے سے انکار کردیا ۔اب اگر کسی ادیب کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا تو اس کا دم تو گھٹے گا ۔منٹو کی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف ایک جگہ پر کھڑا رہا ،مظلوموں کے ساتھ اور ان کے ساتھ معاشرہ جن کو گھٹیا اور نفرت انگیز نگاہوں سے دیکھتا ہے ۔منٹو کے یار باش یہی لوگ تھے ۔ان کے ساتھ ملکر منٹو نے وضع داروں کا خوب مزاق اڑایا اور زندگی کو انجوائے کیا ۔اچھا ایک مزے کی بات یہ کہ وہ صرف انسانیت پرست تھا ۔وہ خود کہتا تھا کہ نہ وہ مسلمان ہے ،نہ ہندو اور نہ ہی عیسائی وہ تو ہے ایک شرابی جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا ہے جن کو معاشرہ نفرت سے دیکھتا ہے ۔منٹو کو بلاشبہ پہلا انسانیت پرست افسانہ نگار کہا جاسکتا ہے ۔وہ مذہبی تقسیم کے خلاف تھا ،ایسے سماج کے خلاف تھا جہاں لوگ تقسیم ہو جائیں ۔اور ان لوگوں کا ہمدرد تھا جن سے نفرت کی جاتی تھی ،شاید اسی وجہ سے منتو صاحب شرابی تھے ۔کچھ لوگ انہیں افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں اور کچھ انہیں فحش نگار کی حیثیت سے ،جانتے دونوں ہیں ،لیکن انڈراسٹینڈنگ دونوں کو نہیں ۔وہ خود کہتے تھے کہ وہ افسانہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور عدالتیں انہیں ایک فحش نگار کی حیثیت سے جانتی ہیں ۔حکومت انہیں کبھی کمیونسٹ تو کبھی بڑا ادیب کہتی ہے ۔کبھی ان پر روزی روٹی کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں تو کبھی کھول دیئے جاتے ہیں ۔وہ کہتے تھے کہ وہ پہلے بھی سوچتے تھے اور اب بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ کیا ہیں ؟اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کا مقام کیا ہے؟یہ مسمی سعادت حسن منٹو ہے کون؟ یہ انہوں نے اپنے متعلق خود لکھا ہوا ہے ۔اچھا جی کچھ منٹو جیسے فحش نگار کے بارے میں معلومات دینا بھی ضروری ہے ۔جی جناب منٹو صاحب افسانہ نگار تھے ،گیارہ مئی 1912 کو سمبرالہ لدھیانہ میں پیدا ہوئے ۔ان کا تعلق کشمیر کے منٹو خاندان سے تھا ۔دو مرتبہ ایف ائے اور ایک مرتبہ میٹرک میں فیل ہوئے ۔علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا ،لیکن تعلیم پوری نہ کرسکے ۔اس کی وجہ شاید ان کی طبعیت ایسی تھی کہ رسمی تعلیم سے کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ویسے کہا تو جاتا ہے کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں تھی اس وجہ سے علی گڑھ کو چھوڑ دیا ہے ۔اخبار میں لکھا ،مدید بنے ،کہانی نویسی کی ،فلمیں لکھی ،مکالمہ نگاری کی ،فیچر نگاری کی ۔اور پھر پاکستان چلے آئے اور پھر ہم پاکستانیوں نے انہیں ایسی کیفیت اور صورتحال سے دوچار کیا کہ منٹو مر گئے ۔ویسے ایسی باتیں میں نہیں لکھتا کہ وہ کہاں پیدا ہوئے اور کہاں وفات پا گئے ،لیکن منٹو کے بارے میں ایسا لکھنا ضروری تھا ،وہ کیوں ضروری تھا ،سمجھنے والے شاید سمجھ جائیں ۔کچھ منٹو کے افسانے ہیں ،ان کے نام کہانی میں لکھ دیتا ہوں ،موقع ملے تو اس شرابی کی ان تحریروں کو پڑھیئے گا ۔