امتیاز خان کی بیگم نے اپنے کچھ زیورات بینک کے لاکر میں رکھے ہوئے تھے۔ لاکر کسی زمانے میں معقول کرائے پر ملتے ہوں گے۔ آج کل نہیں۔ مختلف بینکوں کے مختلف سسٹم ہیں۔ کچھ سالانہ کرایہ لیتے ہیں اور کچھ اچھی خاصی بھاری رقم ’’سکیورٹی‘‘ کے نام پر رکھ لیتے ہیں۔ یہ رقم لیتے وقت کہا جاتا ہے کہ لاکر واپس کریں گے تو رقم واپس مل جائے گی۔ گویا لاکر کے ساتھ یہ رقم بھی ’’لاک‘‘ ہو جاتی ہے۔ سسٹم جو بھی ہو‘ مجموعی طور پر لاکر ان دنوں بہت مہنگے ہیں۔ امتیاز خان نے ایک دن بیگم سے مشورہ کیا کہ ہمارے زیورات چھوٹے لاکر میں بھی سما سکتے ہیں۔ خواہ مخواہ بڑا لاکر لے کر‘ اتنی بڑی رقم سکیورٹی کے نام پر پھنسا دی ہے۔ بیگم نے اتفاق کیا۔ دونوں بینک چلے گئے۔ زیورات نکالے اور لاکر واپس کردیا۔
اب یہاں راوی بھول رہا ہے۔ کیا بڑا لاکر واپس کرنے سے پہلے انہوں نے بینک کو بتایا تھا کہ انہیں چھوٹا لاکر چاہیے؟ یا زیورات نکالنے کے بعد چھوٹا لاکر مانگا؟ بہرحال بینک کو پہلے بتایا‘ یا بعد میں‘ بینک نے کہا کہ جس سائز کا لاکر آپ مانگ رہے ہیں‘ وہ دو تین کے بعد دستیاب ہوگا۔ بیگم نے زیورات لیے اور دونوں میاں بیوی گھر چلے گئے۔
اُس رات… یا اس کے بعد آنے والی رات دونوں میاں بیوی سو رہے تھے۔ گھر میں ان کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ بیٹا کراچی میں ملازمت کرتا تھا اور بیٹی لاہور یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔ امتیاز اور اس کی بیگم دونوں کی آنکھ بیک وقت کھلی۔ ایک نقاب پوش ہاتھ میں ریوالور اٹھائے ان کے کمرے کے عین درمیان کھڑا تھا اور دوسرا دروازے میں۔ ایک ریوالور کی نالی امتیاز اور اس کی بیوی کی طرف تھی۔ اس نے ایک ہی سوال پوچھا… ’’زیورات کہاں رکھے ہیں‘‘۔ پوچھنے والے کے لہجے سے امتیاز خان کو معلوم ہوا کہ ڈاکو کی اصل زبان کون سی ہے۔ امتیاز خان کو وہ زبان آتی تھی۔ انہوں نے اس زبان میں گفتگو شروع کردی۔ ڈاکو کا لہجہ قدرے نرم ہو گیا۔ لیکن اس نے صاف کہا… ہم تمہیں اور تمہاری بیوی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ بس زیور ہمارے حوالے کردو۔ بیوی اٹھی۔ زیور سارے کا سارا اس کے سامنے رکھ دیا۔ ڈاکوئوں نے میاں بیوی کو رسیوں سے باندھا۔ وارننگ دی کہ ہمارے جانے کے بعد شور مچایا یا پولیس کو ’’ملوث‘‘ کیا تو انجام اچھا نہ ہوگا۔ جس خاموشی سے دیوار پھلانگ کر‘ گرل اور جالی کاٹ کر آئے تھے‘ اسی طرح رات کے اندھیرے میں چلے گئے۔ نقدی مانگی نہ لیپ ٹاپ کی طرف دیکھا۔ موبائل فون لیے نہ اور کسی شے کی تلاش کی۔
دوسرا واقعہ بھی دارالحکومت ہی کا ہے۔ سیکٹر جی پندرہ‘ ہے تو دارالحکومت ہی کا حصہ لیکن پشاور روڈ کے جنوب میں واقع ہے۔ اب نئے سیکٹر جو بھی اُبھر رہے ہیں‘ وہ جی ٹی روڈ کے جنوب ہی میں تعمیر ہو رہے ہیں۔ ریٹائرڈ اعلیٰ افسر یہاں کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ مجموعی طور پر یہ مڈل کلاس یا اپرمڈل کلاس کی آماجگاہ ہے۔ ملک مزمل یہیں رہتے ہیں۔ ان کے قریبی عزیز کی شادی تھی۔ بیگم نے اس خاص موقع کے لیے لاکر سے زیورات نکلوائے۔ اسی شام شادی کی تقریب میں شرکت کی۔ یہ لوگ واپس گھر پہنچے تو رات بھیگ چکی تھی۔ دوسرے دن بہت دیر سے اٹھے اور یہ طے کیا کہ زیورات کل جا کر لاکر میں واپس رکھ دیں گے۔ اس شام کو اتفاق سے گھر میں کوئی نہ تھا۔ سب اپنے اپنے کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ بڑے گیٹ پر ایک چوکیدار موجود تھا مگر گھر ماشاء اللہ بڑا تھا۔ اگر چوکیدار یہ مؤقف اختیار کرے کہ عقب سے دیوار پھلانگ کر آنے والے کی آواز اُسے نہیں آئی تو یہ مؤقف اتنا غلط بھی نہیں ہو سکتا۔ بہرطور شام ڈھلے مکین واپس آئے تو جس کمرے میں زیورات رکھے تھے‘ وہ تاخت و تاراج ہو چکا تھا۔ الماریوں کے پٹ کھلے تھے۔ ملبوسات فرش پر پڑے تھے یوں کہ سارے میں بکھرے ہوئے تھے۔ وحشت کمرے میں ناچ رہی تھی۔ خاموشی سائیں سائیں اور نحوست بھائیں بھائیں کر رہی تھی۔ لیپ ٹاپ اسی طرح رکھا تھا۔ ہاں۔ زیورات کے ساتھ کچھ نقد رقم پڑی تھی۔ وہ زیورات کے ساتھ ہی اٹھا لی گئی تھی۔
