شاہ حسین المعروف مادھو لال حسین ایک صوفی اور پنجابی شاعر تھے جو فقیرِ لاھور سے معروف ھیں۔ شاہ حسین لاھوری 945ھ بمطابق 1539ءمیں ٹکسالی دروازے لاھور میں پیدا ھوئے۔آپ کے والد گرامی کا نام شیخ عثمان تھا جوکہ کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کے دادا کا نام کلجس رائے ھندو تھا۔ جوکہ فیروز شاہ تعلق کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ھوئے تھے لیکن والد حلقہ بگوش اسلام ھوئے۔
شاہ حسین کاخاندانی نام ڈھاڈھا حسین تھا۔ ڈھاڈھا پنجاب کے راجپوتوں کی ایک ذات ھے۔ والد شیخ عثمان بافندگی یعنی کپڑے بننے (جولاھا)کے پیشے سے منسلک تھے۔ چنانچہ آپ محلے میں حسین جولاھا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ آپکی پیدائش کے وقت آپ کے والد شیخ عثمان ٹکسالی دروازے کے باھر راوی کے کنارے آباد ایک محلے میں رھائش پزیر تھے جو تل بگھ کہلاتا تھا۔
شاہ حسین کا زمانہ مغلیہ سلطنت کے مرکزی علاقوں میں احیائے دین کی تحریکوں کا زمانہ تھا۔ جس کا رد عمل قادریہ مسلک کی صورت میں مروجہ صوفیانہ بغاوت کے علمبردار کے حیثیت سے سامنے آیا۔ اس مسلک کی تشکیل میں بھگتی اثرات کے علاوہ ملامتی مکاتبِ فکر نے بھی حصہ لیا تھا اور اس نظام فکر کا اولین اظہار شاہ حسین کی صوفیانہ بغاوت کی صورت میں ھوا۔ انکے گھرانے میں ھندو ثقافتی اور مذھبی اثرات بدستور موجود تھے۔
چنیوٹ کے قادری صوفی شیخ بہلول نے لاھور میں کم سِن شاہ حسین کو دیکھا تو مبہوت رہ گئے۔ آپ مولانا ابوبکر سے قرآن شریف کا ساتواں پارہ حفظ کر رھے تھے۔ حضرت بہلول جب مکتب میں آئے تو حضرت شاہ حسین کی روشن پیشانی اور ذھین آنکھیں دیکھ کر مولانا ابوبکر سے پوچھا کہ اس لڑکے کا کیا نام ھے اوریہ کیا پڑھتا ھے۔ انہوں نے عرض کی کہ اس کا نام شاہ حسین ھے اور ساتواں پارہ حفظ کر رھا ھے۔ انہوں نے شاہ حسین کو اپنے حلقے میں شامل کر لیا اور خصوصی توجہ سے تربیت کرنے لگے۔ شاہ حسین کے شب و روز عبادتوں اور ریاضتوں میں بسر ھونے لگے۔ حضرت بہلول نے انہیں روحانیت سے نوازا۔ تاھم یہ دل لگی اس جہاں گرد کے قدموں کی زنجیر نہ بن سکی۔ شیخ بہلول حدود سے اس حد تک تجاوز کو پسند نہ کرتے تھے مگر شاگرد ”اصلاح “ کے مقامات سے گزر چکا تھا۔ وہ رقص کرتے ' وجد میں رھتے ' دھمال ڈالتے اور لال رنگ کے کپڑے پہنتے۔ اسی بنا پر لال حسین کے نام سے مشہور ھوگئے اور اپنے حال میں مست رھے۔
