مجھے خوشی ھے کہ آپ نے ماضی کے جھروکے سے ایک تاریخی شھر کی جھلک دیکھی تو پسندیدگی کی سند عطا کی لیکن یہ اطمینان زیادہ اھم ھے کہ میری رپورٹنگ میں خامی یا غلطی کی نشاندھی انھوں نے بھی نھیں کی جو جدی پشتی ؎ رھنے والے تھے اسی اجڑے دیار کے۔۔ اسے میں اج بھی اجاڑ نھیں کہہ سکتا کیونکہ یہ پھلے سے زیادہ آباد ھے۔۔بس سیاسی حالات کے جبر نے اس کے روایتی حسن کو ناقابل شناخت حد تک بدل ڈالا ھے۔۔لاکھوں افغان جو 'پاوندے' کھلاتے تھے پھلے بھی موسم سرما کی سختی سے بچنے کیلۓاپنے خاندانوں اور مال مویشی کے ساتھ یھاں آجاتے تھے اور پٹھان اپنے روایتی جذبہ مھمان داری کے ساتھ ان کی میزبانی کرتے تھے۔ اب وہ کیؑ گنا تعداد میں ان پر مسلط کی جانے والی جنگ کی تباہ کاری سے بھاگ کر اس شھر میں آباد ھو گۓ ھیں تو صرف روایات ھی نھیں کچھ بھی وہ نھیں رھا کہ جو تھا،پشاور کی میٹھی بولی ھندکو اب کھیں سنایٰ نھیں دیتی۔دھشت گردی کے اندیشوں نے سکون کی فضا کو مسموم کر دیا ھے۔ ایک صدی سے زیادہ کے تعلیمی احساس تفاخر پر سوالیہ نشان لگا دیا ھے۔صدر کے کیپٹل اور لینسڈاون سینیما۔۔کیفے علیگ اور ڈینز ھوٹل باقی نھیں رھے۔ثقافتی سرگرمیاں ماند پڑ گیؑ ھیں حالانکہ یھاں مال پر اباسین آرٹس کونسل تب بھی موجود تھی مسرت شاھین اور بدر منیر جیسے عظیم اور قومی سطح پر مقبول فنکاروں کیلۓ ان کی اپنی زمین تنگ ھو گیؑ اسٹیج فنکاروں کا جینا مشکل کر دیا گیا موسیقی جو پختون تہزیب کا حصہ تھی اجنبی بنا دی گیؑ حالانکہ رباب اور سارندے کے سر میں نے خیبر ایجنسی کی فضاوں میں بھی سنے ۔ 1956 سے 58 تک میں ریڈیو پاکستان میں ڈرامے لکھتا تھا تو قاضی سرور ریجنل ڈایریکٹر تھے اور احمد فراز ایک پروڈیوسر۔اس وقت ان کا ایک مجموعہ کلام "تنہا تنہا" منظر عام پر آچکا تھا۔ایک خاتوں پروڈیوسر رعنا شیروانی اکثر ان کے ساتھ نظر آتی تھیں۔یاد رھے کہ قیام پاکستان کے وقت ملک میں دو ھی ریڈیو اسٹیشن تھے۔لاھور اور پشاور۔۔اس وقت کی سب سے مقبول سنگر بادشاہ زرین جان تھی جو مبینہ طور پر کسی قبایلی سردار کی بیوی تھی۔ایک دن اسٹوڈیو پہنچا تو عجیب دھشت ناک منظر دیکھا۔لاونج میں 4 عمامہ پوش داڑھی مونچھ والے طویل قامت افراد تھری ناٹ تھری رایفلیں ٹانگوں میں دباۓ صوفوں پر براجمان تھے۔جسم کے اندر کا پانی پسینے کے علاوہ بھی خارج ھوتے ھوتے رہ گیا۔احمد فراز نے بتایا کہ بادشاہ زرین جان کے باڈی گارڈ ھیں۔جو مسلح اندر آنے کا اجازت نامہ رکھتے ھیں۔ایک با پردہ تانگے میں وہ سفر کرتی ھے دوسرے میں یہ محافظ۔۔ اسٹوڈیو کے اندر بھی بادشاہ زرین جان کا پردہ برقرار رھتا ھے۔سازندے دوسرے اسٹوڈیو سے سنگت کرتے ھیں۔۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت نہ معاشرے نے اور نہ اس عورت کے غیرت مند شوھر نے ایسا سمجھا کہ وہ گاتی ھے تو کویؑ گناہ کرتی ھے۔نہ بازار میں عورت کا باہردہ یا بے پردہ نظر آنا معیوب کھا گیا۔ حقیقت یہ ھے کہ پشاور کیلۓ میں اور میرے لۓ پشاور قابل شناخت نھیں رھے۔ اب تو نو میل دور وہ ناصرپور کے باغات بھی نھیں جھاں سے میں 5 سیر آلو بخارے کے کریٹ کو ساییکل کے کیریر پر باندھ کے لاتا تھا اور صرف ایک روپیہ دو آنے مٰیں۔ پشاور کا "پکا وٹا" سیر بھی سواسیر کا تھا۔۔اسے بھی آپ سچ مان لیں کہ ہ آلو بخارا کینو کے برابر ھوتا تھا اور شھد جیسا شیریں۔۔وہ ذایقہ کھیں نہ ھے نہ ھوگا
۔ایک آخری بات۔۔صدر میں "دارالادب" پبلشرز کے سامنے پنیر کے لاجواب پکوڑے ملتے تھے۔میں چالیس سال بعد اپنی بیوی کے ساتھ گیا کہ وہ بھی چکھ لے مگر دیر ھو گٰیؑ تھی ۔پکوڑے ختم ھو گۓ تھے۔میں مایوس ھوکے چلنے کو تھا کہ بوڑھے مالک نے روک کے مجھے غور سے دیکھا اور بولا "بہت دن بعد آیۓ
میں رک گیا۔۔"ھاں۔بہت سالوں بعد۔۔"
وہ مجھے دیکھتا رھا :اپ کے ساتھ دو دوست ھوتے تھے"اس نے سڑک کی دوسری طرف'دارالادب' ک بند دکان کی طرف اشارہ کیا"ارشاد صاحب ایک تھے۔۔انتقال ھو گیا۔۔اچھے ادمی تھے"
میرے دل کو جیسے دکھ کے عفریت نے اپنے پنجے میں دبالیا"تم نے کیسے پہچانا آخر مجھے؟ 40 سال بعد۔۔"
اس نے کھا"آپ ٹھرو۔۔ میں کچھ کرتا ھوں۔۔بھابی تو پہلی بار آیؑ ھے"
اور آدھے گھنٹے بعد ھم گرما گرم پکوڑے کھا رھے تھے تو میں نے آنسو روک رکھے تھے۔۔ جو اس وقت یہ آپ بیتی سناتے ھوۓ بھی آنکھوں میں آرھے ھیں ۔۔ مجھے ماجد یاد آرھا تھا جو پایلٹ کی ٹریننگ تقریبا" مکمل کرچکا تھا۔ایک تربیتی پرواز کے دوران اس نے چھت پر کھڑی منگیتر کو سلیوٹ دینے کے لۓ غوطہ مارا تو جھاز پھر نہ اٹھا
۔۔آپ کا کیا خیال ھے اس 70 سالہ بوڑھے پٹھان میزبان نے مجھ سے پیسے لۓؑ ھونگے؟
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/968847473197271