کُچھ سال پہلے تک رشتہ دینے کے لئے لڑکی والوں کی طرف سے پہل معیوب سمجھی جاتی تھی لیکن مُجھے داماد بنانے کے لئے پہل سُسر، مرحوم حاجی صاحب کی طرف سے کی گئی۔ شادی کے ابتدائی چند سال میں سُسرال کو اس بات پر قدرے کم تر سمجھتا رہا کہ اُنہوں نے خُود سے مُجھے رشتہ کی آفر دی۔
بیگم صاحبہ تین بھائیوں کی ایک ہی بہن تھیں۔ مرحوم سُسر صاحب ماہانہ ایک بار بیٹی کو ملنے آیا کرتے تھے۔ بس سے اُترنا اور بیٹی کی چاہت میں دیوانے اُس بوڑھے اور بیمار باپ نے من بھر کی گٹھڑی سر پر اُٹھائے نو دس کلو میٹر پیدل چل کر ہمارے گھر پہنچ جانا۔ گھر آ کر گٹھڑی کھولنا۔ موسم کے مُطابق اس میں تازہ سبزی، کھجوریں، فروٹ بندھا ہوتا تھا۔ سب سے پہلے فروٹ نکال کر اپنی بیٹی کو کِھلانا۔ بیٹی کا جھوٹا بہت شوق سے کھاتے تھے ۔ بیگم صاحبہ نے اپنے دانتوں سے آم کُتر کر تھوڑا سا چُوسنا اور باقی کا سُسر صاحب نے لے کر کھا لینا۔ یہی سب کُچھ گوشت ساتھ بھی ہوتا ۔ پہلے آدھی بوٹی بیگم صاحبہ نے کھانی اور باقی کی آدھی سُسر صاحب نے ۔ میں نے یہ سب بہت حیرانگی سے یا کہہ سکتا ہوں کراہت سے دیکھتے رہنا۔
نیک انسان تھے۔ خُدانخواستہ مرحوم سُسر صاحب کی بے احترامی تو کبھی بھی نا کی لیکن سچ یہ ہے کہ مُجھے اُن کی بہت ساری باتوں پر اعتراض ہوتا تھا۔
وقت بدلا تو اللّہ پاک نے مُجھے بھی دو بیٹیاں دے دیں ۔ اب میں نے اندر ہی اندر اپنے آپ کو دو لڑکوں کا سُسر سمجھنا شروع کر کہ مستقبل کے ایک اچھے فادر اِن لاء کے طور اپنے آپ کو سنوارنا شروع کر دیا۔
سُسر صاحب میرے پاس تشریف لاتے تو میں بیگم صاحبہ ساتھ اُن کا رویہ غور سے دیکھتا۔ اُن کی جن باتوں پر پہلے مجھے اعتراض ہوتا تھا اب جب کے میں خود دو بیٹیوں کا باپ بنا تو وہ ہی باتیں مُجھے اچھی لگنے لگ گئیں۔
میری اپنی بیٹیاں بڑی ہوئیں تو اللّہ پاک کا حُکم پورا کرنے خاطر داماد پسند کر کہ رشتے دینے کیلئے پہل میں نے خود کی۔ بِالکل ویسے جیسے سُسر صاحب نے میری بار پہل کی تھی۔
بیٹیوں پاس ماہانہ ایک بار جانے کی روٹین بھی وہی مرحوم حاجی صاحب والی ہے ۔ کار کی پچھلی سیٹ پر ویسے ہی حسبِ توفیق تازہ فروٹ کی گٹھڑی بنا کر بیٹیوں پاس لے جاتا ہوں جیسے سُسر صاحب گَٹھڑی باندھ کر لایا کرتے تھے۔
بیٹیوں پاس پہنچ کر تاڑتا رہتا ہوں کہ بیٹی کے ہاتھ سے اُس کی بَچی جھوٹی چائے چھین کر پیوں ۔ اُن کی نوچی کھسوٹی آدھی کُتری ہوئی بوٹی کھاؤں۔ آدھا آم بیٹیاں چوسیں اور باقی کا آدھا میں چُوس لوں ۔ اللّہ کی امانت تین بیٹے بھی ہیں میرے لیکن میں اُن کا بچا کبھی بھی نہیں کھاتا۔ یہ والی مٹھاس شاید اللُہ پاک نے صرف بیٹیوں کی اَدھ کھائی چیز میں رکھی ہے۔ کیا کروں۔؟ ابھی تک یونہی لگتا جیسے دونوں میری گود میں کھیلنے والی بچیاں ہوں۔
وہ سب کچھ جو اپنی ایک بیٹی کیلئے سُسر صاحب کرتے تھے اور مُجھے اس پر اعتراض ہوتا تھا وہ ہی سب اپنی دو بیٹیوں کیلئے اب میں کرتا ہوں اور مُجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔
جیسا داماد میں خود تھا اچھی طرح ناپ تول کر ہو بہو ویسے ہی داماد اللّہ پاک نے مُجھے دے دیئے ۔ کُچھ پتا ہی نا چلا اور وقت ایسے گُزرا جیسے ہوا کا جھونکا ۔ کل کا داماد آج کا سُسر بن گیا۔
صرف میک ، ماڈل اور ظاہریت کا فرق ہے لیکن اندر سے ماں اور باپ جیسا پیار دل میں سَموئے سارے سُسر ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