جب حضرت بہلول کا فریضہ سرانجام ھوا تو شاہ حسین سے وقت رخصت کہا کہ اے حسین! یہاں لاھور میں جناب حضرت عثمان بن علی ھجویری گنج بخش کا مزار پر انوار ھے۔ جب ھم چلے جائیں تو غم نہ کرنا ھم نے تم کو حضرت عثمان بن علی ھجویری گنج بخش کے سپرد کر دیا ھے۔ اب ھمارے بعد ان کے آستانے پر حاضری دینا ' وھی تمہارے رھنما اور راھبر ھونگے اور تمہیں منزل تک پہنچائیں گے۔ شاہ حسین نے عبادت و ریاضت کو زندگی کا اولین مقصد بنا لیا۔ بارہ سال متواتر حضرت عثمان بن علی ھجویری گنج بخش کے مزار پر حاضری دیتے رھے۔ شاہ حسین کو یہ انفرادیت حاصل ھے کہ ان کے مرشد کامل خود چل کر ان کے شہر میں آئے۔ ان کو راہ ھدایت دکھائی۔ اس وقت آپ کی عمر چھتیس برس تھی۔
اس دوران شیخ سعد اللہ نامی ایک ملامتی درویش لاھور آ نکلا۔ اس نے زمانے کی نرمی گرمی کا ذائقہ چکھا تھا۔ جہاندیدہ تھا ' باغی تھا ' خودسر تھا ' بے نیاز و بے پرواہ تھا۔ گویا کہ کامل ملامتی تھا۔ شاہ حسین بھی اپنے خاندانی پس منظر ' طبقاتی صورت حال اور شیخ بہلول کے اثرات کی بنا پر بغاوت کی جانب مائل تھے۔ بغاوت کو مجسم دیکھا تو گرویدہ ھوگئے۔ حقیقت اعلیٰ کا علم عطا کرنے کی التجا کی۔ تصوف کے رموز جاننا چاھے۔ ملامتی بزرگ بھی مردم شناس تھا۔ زمین زرخیز دیکھی تو بیج ڈالنے کو بے تاب ھوگیا۔ تفسیر مدارک اٹھائی اور درس دینے لگا۔'' و ماالحیوٰة الدنیاالالہو ولعب'' تک بات پہنچی تو کرامت کا ظہور ھوا اور پتھر ھیرا بن گیا۔ اس لمحے شاہ حسین نے نیا جنم لیا۔ پرانے سانچے ٹوٹے۔ نیا انسان پیدا ھوا۔ اس نے منادی کی کہ دنیا کھیل تماشہ ھے۔ برتری اور سنجیدگی کے قدیم معیار لایعنی ھیں۔ نصب العین فریب ھیں۔ زندگی لمحاتی ھے۔
آپ ناچتے کودتے مسجد سے باھر نکلے اور تفسیر مدارک کی کتاب مدرسہ کے باھر واقع کنویں میں پھینک دی۔ شرع و ظاھرکو خیر باد کہا۔ رقص کناں خدا کے گھر سے نکلے کہ دنیا کے کھیل تماشے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آپ کے ساتھی طالب علم اس بات پر بہت ناراض ھوئے اور انہوں نے لعن طعن کی۔ آپ نے فرمایا کہ میں اب اس کتاب سے گزرا ' اگر تم لوگوں کو مطلوب ھے تو لو۔ یہ کہتے ھی پانی کی طرف مخاطب ھوکر حکم دیا ''اے پانی ھمارے دوست کتاب کے پھینکنے پر خفا ھوگئے ھیں ' ھماری کتاب واپس دے دے۔'' قدرتِ الٰہی دیکھئے کہ کتاب کنوئیں سے خود ھی باھر آ گئی اور اس کے اوراق بھی خشک تھے۔ آپ کے ساتھی یہ کرامت دیکھ کر بہت حیران ھوئے اور تمام شہر میں اس کا چرچا ھوا۔ اس روز سے آپ نے طریقہ ملامتیہ اختیار کیا۔ دارا شکوہ نے شاہ حسین کو ''ملامیتوں کے گروہ کا سردار'' لکھا ھے۔
