رمضان کا میرے جیسے عام آدمی کیلۓ بھی معمولات سے انحراف کا مہینہ بن جاتا ہے یہ اصولا" غلظ ہے۔ جو ہمیں نہیں کرنا وہ ہم کرتے ہیں اور جو کرنا ہے وہ نہیں کرتے۔اس میں ذاتی مفادات بعض اوقات عقیدہ بن جاتے ہیں۔ اس کے حامی اور مخالف نظریہ ضرورت کے مطابق اپنے اپنے دلایل ایجاد بھی کرلیتے ہیں۔ سب گفتار کے غازی ہیں مگر دعوۓ کرنے میں کیا جاتا ہے کہ کردار کے غازی بھی ہیں ہم ۔۔
میں نے اپنی زندگی کا نصف حصہ نسف بھتر کے ساتھ اسی شہر میں گزاردیا جس پر عروس البلاد کہلانے کی اب تہمت بھی نہیں۔میری طرح اس شہر کا چہرہ بھی نامعلوم طریقے پر بدلتا چلا گیا۔وقت کی چیرہ دستی ایک سفاک بے نیازی کے ساتھ گلوں سے رنگ و بو اور حسن سے متاع غرور چھین لیتی ہے لیکن جو زندگی کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں وہ انے والی نسلوں کیلے ایک بہتر حسین تر دنیا کی تعمیر کا عمل جاری رکھتے ہیں چنانچہ ویرانے آباد ہوتے ہیں۔صدیوں کے عمل ارتقا نے مغرب میں لندن۔ اور پیرس سے مشرق میں ٹوکیو اور کولا لامپور تک محض وسعت ہی نہیں دی زندگی کرنے کا قرینہ اور حسن بھی دہا ہے،۔۔اور جیسا کہ میں نے پہلے لکھا تھا۔۔ ھر شہر ایک چہرہ رکھتا ہے جس کو بنا سنوار کے زیادہ حسین اور پر کشش بنانے کا عمل خود اس کے باسی یوں اپنا فرض سمجھ کے جاری رکھتے ہیں کہ وقت کا تخریبی دھارا سمت بدل لیتا ہے۔شہر صرف وسعت اختیار نہیں کرتے زیادہ حسین اور پر کشش ہوتے جاتے ہیں
ندامت سے زیادہ دکھ کے احساس کے ساتھ مجھے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ کراچی کے باسیوں نے ایسا نہیں کیا۔اس کی آبادی اور وسعت مٰیں اضافے نے کراچی کو دنیا کے دس بڑے شہروں میں شا،ل کیا تودس خطرناک ترین شہروں میں بھی۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک ترتیب "دنیا کے دس مہنگے ترین" اور ۔۔ "دس رہایش کیلۓ بہتریں شہروں" کی بھی ہے،،یہ مجھے یاد نہی﷽ لیکن آپ نیٹ پر ضرور دیکھ سکتے ہیں۔۔ مثال کے طور پر ٹوکیو کا شمار مہنگے تریں شہروں میں ہے۔وہاں جگہ کی کمی کایہ حال ہے کہ سب سے پہلے"کافن ہوٹل"۔۔یعنی تابوت ہوٹل وجود میں آۓ کیونکہ ہوٹل کا کمرہ انتہایؑ مہنگا تھا چنانچہ اوپر تلے تابوت بنادۓ گۓؑ۔۔آٹھ فٹ لمبا۔۔ تین فٹ چوڑا اور چار فٹ اوںچا ایک خانہ ہے ۔اوپر تلے تین۔ بالکل جیسے اپنی تیزگام جیسی گاڑی کی تین برتھیں۔بارہ بایؑ بارہ کے کمرے میں 6 افراد۔ نیچے والے تابوت کا کرایہ کچھہ اضافی۔۔سرہانے اپنا بیگ یا بریف کیس رکھۓؑ ا اپنی لایٹ جلا کے بیٹھۓؑ لیپ ٹاپ چلاٰٰیۓ یا کتاب پڑھۓ یا سوجاؑیؑے مگر کسی کو ڈسٹرب کۓ بغیر؛؛صبح باری پر مشترک واش بیسن پر محدود پانی سے منہ دھوکر جاییے اپنے کام سے۔نہ باشتا نہ کھانا نہ ویٹر۔۔۔۔۔۔ دنیا کے سب سے زیادہ "قابل رہایش" شہر قطعی غیر معروف ہیں ۔۔ آرام و آسایش سکون اور حسن تعمیر یا مناظر قدرت ۔ آمد و رفت تعلیم اور صحت و صفایؑ کا انتظام جیسے ہر معیار پر بہترین ثابت ہونے والے۔۔افسوس ان میں سے بھی کسی کا نام مجھے یاد نہیں لیکن آپ معلوم کر سکتے ہیں ۔۔جویندہ یابندہ
میں نے عرض کی تھی کہ کسی بھی شہر کو۔۔ جیسا وہ ہے۔۔ باہر سے آکےیا ٹھیکے پر کویؑ نہیں بناتا۔۔اسے خود شہری بناتے ہیں۔۔وہ انتظامیہ یا مقامی حکومت بناتی ہے جسے خود شہری بناتے ہیں،، ابھی بات کراچی کی ہے۔۔وہ خظرناک تریں کیسے بن گیا؟ خطرناک کی بھی ایک تعریف ہوگی یعنی..Definition۔۔ یقینا: کراچی ایسا نہیں تھا تو ایسا کیوں ہوگیا؟ اگر شہری کسی شہر کو بناتے ہیں تو کراچی کے شہریوں بے اسے "دس بڑے" اور"دس خطرناک ترین" شہروں میں کیوں شامل کیا؟ بڑا تو خیر آبادی کی کثرت سے ہوا