آتش پارے ،دھواں،لزت سنگ ،چغد،سیاہ حاشیئے،خالی بوتلیں ،خالی ڈبے۔ٹھنڈا گوشت ،نمرود کی خدائی ،بادشاہت کا خاتمہ ،یزید ،سڑک کنارے ،اوپر نیچے اور درمیان ،سڑکوں کے پیچھے ،بغیر اجازت ،برقعے ،شکاری عورتیں ،رتی تولہ ماشہ،اس کے علاوہ منٹو صاحب نے اپنے ہمعصروں کے خاکے تحریر کئے ۔ان میں گنجے فرشتے ،لاؤڈ سپیکر بہت مشہور ہیں ۔موقع ملے تو ان خاکوں کے مجموعوں کو بھی پڑھ لیجیئے گا ۔منٹو کے دو مضامین کے بھی مجموعے ہیں ،وقت ملے تو ان کو بھی لفٹ کرادیجیئے گا ۔ان مجموعوں کانام ہے ،تلخ ،ترش ار شیریں ۔اچھا یہ باتیں بھی میں اپنی کہانیوں میں نہیں لکھتا ،لیکن منٹو کے بارے میں ایسا لکھنا ضروری تھا ،کیوں ،وہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے ۔میں یہ تو نہیں جانتا کہ منٹو کافر تھا یا مومن تھا ۔لیکن یہ بات مانتا ہوں کہ وہ ایک نے رحم حقیقت نگار تھا ۔انسانیت سے پیار کرتا تھا اور جمالیاتی حسن سے بھرپور تھا ۔پاکستان کے بارے میں منٹو صاحب نے کہا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ آزادی تھی ،کیونکر حاصل کی گئی؟آزاد ہو کر انسانوں کی زندگی میں کیا بہتری آئی ۔کیا تبدیل ہوا؟اس کے متعلق کوئی نہیں سوچتا ۔اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ کیا ہم اس بارے میں سوچ رہے ہیں ۔منٹو نے لکھا تھا کہ پاکستان اور بھارت دو آزاد ملک قرار دیئے گئے تھے ۔لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارت کہاں ختم ہوتا ہے اور پاکستان کہاں سے شروع ہوتا ہے؟اور وہ لہو کس کا ہے جو ہر روز بہایا جارہا ہے ۔منٹو صاحب نے اپنی تحریروں کے بارے میں کہا ہے کہ ان کی تحریریں کڑوی کسیلی تو لگتی ہیں ،مگر جو مٹھاس آج پیش کی جارہی ہے اس کا کیا فائدہ انسانیت کو مل رہا ہے ۔نیم کے پتے کڑوے سہی لیکن خون تو صاف کرتے ہیں ۔ایک بات بہت اہم ہے وہ یہ کہ معاشرے کو جس طرح منٹو نے دیکھا تاریخ انسانیت کے ادب میں ابھی تک شاید ایسا ادیب پیدا نہیں ہوا۔اسی وجہ سے منٹو کو اشرافیہ سے نفرت تھے ،اعلی اخلاق والوں سے نفرت تھے اور ایسی وجہ سے عظیم ادب ہمارا نصیب ہوا جس کی ہم آج بھی قدر نہیں کررہے اور یہ بدقسمتی ہے اور کچھ نہیں ۔سچ کی بدبودار ،گندی اور بیہودہ تصویر جس خوبصورتی سے منٹو نے دیکھائی ،ایسا صرف منٹو ہی کرسکتے تھے ۔سچ کی تصویر اتنی گھٹیا اور بیہودہ تھی کہ پھر انہیں فحش نگار اور کافر کہا گیا ۔بھائی منٹو شاہکار تھے اور وقت کے محتاج نہ تھے ۔اس لئے تو صرف 43 سال کی عمر میں اردو ادب کو خوشحال ادب دیکر ہنسی خوشی چلے گئے ۔تقسیم ،فرقہ پرستی اور جنگ و جدل پر جس قدر تیکھا طنز منٹو صاحب نے کیا ہے ،وہ صرف وہی کرسکتے تھے ۔سچ کی بڈصورت تصویر کو سامنے لانے کے لئے بعض اوقات ادیب کو بے رحم ہونا پڑتا ہے ۔اور شاید اسی وجہ سے انہوں نے بے رحمی کا مظاہرہ کیا ۔میری صرف ایک گزارش ہے کہ منٹو کو ضرور گالیاں دیں ،ان کو فحش نگار جانیں اور کافر بھی کہیں ۔لیکن منٹو کو ایک مرتبہ ضرور پڑھیں ۔منٹو جیسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