شاہ حسین تصوف کے فرقہ ملامتیہ سے تعلق رکھنے والے صاحب کرامت صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ وہ اُس عہد کے نمائندہ ھیں جب شہنشاہ اکبر مسند اقتدار پر متمکن تھا۔ شاہ حسین پنجابی زبان و ادب میں کافی کی صنف کے موجد ھیں۔ وہ پنجابی کے اولین شاعر تھے جنہوں نے ھجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لئے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔ شاہ حسین نے بے مثل پنجابی شاعری کی۔ اُنکی شاعری میں عشق حقیقی کا اظہار ھوتا ھے۔
اپنی زندگی کے ایک حصے میں شاہ حسین کی مادھو سے ملاقات ھوئی۔ مادھو ایک برھمن زادے تھے۔ برھمن زادے نے ان کی خود اعتمادی ' خود پر ستی اور حق شناسی کے آئینے کو ایک ھی نظر میں چور چور کر دیا۔ شاہ حسین اس کے پیچھے ھولیے۔ پھر تو شاہ حسین کا یہ معمول ھوا کہ شب کو اس کے گھر کے گرد طواف کیا کرتے اور جان بوجھ کر وہ کافر بچہ آپ کی طرف متوجہ نہ ھوتا تھا اور وقت طواف جو جو باتیں وہ مخفی اپنی زوجہ سے کیا کرتا ' شاہ حسین علی الاعلان وہ باتیں باھر بیان کرتے۔'' الغرض اسی طرح سولہ برس گزر گئے کہ حضرت اس کے عشق میں بدنام اور زبان زد خاص و عام ھوگئے اور بے قراری کا یہ حال تھا کہ آپ صرف بتصوّر اس کے مدام بے خود و بے خواب رھا کرتے تھے۔
کئی برس اسی تعلق میں گزار دیے۔ بالآخر شاہ حسین کا معرکہ عشق کی کامیابی پر ختم ھوا اور مادھو نے اپنا دین ' ایمان دوست پر نچھاور کر دیا اور زندگی ان کی دلجوئی کے لئے وقف کر دی۔ ان دو افراد کا تعلق اتنا گہرا ھوگیا کہ عوام شاہ حسین کو مادھو لال حسین کے نام سے جاننے لگے۔ شاہ حسین بدستور اپنے طرز معمولات پر قائم مست الست گلیوں اور بازاروں میں پھرتے رھے۔ ان کا معمول تھا کہ مست الست ھوکر اکثر چنگ ورباب کی صدا پر رقصاں رھا کرتے تھے مگر یہ امور محض واسطے اخفائے حال اپنے کے فرماتے تھے۔ شاہ حسین رات پچھلے پہر ھر شب کو ختم قرآن کیا کرتے۔
قاضی محمد زمان خان عباسی نے شاہ حسین اور مادھو کے حوالے سے کچھ مختلف بات کی ھے۔ مادھو شاھدرہ کا ایک برھمن زادہ تھا جو بقول تحقیقات چشتی 982ھ میں پیدا ھوا۔ اس وقت شاہ حسین کی عمر 38 سال تھی۔ بقول مصنف تحقیقات چشتی مادھو کی عمر تین برس کی تھی کہ جب وہ شاہ حسین کے منظور نظر ھوئے۔
''نقوش'' لاھور نمبر میں لکھا ھے کہ'' اس بات کا امکان بہت مشکل ھے کہ مادھو تین سال ھی کی عمر میں جب کہ وہ اپنی ماں کی گود میں تھا اور لاھور سے دور رھتا تھا ' شاہ حسین کو فریفتہ کر لیا ھو۔ بہرحال اس زمانے میں شاہ حسین قلندرانہ وضع اختیار کر چکے تھے اور ملامتیہ طریقہ رکھتے تھے۔ تاھم شاہ حسین برھمن زادے کا نام و نسب دریافت کر کے خود ھی شاہدرہ جا پہنچے۔