جواب آپ کو شاید حیران کن لگے۔۔اس کے شہریوں نے کچھ نہیں کیا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ کراچی میں کراچی کے شہری تو ہیں ہی نہیں۔۔ اس میں دو قسم کے لوگ رہتے ہیں ۔۔ایک وہ جو 1947 میں اپنے آباواجداد کے (غلط یا صحیح ) کسی۔ فیصلے کے نتیجے میں ان علاقوں سے آ کے یہاں آباد ہوۓ جو اب بھارت میں ہیں ۔ ان کا مزاج مجھے بہت عجیب لگتا ہے کہ وہ آج بھی اپنی پرانی وابستگی کے حوالے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔مثلا" رشتے کرتے وقت ۔۔مکاں کراۓ پر دیتے وقت۔۔ بعض اوقات رسم و راہ میں بھی۔۔اس کا یک ثبوت اسکیم 33 عرف گلزار ہجری میں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں میرٹھ سوسایٹی،اٹاوہ سوسایٹی جسیی درجنوں 40 40 ایکڑ کی بستیوں کے خواب ایک ویران بیابان کی صورت میں نظر آتے ہیں۔"اپنی طرف کے لوگوں" کو ایک جگہ اباد کرنے کی حسرت رکھنے والے یہ زمیں الات کراکے بیشتر صورتوں میں پلاٹ خریدنے والوں کو قبضے دۓ بغیر روپوش ہوگۓ یا مرحوم۔۔اس کے بعد وہی ہوا جو ہوتا ہے۔۔آں دفتر را گاو خورد ۔۔گاو را قصاب برد۔۔و قصاب ہم مرد۔۔یعنی فایل کو گاۓ کھا گیؑ۔۔گاۓ کو قصاب لے گیا اور اب تو قصاب بھی مر گیا
دوسرا ثبوت بھی قبل غور ہے۔اس وقت یہ فیشن تھا،،رییؑس امروہوی۔۔بہزاد لکھنوی۔۔قابل اجمیری۔۔جوش ملیح آبادی۔۔نوح ناروی۔۔قمر اجنالوی۔۔حفیظ جالندھری۔۔ان گنت نام ان بستیون کے حوالے رکھتے ہیں جو شاعر کا وطن تھے۔۔ایک تو انھون نے اس شناخت کو باقی رکھا لیکن اسی دور میں کویؑ شاعر"کراچوی" نہیں ہوا۔ اس شہر کی آدھی آبادی کراچی کے شہری نہیں رہایشی ہیں ۔ جیسے اسلام آباد کے رہایشی چاروں صوبون کے ہیں،،تاریخ انسانی میں کسی شہر کو دوسرے شہرون یا ملکوں سے آنے والون نے آباد نہیں کیا۔۔۔ اب رہی باقی نصف آبادی کی بات تو وہ ملک بھر سے فکر روزگار میں آے ہوۓ لوگ ہیں۔۔یہ ان کا شہر بہرحال نہیں ھے۔۔ مگر ایسا ہر بڑے شہر میں ہوتا ہے جہاں روزگار کےمواقع ہوں اور بندر گاہ ہو ۔کلکتہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رات کو اس کی ابادی نصف رہ جاتی ھہٓے۔دن میں مضافات کے قصبوں سے لوگ نوکری کرنے آجاتے ہین،بمبیؑ میں بھی ایسا ہی ہے
تو آپ نے دیکھا؟ کراچی شہر میں کراچی کے شہری ہی نھیں تو اس کو بناۓ گا سنوارے گا کون؟ کل یا آج کے سیاسی حالات کی بات میں نہیں کرتا۔۔ایسا لاہور یا پنجاب کے کسی شہر میں نہیں،گلگت یا سوات میں نہی سرحد یا بلوچستان میں نہیں میں ۔وہ تو30 لاکھ افغان مہاجرین کو بھی اپنا ہی سمجھتے ہیں ۔۔ کراچی ہر گذرتے دن کے ساتھ تباہ ہورہا ہے اورپھیلتا جارہا ھے۔۔لیکن پھیلتا تو کینسر بھی ہے۔۔میں نے اس شہر کو سب سے پہلے 1965 میں دیکھا اور آخری بار ابھی دیکھ کے لوٹا ہوں۔۔میں سیاست کی بات نہیں کرتا۔۔یہ جانتا ہوں کہ یہ شہر 50 سال پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے۔۔ اسکا ایسا حال ایک سال یا دس سال میں نہیں ہوا۔۔ایسا رفتہ رفتہ ہوا۔۔ میں اس کی وسعت کی بات بھی نہیں کر رہا۔۔اس کے مزاج کی بات کر رہا ہوں جس نے اسے دنیا کے دس خطرناک تریں شہروں میں شامل کیا۔۔اپنا مشاہدہ میں اپنی آپ بیتی کی صورت میں ہی پیش کر سکتا ہوں جو شاید آپ کو جگ بیتی لگے۔۔ یار زندہ صحبت باقی
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1056916644390353