ایک اور واقعہ بھی اسی قبیل کا پیش آ چکا ہے۔ یہ تینوں واقعات گزشتہ تین ہفتوں کے ہیں جو اس لکھنے والے کے علم میں آئے ہیں۔ ہو سکتا ہے واقعات کی تعداد زیادہ ہو‘ اور یقینا زیادہ ہوگی مگر ہر شخص کو انہی واقعات سے آگاہی ہوتی ہے جو اُس کے دائرۂ واقفیت کے اندر رونما ہوئے ہوں‘ دوست احباب مشترک ہوں اور واقع ہونے والے حادثات سے ایک دوسرے کو باخبر کریں۔
یہ واقعات جن لوگوں کے ساتھ پیش آئے ان کے اصل نام اس تحریر میں بدل دیے گئے ہیں۔
ان واقعات میں ایک پیٹرن بنتا ہے۔ دو حقیقتیں مشترک نظر آتی ہیں۔ اوّل۔ زیورات بینکوں کے لاکر سے نکلوائے گئے۔ چوروں اور ڈاکوئوں کا اصل ٹارگٹ زیورات ہی تھے۔ زیورات ہی کے بارے میں پوچھا گیا۔ کسی اور قیمتی شے کو چھیڑا گیا نہ اٹھایا گیا۔ دوم۔ ان تینوں گھروں میں کام کاج اور صفائی کے حوالے سے عورتیں ملازمت پر مامور تھیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ نیٹ ورک پہلے بینکوں سے معلوم کرتا ہے کہ لاکر سے کس نے کوئی چیز نکلوائی۔ اب یہ کامن سینس کی بات ہے کہ بھاری اکثریت لاکروں میں زیورات ہی رکھتی ہے۔ ظاہر ہے گماشتے بینکوں میں موجود ہوں گے۔ نچلی سطح کے ملازمین کو خریدنا یا دھمکانا چنداں مشکل نہیں۔ بینکوں کے کاغذات میں لاکروں کے مالکان کے رہائشی ایڈریس بھی درج ہوتے ہیں۔ پھر اُن گھروں کا سراغ لگایا جاتا ہوگا۔ اندر کی اطلاعات کے لیے ملازم عورتیں‘ ملازم مردوں کی نسبت زیادہ ’’کارآمد‘‘ ہوتی ہیں۔ ملازم مردوں کو خواتینِ خانہ حجاب کرتے ہوئے‘ خوابگاہوں سے دور ہی رکھتی ہیں مگر خادمائیں بلاروک ٹوک خوابگاہوں میں آتی جاتی ہیں۔ انہیں خریدنا مرد ملازموں کی نسبت سہل تر ہوتا ہے۔ ان سے یہ معلوم کیا جاتا ہوگا کہ مکین کس وقت گھر کے اندر موجود ہوتے ہیں‘ کس وقت باہر جاتے ہیں اور یہ بھی کہ خاص خاص الماریاں یا درازیں کون کون سی ہیں اور کہاں کہاں ہیں۔
اس سیاق و سباق میں کچھ اور بھی مسائل ہیں جو زیرِ بحث لائے جانے کے مستحق ہیں۔ مثلاً ملازمین سے‘ خاص طور پر‘ خادمائوں سے چھٹکارا کیوں نہیں پایا جا سکتا؟ ترقی یافتہ ملکوں میں گھر چھوٹے ہیں‘ گھر کے تمام افراد صفائی کا کام خود کرتے ہیں اور نوکروں‘ ملازموں‘ خادمائوں‘ باورچیوں‘ خاکروبوں کی ’’غلامی‘‘ سے آزاد ہیں۔ مگر یہ موضوع پھر کبھی! ابھی تو اس پر غور کیا جانا چاہیے کہ پرانے زمانے کی طرح زیورات پھر کونوں کھدروں میں زیرِ زمین دفن کر دیے جائیں اور لاکروں کی ’’غلامی‘‘ سے بھی نجات حاصل کر لی جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زیورات رکھے ہی نہ جائیں!!
جو کچھ بھی ہے‘ مخصوص قسم کا پیٹرن لیے ہوئے یہ تازہ وارداتیں پہلے سے ادھ موئے شہریوں کے لیے ایک تازہ مصیبت ہیں۔ ایک زمانے میں راولپنڈی کی ادبی محفلوں میں رابعہ نہاں شرکت کیا کرتی تھیں ان کی غزلیں شوق سے سنی جاتی تھیں۔ بھائی ان کے عظیم الوقار فرحان ریڈیو پاکستان میں تھے۔ رابعہ نہاں کا شعر یاد آ رہا ہے ؎
ٹوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاںؔ پر
لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی
ابھی تو جانے کتنی بلائیں اور اتریں گی!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“