شاہ حسین اور مادھو لال حسین دونوں یک جان ھو گئے لیکن قربت کا یہ گہرا تعلق جو ان کے درمیان پیدا ھوا ' انکی زندگی ھی میں بہت سی بدگمانیوں اور اختلافات کا باعث بن گیا۔ ھندوستانی تصوف کے ماھر جان سبحان لکھتے ھیں کہ ایک ھندو لڑکے اور مسلمان فقیر کا یہ انتہائی قریبی تعلق ان کے معاصرین کے نزدیک "قابل شرم" ھونے کی وجہ سے "قابل اعتراض کردار" کا مظہر تھا۔ جبکہ جان سبحان ان دو افراد کی درمیان تعلق کی اس "ناقابل صبر کشش" کو "عشق" قرار دیتے ھیں۔ اسی طرح پنجابی تاریخ دان شفیع عاقل مادھو اور شاہ حسین کے اس تعلق کو "لا محدود محبت" کہتے ھیں اور اس تعلق کو بیان کرنےکے لیے زبان و بیان کے وھی پیرائے اختیار کرتے ھیں جو عام طور پر مرد اور عورت کے تعلق کو بیان کرنےکے لیے اختیار کیے جاتے ھیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ھیں کہ "مادھو سے شاہ حسین کو پیار تھا اور خود مادھو بھی ان کو چاھتے تھے"۔ وہ یہاں تک لکھتے ھیں کہ "شاہ حسین مادھو سے کسی صورت جدا ھونے کے لیے آمادہ نہ تھے۔"
لاھور میں مخدوم الملک قاضی ا لقضاة تھے۔ اس نے ارادہ کیا کہ شاہ حسین کو تعزیر کرے۔ ایک دن شاہ حسین نے اس کے گھوڑے کو پکڑ کر کھڑا کر لیا اور کہا کہ قاضی صاحب ارکان اسلام کتنے ھیں؟ اس نے کہا کہ پانچ۔ یعنی توحید ' حج ' زکوٰة ' نماز ' روزہ۔ آپ نے فرمایا کہ توحید خدائے تعالیٰ عزاسمہ جو ھے ' اس میں تو اور ھم دونوں شریک ھیں بلکہ خدا کی وحدانیت پر تمام مخلوق قائل ھے اور دوسرے حج اور زکوٰة سو ان دونوں کو تم نے ترک کیا اور بقیہ جو دو یعنی نماز روزہ تھے ' ان کو میں نے ترک کیا۔ پس اس کا کیا باعث ھے کہ دو ارکان اسلام کے ترک میں حسین لائق تعزیر ھو اور آپ محفوظ رھیں۔ یہ سن کر قاضی خاموش ھوئے اور اس کے دل پر کچھ ایسی تاثیر ھوئی کہ اس کے بعد کبھی بھی وہ شاہ حسین کے لیے باعث تکلیف نہ بنا۔
ایک دن اکبر بادشاہ کے حکم کے مطابق دُلّا بھٹی کو گرفتار کرکے لاھور لایا گیا۔ حکم شاھی تھا کہ دُلّا بھٹی کو بمقام ''نخاس'' پھانسی دیویں۔ دُلّا بھٹی نے شہنشاہ اکبر کے خلاف بغاوت کی ھوئی تھی۔ ملک علی کوتوال دُلّا بھٹی کو پھانسی دینے کے واسطے آیا ھوا تھا۔ شاہ حسین بھی وھاں آ پہنچے اور دُلّا بھٹی کو دیکھنے لگے۔ لوگ شاہ حسین کے اردو گرد جمع ھوئے تو شاہ حسین نے لوگوں سے کہا کہ "دُلّا بھٹی پنجاب کا غیرت مند بیٹا ھے۔ پنجاب کا کوئی غیرت مند بیٹا کبھی پنجاب کی سرزمین کو فروخت نہیں کرے گا" اور شعر کہا کہ " کہے حسین فقیر سائیں دا – تخت نہ ملدے منگے۔" لوگوں نے کوتوال کو خبر دی کہ شاہ حسین کیا کہہ رھے ھیں۔ کوتوال ملک علی نے اسی وقت آپ کو گرفتار کیا۔ بحکم ملک علی شاہ حسین کے پائوں میں زنجیر ڈالی گئی۔ قدرت الٰہی سے وہ زنجیر اسی وقت ٹوٹ گئی۔ پھر پہنائی پھر ٹوٹ گئی۔ وہ حیران ھوا۔ شاہ حسین نے اس سے کہا کہ مجھ کو چھوڑ دے۔ اس نے کہا کہ تو جادوگر ھے۔ میں تجھے اب ایسی میخ ماروں گا کہ جاں بر نہ ھوگا۔ شاہ حسین نے کہا کہ؛اس سے پہلے کہ تم مجھے میخ مارو ' تم کو میخ لگے گی۔
اسی اثنا میں فرمان اکبر بنام ملک علی پہنچا کہ دُلّا بھٹی کو پھانسی جلد تر دے اور دار کھینچے جانے کے وقت دُلّا بھٹی جو گفتگو کرے ' ھم کو اس کی رپورٹ کرو۔ ملک علی نے اسی وقت دُلّا بھٹی کو دار پر چڑھایا اور دُلّا بھٹی نے بوقت دار اکبر کو ھزارھا گالیاں دیں۔ پھانسی دینے کے بعد ملک علی کوتوال نے عرضی بحضور اکبر بدیں مضمون لکھی کہ بوقت دار دلابھٹی نے فلاں فلاں گالیاں آپ کو دیں اور تمام حال حضرت شاہ حسین کا بھی لکھا کہ اس طرح اتنی دفعہ زنجیر اس کے پائوں سے ٹوٹ گئی تھی۔ جب وہ عرضی اکبر نے سنی تو کہنے لگا اس پاجی ملک علی نے کچھ خیالِ ادب نہ کیا اور تفصیل وار گالیاں درج عریضہ کردیں۔ اسی وقت حکم دیا کہ ملک علی کے سفر میں میخ ٹھونکیں اور اس سے اس کو ماریں۔ الغرض وہ اسی طرح سے مارا گیا اور تمام شہر میں شاہ حسین کی یہ کرامت مشہور ھوئی اور تابہ اکبر پہنچی۔ وہ سن کر حیران ھوا۔''
شاہ حسین پنجاب کے ان سرکردہ صوفیاء میں سے ھیں جنہوں نے پنجاب میں خدا کی وحدانیت کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ پنجاب کے چند صوفی دانشوروں کی طرح حسینی فکر بھی عقل کی جگہ حس پر زیادہ توجہ دیتی تھی۔ شاہ حسین نے شاعری کو وسیلہ اظہار بنایا اور موسیقی آمیز شاعری کے ذریعے اپنے افکار و نظریہ کو خاص و عام میں فروغ دینے کی کوشش کی۔ شاہ حسین ' صاحب حال صوفی تھے ان پر جو کیفیات گزرتیں ' سادہ زبان میں بیان کر دیتے۔ قوتِ مشاہدہ کی بدولت ان کی شاعری کے سادہ الفاظ میں گہرے معنی پائے جانے لگے اور ان کی کافیوں میں استعمال کیے گئے عام الفاظ علامتوں کا روپ دھارنے لگے۔ صوفیانہ اظہار کی یہ صورت بعد ازاں پنجاب کی شاعری میں ایک صنف بن گئی اور عشقِ حقیقی میں ڈوبے ایک درویش صفت اور مست الست انسان کی آواز خطہ پنجاب سے نکل کر دیکھتے دیکھتے پاک و ھند میں پھیلنے لگی۔
شاہ حسین کی روز مرہ زندگی ملامتی زندگی میں رچی ھوئی تھی۔ انکے مطابق طالب اور مطلوب کے درمیان رابطے کے لئے کسی تیسری ذات کی موجودگی اور اس کا فعال تعاون ' بے حد ضروری ھے۔ تاریخ دانوں نے لکھا ھے کہ مغلیہ حاکموں کی بہت سی بیگمات اور شہزادیاں شاہ حسین کو اپنا بزرگ مانتی تھیں مگر شاہ حسین شاھی خانوادے کے اِس التفات سے بے نیاز تھے اور اپنے ڈھنگ کی زندگی بسر کرتے تھے۔
