اپنے حال پر ایک شعر یاد آتا ہے
وقت پیری شباب کی باتیں ۔۔۔ ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
آج یہ خواب کی بات ہی لگتی ہو کہ میں ہزاروں شہریوں کے ساتھ سرکلر ریلوے کے براۓ نام ٹکٹ پر ملیر سے کراچی سٹی اور لالوکھیت 10 نمبر کے اسٹیشن تک سفر کرتا تھا وقت کی پابندی کے ساتھ چلنے والی اس ٹرین کا ماہانہ پاس مزید سستا تھا جو ملیر سے صدر کینٹ یونیورسٹی گلشن ناظم آباد پاپوش گلباٰیؑ پورے شہر کا چکر لگاتی تھی اور اس کے باقاعدہ اسٹیشن اور پلیٹ فارم تھے ۔یہ منصوبہ بھی تھا کہ تمام مسافر ٹرینوں کوگلشن میں "کراچی سنٹرل" سے چلایا جاۓ جو راشد منہاس روڈ سے کینٹ پہینچ کر میں لاین پر آجاییں اور سٹی اسٹیشن صرف مال گاڑیوں کیلۓ مخصوص ہو۔اب سوچۓ کہ یہ عوامی نقطہؑ نظر سے کتنا اچھا تھا کیونکہ تمام نؑیؑ رہایشی آبادیون کیلۓ بھی یہ مرکز تھا اور سوسایٹی سے صدر یا شہرجانے والوں کیلۓ بھی ۔آج یہاں ناجایذ قابضین آباد ہیں جیسے سرکلر ریلوے کے راستے اور ہر اسٹیشن پر۔۔ بالکل اسی طرح تاریخی "محمدی ٹراموے کمپنی" کا نام و نشان مٹایا گیا جو ایک پٹری پر صدر سے ٹاور۔۔صدر سے کینٹ اسٹیشن اور صدر سے سولجر بازار جاتی تھی۔ ٹکٹ تھا ایک آنہ یعنی آج کے 6 پیسے۔ٹرام دنیا بھر میں آج بھی چلتی ہے۔بجاۓ نیی ٹرام چلانے کے پٹری ہی اکھاڑ پھینکی گیؑ اور "گل پلازا "کے سامنے بندر روڈ پر اس کا ڈپو زمیں بوس کر دیا گیا ۔
۔۔ایسا ہی حشر دو منزلہ بسوں کا کیا گیا حالانکہ وہ لندن جیسے شہر میں آج بھی رواں دواں ہیں یہ ۔ف صدی کی بات ہے کہ شہر کی ہر سڑک پر وقت کی پابندی کے ساتھ بس چلتی تھی مثلا" پیر کالونی سے ٹاور 8 نمبر تھی ۔اے۔۔بی۔۔ سی۔۔اور ڈی مختلف راستوں سے گھوم کے ٹاور پہنچتی تھیں۔کنڈکٹر وردی پہنتے تھے ٹکٹ دیتے تھے اور بس صرف اسٹاپ پر رکتی تھی۔50 سال میں یہ نظام بہتر اور جدید ترین بن جاتا مگر ذاتی منافع خوروں نے عوام کو ٹرانسپورٹ مافیا کے حوالے کر دیا۔آج شہر میں ٹرانسپورٹ ایسا مسلؑہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہوگۓ ہیں اورمنٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے نہ ٹریفک سگنل ہیں اور پولیس ہے تو اپنے بھتے لینے اور شہریوں کو پریشان کرکے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف۔اھم بازاروں فٹ پاتھ اور سڑکوں کا آدھا حصہ ریڑھے والوں اور پتھاریداروں کے قبضے میں ہے جو پولیس کی سرپرستی میں بدمعاش بن گۓ ہیں۔ٹھیکے بازی کے چکر میں تمام سڑکیں بنتی ہیں اور چند ماہ میں ٹوٹ پھوٹ کے کھنڈر ہوجاتی ہیں۔ان پر عام شھری کی گاڑی کیسے ٹھیک رہ سکتی ہے لیکن ٹھیکے دار کو 75 فیصد رشوت خوروں کو دینے ہوں تووہ باقی 25 فیصد میں تھوک لگا کے سڑک بناۓ گا تارکول بچھا کے نہیں
گزشتہ دو سالوں میں کراچی جا کے میں نے اس علاقے میں قیام کیا جو نارتھ ناظم آباد کہلاتا ہے۔اس پر جو خوبصورت جگمگاتے ایر کنڈیشنڈ شادی ہال بنے ہیں ان کا کرایہ 8 لاکھ تک ہے مگر ان کے سامنے کی سڑک کھدی پڑی ہے اور گٹر کھلے ہوۓ ہیں ۔کسی کا شادی میں شرکت کیلۓ گاڑی پارک کرنے کی جگہ تلاش کرنا ایک ؑعذاب ہے ۔پھر اسی سڑک پر انٹرنیشنل برانڈ کے فاسٹ فود سنٹرز کی لاین ہے مگر ان کے سامنے بھی وہی ٹوٹی پھوٹی تنگ سڑک ہے لیکن اس شہر کی فراواں مخلوق ہے کہ ہر آزمایش سے گزر کے ہر جگہ پہنچ جاتی ہے، پروین شاکرنے ٹھیک کہا تھا
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آو
مرے گھر کے راستے میں کویؑ کہکشاں نہیں ہے
اس تمام عرصے میں سڑکوں اور گلیوں سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا نظام بھی ختم ہوا چنانچہ متمول آبادیوں میں بھی ہر جگہ کوڑے کے ڈھیر ہیں اور تعفن ھے۔۔پھر ہر جگہ 20 سے 25 منزلہ فلیٹوں کی عمارات بنتی دیکھ کر خیال ضرور آتا ھے کہ جب یہ آباد ہونگی تو اس کے رہایشی آنا جانا کیسے کریں گے؟ گاڑی چلانا کیا وہ اگر پیدل بھی جاییں گے تو اس سڑک پر کیسا ازدھام ہوگا۔۔انھیں بجلی پانی کیسے ملے گا ۔لیکن آج اپنی جیبیں بھرنے والے کل کی فکر کیوں کریں۔۔اندھیر نگری چوپٹ راج۔۔اس شہر میں نہ منتظم ہیں نہ حکمراں۔۔سڑکوں پر جرایم پیشہ ہیں او لٹیرے ہیں۔شہر کے 6 ڈسٹرکٹ ہیں،،سب کی انتظامیہ یکساں غیر موجود۔۔شہر واضح طور پر امیروں غریبوں میں تقسیم ہو چکا۔دولت مند طبقے کا شہر الگ ہے اور وہ ہر سہولت ہر قیمت پر خرید لیتے ہیں دوسرے کا اللہ نگہبان ہے۔ مرے یا مر مرکے جۓ۔
۔لیکن شاید اگلی نسل مرنے کی بجاۓ مارنے پر اتر آۓ جس نے اسٹریٹ کرایمز اور ٹارگٹ کلنگ کے پر آسیب ؐماحول میں پرورش پایؑ ہے ایسی کس مپرسی میں مرنے سے پہلے مارنے پر تل جاۓ،میں دیکھتا ہوں کہ اس صورت حال نے شہر کے مزاج کو کیسے متاثر کیا ہے۔لوگ بد خو اور بد مزاج ہور ہۓ ہیں، بے وجہ بھی لڑتے ہیں خوش اخلاقی مفقود ہوتی دکھایؑ دیتی ہے اجنبی کیلۓ۔مسکرانا بھولتے جارہے ہیں، شکریہ ادا کرنے کی خو نہیں اپنا رہے۔ آپ چاہیں تو مجھے پرانے وقتوں کا قنوطی قرار دے سکتے ہیں کہ روشن پہلو نہیں دیکھتا مگر وہ روشنی ہے کہاں۔۔ ڈیفنس کلفٹن کۓ دی اے اسکیم یا بحریہ ٹاون کے خواب میں
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1058706044211413