ایک تھا کرشن چندر
کرشن چندر اردو ادب کا ایک عظیم ادیب ہے۔اس عظیم ادیب کی کہانیوں کی وجہ سے ہندوستان میں نئی تہذیب کی بنیاد کا آغاز ہوا۔ان کی تحریروں کی وجہ سے جدیدیت اور انسان پسندی اس خطے میں پروان چڑھی ۔ہندوستان میں جدیدیت،انسانیت اور نئی تہذیب کی آبیاری کے لئے کرشن چندر آخری سانسوں تک سرگرم رہے ۔کرشن جی کے پہلے افسانے کا نام یرقان تھا جو ادبی دنیا لاہور سے شائع ہوا۔یہ افسانہ آج بھی اردو ادب کے بہترین افسانوں میں شمار کا جاتا ہے ۔اس کے بعد ان کا دوسرا افسانہ ہمایوں میں شائع ہو جس کا نام تھا ،جہلم میں ناو،اس افسانے کے شائع ہونے کے بعد وہ اردو ادب کے عظیم ادیب کہلائے جانے لگے ۔اردو فکشن کی تاریخ میں کرشن جی ایک اعلی و ارفع مقام رکھتے ہیں ۔جب بھی ان کا کوئی افسانہ شائع ہوتا تھا تو اس افسانے کے سرورق پر لکھا ہوا ہوتا تھا یہ ہیں ایشیاٗ کے عظیم افسانہ نگار کرشن چندر۔دنیا کی تمام اہم زبانوں میں کرشن جی کی تحریروں کا ترجمہ ہوا۔انہیں بھارت سرکار کی طرف سے سب سے معتبر ایوارڈ پدم بھوشن سے بھی نوازا گیا ۔کیا کمال کی بات ہے کرشن جی اس زمانے میں لکھ رہے تھے جب اردو ادب کا سب سے بہترین فکشن لکھا جارہا تھا ۔منٹو ،بیدی ،عصمت جیسے لکھاریوں کے درمیان میں اپنا منفرد مقام حاصل کرنا کوئی آسان بات نہ تھی ۔اس زمانے میں ترقی پسند تحریک کے بھی خوب چرچے تھے ،کرشن جی ترقی پسند تحریک کی نشوونما میں اہم کردار ادا کررہے تھے ۔ایک مظلوم اور محکوم معاشرے کو آزادی ،روشن خیالی ،انسانیت اور ترقی کے فکر و خیال سے روشناس کرارہے تھے ۔کرشن جی کی پیدائش 23نومبر 1914 کو راجھستان میں ہوئی ۔لیکن ان کا آبائی وطن وزیر آباد تھا ۔جی ہاں وہی وزیر آباد جو اب پاکستان کا حصہ ہے ۔۔۔وزیر آباد گجرانوالہ کی تحصیل ہے ۔1940 میں کرشن چندر کی شادی لاہور میں ودیاوتی سے ہوئی ،دوسری شادی اردو ادب کے عظیم ادیب رشید احمد صدیقی کی بیٹی سلمہ صدیقی سے ہوئی ۔نو جولائی 1961کو یہ شادی ہوئی ۔اردو ادب کی جب بھی بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے چار نام سامنے آجاتے ہیں ،سعادت حسن منٹو،بیدی،عصمت چغتائی اور کرشن چندر۔یہ عظمت کیا کم ہے کہ منٹو اور بیدی کے ہوتے ہوئے انہیں ایشاٗ کا عظیم ادیب کہا گیا ۔اس ایک جملے سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اس عظیم ادیب نے کہانی کو نئی جہتیں دی ،زندگی کے نئے اور جدید پہلووں کو دنیا کے سامنے پیش کیا ۔اس زمانے میں کہانی نیا روپ اختیار کررہی تھی ،تقسیم ہو چکی تھی ،نفرت اور غصہ تھا،تقسیم کی وجہ سے جو زہنیت پیدا ہوئی تھی ،اس تعصب زدہ زہنیت کا مقابلہ کرنے کے لئے انہوں نے ایسا فکر و خیال دیا کہ محبت اور امن کی شمعین جلتی رہی ۔تقسیم کی نفرت کو کم کرنے میں ان کی تحریروں کا بڑا ہاتھ تھا ۔ان کی ہر تحریر میں ایمانداری ،سچائی اور روشن خیالی جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ہر تحریر میں انسان کی اندر کی دنیا کی کشمکش کا زکر ہے ،انسانوں کی الجھنیں ،مشکلات اور نفسیاتی مسائل کو وہ خوبصورت انداز میں منظر نگاری کی شکل میں آسانی سے پیش کردیتے ہیں ۔کرشن چندر کے کوئی 56 کے قریب افسانے اور 60 کے قریب ناول ہیں ۔اگر کبھی موقع ملے تو ان کے دو ناولوں کو ضرور پڑھیں ۔ایک ناول کا نام ہے شکست اور ایک کا نام ہے باون پتے ۔اس عظیم ادیب نے اردو فکشن کو ایک سے ایک منفرد افسانوں اور ناولوں سے نوازا ۔