یہ اُس عہد کی داستان ھے جب ایک طرف اکبر زمینوں کا بادشاہ تھا تو دوسری طرف سخن کی سلطنت پر شاہ حسین کی حکمرانی تھی۔ تان سین اکبر کا درباری گویا تھا تو شاہ حسین نے راگ پر کمال حاصل کیا اور اسے دربار سے نکال کے پہلی بار پنجابی کافی کی صورت میں عام لوگوں کی چیز بنا دیا۔ یہی کافیاں وہ لاھور کے گلی کوچوں میں گاتے اور لوگوں کے دلوں میں اللہ کی بڑائی اجاگر کرتے رھے۔
ادب کے میدان میں اکبر اعظم کا دور بڑے بڑے نابغوں کے لیے مشہور ھے۔ چنانچہ شاہ حسین کے ھمعصر ایک طرف فیضی ' نظیری ' عرفی اور خان خاناں تھے تو دوسری طرف اغلباً داستان ھیر رانجھا کے پہلے پنجابی شاعر دمودر بھی تھے۔ ھندی اور بھگتی ادب میں بھی محرم نام لیے جا سکتے ھیں۔ لیکن ذھن نشین کر لینے کی بات یہ ھے کہ شاہ حسین نے مرکزِ حکومت سے دور رہ کر بھی ادب کے میدان میں اپنا ممتاز مقام پیدا کر لیا۔ چنانچہ مختصراً یہاں ان کی اوّلیات درج کی جاتی ھیں:
٭ پنجابی میں وہ کافی کی صنف کے موجد تھے۔
٭ پنجابی کے وہ پہلے شاعر تھے جنہوں نے ھجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لیے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔
٭ سب سے پہلے داستان ھیر رانجھا کو بطور عشق حقیقی کی تمثیل اپنے شعری کلام میں سمویا۔
٭ اپنے پیشے بافندگی کے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء و آلات کو مثلاً چرخہ ' سوت ' تانا ' بانا وغیرہ کو صوفیانہ اور روحانی معنی پہنائے۔ ان کے بعد یہ پنجابی کا ایک جزولاینفک بن گئے۔ ٭ پنجابی کو ایسے مصرعے ' تشبیہات اور موضوعات دیے کہ ان کے بعد آنے والوں نے یا تو ان کو اپنی طرف منسوب کر لیا یا ان پر طبع آزمائی کی۔ مثلاً رانجھا رانجھا کردی نی۔ میں آپے رانجھا ھوئی۔
لاھور میں برس ھابرس تک درو یشانہ رقص و سرود کی محفلیں آباد کرنے کے بعد یہ درویش 1599ء میں اللہ کو پیارا ھوگئے۔ ان کی قبر اور مزار لاھور کے شالیمار باغ کے قریب باغبانپورہ میں واقع ھے۔ ھر سال میلہ چراغاں کے موقع پر ان کا عرس منایا جاتا ھے۔ مادھو انکے بعد اڑتالیس سال بعد تک زندہ رھے اور انہیں شاہ حسین کے برابر میں ایک مقبرے میں دفنایا گیا۔ یہ مزار آج تک عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد کا مرجع ھے کہ یہاں جدا نہ ھو سکنے والے دو ایسے عاشقوں کی قبریں ھیں جو مرنے کے بعد بھی اسی طرح ایک ھیں ' جیسے زندگی میں تھے۔