اپنے عہد کے باشعور شخص کو پہچاننا، اس کی خدمات کا اعتراف کرنا اور اس کی تعظیم کرنا تہذیب یافتہ معاشروں اور صاحبِ بصیرت اشخاص کا خاصا ہے۔
اگر وہ شخص اپنے ہی شعبے کا ہو تو اس کی قابلیت اور اہلیت کا اعتراف، اس کے فن کی ستائش اور اس کی تعظیم کرنا بڑے ظرف کی بات ہے۔
یہ تعظیم، ستائش اور اعتراف اس کی زندگی ہی میں ہونا چاہیے اس سے اس شخص کو زمانے کی ناقدری کا گلہ نہیں رہتا اور وہ اپنا کام اور زیادہ جاں فشانی سے سرانجام دیتا ہے کہ اس کے کام سے اس کے چاہنے والوں کی امیدیں اور خوشیاں وابستہ ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ دوسرے کے ہنر کے اعتراف سے اپنا قد بھی بڑھتا ہے۔
دراصل ہم معاش کے چکر میں الجھ کے رہ گئے ہیں وگرنہ بہ حیثیتِ قوم یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے فن کاروں، دانش وَروں، محققوں، مدرسوں، سائنس دانوں، ڈاکