میری کوشش ہہی ہے کہ اپنے مشاہدات کو معروضی اور غیر متنازعہ رکھوں۔خصوصا" کراچی کے معاملے میں جہاں لسانی فرقہ وارانہ اور تہزیبی اؒختلافات میں معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہرکوشش کو سیاسی ضرورت کی خاطر ناکام کیا جاتا ہے۔۔ یہ گروہی سیاست وہی کرتے ہیں جن کے معاشی مفادات بد نظمی اور انشار سے وابستہ ہون۔۔کویؑ بھی شہر خطرناک قرار پاتا ہے جب اس میں رہنے والوں کی جان ومال۔عزت و آبرو کچھ محفوظ نہ ہو۔یہ احساس پیدا کیا جاتا ہے اور یہ کام مافیا کے منظم اور مسلح۔ جرایم پشہ افراد بر سر اقتدار طبقے کی سر پرستی میں کرتے ہیں۔ایسا ہی ایک شہر ریو ڈی جنیرو ہے جہاں کراچی کی طرح عوام کی اکثریت کو کسی نہ کسی مافیا نے یرغمال بنا رکھا ہے۔۔جرایم سے دنیا کا کویؑ شہر محفوظ نہیں لیکن کراچی کے باسیوں کی بے بسی یہ ہے کہ زندگی کی ہر سہولت کو بہتر بنانے کے ذمے داروں نے اپنے خزانے بھرنے کیلۓ یہ سہولت کسی مافیا کو فروخت کردی ہے مثال کے طور پر پانی کی کمی نہیں لیکن پانی کی فراہمی کے ذمے داروں نے مصنوعی قلت پیدا کرکے پانی کی تقسیم کا نظام ٹھیکے پر ٹینکر مافیا کو دے دیا ہے۔اب ٹھیکے دار کی مرضی کہ وہ پانی کی طلب میں خوار شہر کی فراواں مخلوق سے ہر قطرہؑ آب کی کیا قیمت وصول کرتی ہے،
اسی طرح ٹرانسپورٹ مافیا نے شہر سے عوامی سہولت کا ہر ذریعہ ختم کیا جس میں ٹرام سرکلر ریلوے اور لوکل ٹریں شامل تھی،اس کی پٹریاں تک اکھاڑ پھینکی گییںؑ اور اسٹیشن ختم ہوگۓ ان پر ناجایز تعمیرات کرنے والی مافیا نے قبضہ کیا اور شہر میں وہ بسیں رہ گییں جو انگریز بھی کباڑ سمجھ کے چھوڑ گۓ ہونگے۔یہ ٹوٹے پھوٹے کھڑ کھڑ کرتے دھواں چھوڑتے ڈبے تھے جن کی چھت پراور کھڑکیوں اور دروازوں سے مکھیوں کی طرح چمٹے مسافر دھوپ بارش میں جان ہتھیلی پر رکھ کے سفر کرتے تھے پھر ان کی جگہ عالمی شہرت اختیار کر لینے والی "دڈبلیو گیارۃ" جیسی اس میں ذرا مبالغہ نہیں کہ بسوں نیں بیٹھ کے میں نے فرش کر سوراخوں سے مخالف سمت میں بھاگتی سڑک کا نظارہ بھی کیا ہے۔بغیر شیشوں والی کھڑکیوں سے اندر آنے والی بارش میں غسل کا کا لظف بھی اٹھایا ہے ۔اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر یہ کباڑی کو پیاری ہوییؑں تو ویگن آگیؑ جو بس کے مقابلے میں ایسی تھی جیسے جیل کی کوٹھری کے مقابلے میں پنجرہ۔۔ فکر روزگار میں شہر کےایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کرنے والے پیچھے لٹکنے یا چھت پر بیٹھنے کا وہی کرایہ دیتے تھے جو اندر کی سیٹ پر تشریف رکھنے والا خوش نصییب دیتا تھا ۔اور کویؑ ان سے اس غیر انسانی ظالمانہ سلوک یا قانوں کی بات کرے تو یہ بے بس مخلوق اس کو مارنے پر تل جاۓ کہ بھاڑ میں جاۓ تمہارا قانوں اور انسانی حقوق کا فلسفہ۔۔میں صبح کام کیلۓ نکل کے دن بھر بھاڑ جھونکنے والا اپنے گھر پہنچنااور روکھی سوکھی کھا کے سونا چاہتا ہون تاکہ صبح کے سورج کے ساتھ پھر دن بھر کی مشقت کیلۓ نکل سکوں
مجھے متعدد پبلک ٹرانسپورٹ کیاسکیموں کا چشم دید گواہ ہونے کا اعزاز حاصل رہا جو صحرا می خنک ہوا کا جھونکا تھیں۔ابھی عوام سکون کا سانس بھی نہ لے پاۓ تھے کہ ختم ہوگییں سب سے پہلے دو منزلہ بسیں غایب ہوییں،،پھر سویڈن سے لمبی پر اسایش سیٹوں ایر کنڈیشنڈ اور خود کا ر دروازوں والی بسیں لایؑ گییں جو سال گزرنے سے پہیلے غایب ہوگییں کراچی ٹرانسپورٹ اتھاد کے صدر ارشاد بخاری نے گلشن معمار کلب میں لنچ کے بعد مقابلہؑ حسن کیلۓ 30 صف بستہ خوبصورت بسون کا افتتاح فرمایا جن میں سے ایک میرے گھر کے سامنے سے بھی گزرتی رہی۔پھر ایک ایک کرکے یہ بھی غاییب ہوییں۔ایک میں نے ملتان میں دیکھی کہ اس کے ماتھے پر ہنوز"گلشن معمار"لکھا ہوا تھا۔ایسی ہر اسکیم کی بسوں کا غایب ہونا وہ جادو تھا تھا جو صرف کراچی کی ٹرانسپورٹ مافیا دکھا سکتی تھی۔ہر اسکیم کے کتبے۔۔(حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گیے۔)۔ کی طرح چند بس اسٹاپ ہین جو الگ الگ نت نیؑ طرح سے بناۓ گۓ لیکن ان میں اب پنکچر شاپ ۔گنے کے رس کی ریڑھی۔جعلی انجن آیل بدلنے والے براجمان ہیں۔۔نہ جنوں رہا نہ پری رہی ۔۔جو رہی تو وہ نرالی ساخت کی ویگن رہی جو دنیا کے کسی شہر میں نہ تھی اور مقامی ماہرین تیار کرتے تھے۔یوں کہ اس میں زیادہ سے زیادہ مسافر بھرے جاییں خواہ جوتوں کے ڈبے کی طرح ایک کا سر اوپر ہو تو دوسرے کا نیچے،اس کی چھت دروازوں اور پیچھے کی سیڑھی پراور کھڑکیوں پر مکھیوں کی طرح چپک سکیں۔۔بے بس مسافرون کے ساتھ بؒلا تخصیص مرد و زن کرایہ کمانے والوں کا پر تذلیل رویہ ایک الگ درد بھری کہانی ہے۔۔بالاخر ویگنوں بسون کا دور غلامی تمام ہوا اور چن چی کی حکومت آگیؑ اور "تن سازی" یعنی باڈی بلڈنگ کے مقامی ماہرین نے 4 کی سواری کو 6 پھر 8 اور بالاخر 12 کی سواری بنادیا،یہ عزاب اس لۓ قبول ہوا کہ ویگن کی قید بامشقت کاٹنے کے عادی حضرات اور خواتین اب بیٹھ کر سفر کرنے لگے تھےاور یہ سستی سواری ہر گلی کے موڑ پر دستیاب تھی۔لیکن شہر میں حادثات کی شرح بڑھنے کے ساتھ ہر چوری ہونے والی موٹر سایکل کو اس میں جوتا جانے لگا تو عدالت عالیہ میں فریاد پہنچی او ان پر پابندی لگادی گیؑ۔ایک بار پھر شہر میں رکشوں کا راج ہوگیا جو دھواں چھوڑتے اچلتے کودتے اپنی گھن گرج کے ساتھ حشرات الارض کی ظرح سویؑ کے ناکے سے بھی گزر جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ سڑک انے کی ھے یا جانے کی۔کیوں دیکھیں ۔۔سیاں بھۓ کوتوال اب ڈر کاہے کا۔۔میرا خیال ہے کہ مستقل سفر کرنے والوں کی ھڈیاں ٹوٹی نہیں تو اپنی جگہ سے ضرور کھسک گیؑ ہونگی۔۔مگر ۔۔؎آۓ ہے بے بسیؑ عشق پہ رونا غالب۔۔۔۔اب ٹیکسی عنقا ہے۔ میرے جیسے جن کی۔۔؎ دم واپسیں بر سر راہ ہے۔۔ بچے اور خواتین کہاں جاییں اور کیسے جاییں جو رکشا کے سفر کی صعوبت کے متحمل نھیں ہوسکتے اور "بے کار"ہیں،یوں بھی اس شہر کے انسانی جنگل میں کار چلانا بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے سے زیادہ مشکل ہے۔اگر کویؑ ایسا کر تا ہے تو اس کیلۓ بقول منیر نیازی ؎ ایک دریا ہے جو اس سے بھی بڑا دریا ہے۔۔ منزل پر پہنچ کے وہ کیا کرے۔ سواری کو سوار کرلے اور سر پر آٹھاۓ پھرے کیونکہ پارکنگ ملی تو منزل سے میلوں دور ہوگی اور اسے وداع کہہ کے وہ جاۓ مطلوب ّ ّ (میں مخصوص کا لفظ موزونیت کے باوجود استعمال نہیں کروں گا) تک دو "ٹانگوں " پر جاے، سواری پر چڑھنے کی دعاتو عام لٹکتی نظر آتی ہے ۔اس سے اترنے کے بعدکی دعا ایجاد نہیں ہویؑ کہ اے میرے رب واپسی پرمجھے محنت کی کماٰیؑ سے خریدی گٰیؑ اس کار کی ملکیت سے محروم نہ کرنا اور میرے اہل و عیال کو عافیت سے معہ موباییؑل فون اور نقد و زر گھر پہنچانا۔اس صورت حال نے چین جاپان پاکستان ھر ملک کی موٹر ساییکل کی خرید کو ہر نوجوان کیؒلۓ عقد مسنونہ سے زیادہ ضروری بنا دیا ہے۔اب اس دو پہیون کی سواری ہسے ہر گلی کوچے شاہراہ پر وہ گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ لگتا ہے صور اسرافیل پھونکا جا چکا مگر شور میں سنایؑ نھیں دیا،اانسانوں کا ایک سیل بے عنان ہے کہ جایز وناجایز کی پروا کۓ بغیر بہتا جارہا ہے موٹر سایکل سوار اپنی منکوحہ کو بھی مغویہ کی طرح بھگاۓ لۓؑ جاتا ہے خواہ اسے کسی بس یا ویگن کے نیچے سے گزرنے کی کوشش میں جان سے ہی کیوں نہ گذرنا پڑے۔اس ٹریفک کی بد نظمی کو ٹریفک پولیس نے بڑی خوبی سے فروغ دیا۔۔۔۔"اب تم جرم نہیں کروگے تو کیا ہم چالان بھی نہ کریں" اس فلاسفی کے تحت انہوں نے یہ نظام رایج کیا جو حکومت نہ کر سکی۔ہر موٹر سایکل والے کو چالان کے بعد 50 روپے کی رسید جاری کی جاۓ گی جس کے بعد وہ تاریخ اجرا سے ایک ماہ تک شہر میں ہر قسم کے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کیلۓ آزاد ہوگا۔۔کویؑ روکے تو رسید کو فتح کے علم کی طرح لہراتا جاۓ۔یعنی اب 50 روپے ماہانہ باقاعدگی سے شہری ٹریفک پولیس کے خزانے میں جاتے ہیں اور ایمانداری سے"حصہ بقدر جثہ" کے اصول پر تقسیم ہوتے ہیں۔غیر موجود حکومت کو کیا پڑی ہے کہ نوٹس لے ۔۔( باقی آیندہ)
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1058446997570651