کالو بھنگی ،دو فرلانگ لمبی سڑک ،جامن کا پیڑ اور اڑتا درخت ان کے مشہورترین افسانے ہیں ۔کالو بھنگی تو آج بھی سب کو یاد ہے ۔ناولوں میں شکست کے علاوہ ایک گدھے کی سرگزشت ،جب کھیت جاگے اور باون پتے بہت مشہور ہیں ۔کرشن چندر نے کشمیر کے علاقے پونچھ سے میٹرک کے بعد ایف سی کالج لاہور کا رخ کیا ۔یہاں سے انٹر،بی اے اور ایم اے کیا ۔1937 میں کرشن جی نے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔1939 سے 1942 تک وہ آل انڈیا ریڈیو سے منسلک رہے ۔اس کے بعد زیڈ ڈبلیو احمد کی شالیمار پکچرز میں ملازمت اختیار کر لی ۔میں نے ان کی تحریوں سے ایک بات سیکھی ہے کہ منظر نگاری کا جو سلیقہ کرشن جی کو تھا ،شاید وہ اردو کے کسی اور ادیب کا خاصا نہیں رہا ۔کم ہی لکھنے والے ایسی منظر نگاری کا مظاہرہ کرسکتے ہیں جو بہت آسانی سے کرشن جی کردیتے ہیں ۔ان کی وہ کہانیاں جو کشمیر کا احوال سناتی ہیں ،ان میں کمال منظر نگاری کی گئی ہے ۔کشمیر کی دھڑتی سے انہیں عشق تھا ۔وہ کشمیر کے پہاڑوں،ندی ،نالوں اور چشموں اور دریاوں کا احوال ایسے سناتے ہیں کہ پڑھنے والا کشمیر کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔کشمیر کے موضوع پر لکھی گئی ان کی تمام کہانیاں غیر معمولی نوعیت کی ہیں ۔انسان اور اس سے جڑے ہوئے ہر پہلوو،ہر خیال ،ہر فکر کو کرشن جی نے اپنی تحریر کا ھصہ بنایا ۔اردو ادب کے اس حسین و جمیل ادیب کو زندگی سے بے پناہ محبت تھی ،انہوں نےزندگی سے لامحدود رشتہ قائم کئے رکھا ۔زندگی کو منٹو کے بعد اگر کسی نے جانا اور پرکھا تو وہ ہین کرشن چندر ۔کرشن چندر نے اپنے ہمعصروں میں سب سے زیادہ کہانیاں تحریر کی ۔جب تک زندہ رہے ،ان کا قلم ایک آبشار کی طرح گیت گاتا رہا ۔اس گیت کی دھنیں اور مٹھاس آج بھی واضح سنائی دیتی ہیں ۔ایک ایسا عالمی ادیب جس کے دل و روح میں تمام دنیا کی انسانیت کے لئے درد تھا ۔وہ بے زبانوں کی زبان تھا ،وہ تعصب اور نفرت کے خلاف ایک بلند آزان تھا ۔وہ ترقی اور روشن خیال کا سب سے بڑا علمبردار تھا ۔وہ دکھی دلوں کی پکار تھا ،وہ بے چین اور بیقرار روحوں کی حسین و دلکش چیخ تھا ۔اس کے لفظ پوری انسانیت کے لئے تھے ۔اس کی ہر تحریر میں پوری انسانیت کی ترجمانی نظر آتی ہے ،ایسے انسان کم پیدا ہوئے ہیں ۔ان کی ایک کہانی ہے جس کا نام ہے پورے چاند کی رات ۔۔اس کے کچھ جملے یوں ہیں ۔۔۔پل گزر گیا ،پگڈنڈی گزر گئی ،بادام کے درختوں کی قطار ختم ہو گئی ،اب ہم جھیل کے کنارے کنارے چل رہے تھے ،جھاڑیوں میں مینڈک بول رہے تھے ،ان کی بے ہنگم آوازوں کا شور بھی ایک نغمہ بن گیا تھا ۔سوئی ہوئی جھیل میں چاند کی کشتی کھڑی تھی ،ساکن چپ چاپ محبت کے انتظار میں ۔۔۔کرشن جی کا شمار دنیا کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنکی موت لکھتے لکھتے ہوئی ۔وہ ایک خاکہ لکھ رہے تھے جس کا نام تھا ادب برائے بطخ ۔وہ جملہ جہاں ان کی موت واقع ہو گئی وہ بھی تحریر کردیتا ہوں ۔جملہ تھا ،نورانی کو بچپن ہی سے پالتو جانوروں کا شوق تھا ،کبوتر ،بطخ ،رنگ برنگی چڑیاں۔۔۔۔۔۔اس کے بعد انہیں دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ میز پر جھک گئے ،اس طرح ان کا انتقال ہوا ۔کبھی موقع ملا تو کرشن جی کے اس خاکے کو میں مکمل کرنے کی کوشش ضرور کروں گا چاہے اس کے لئے مجھے بھی موت کو گلے لگانا کیوں نہ پڑے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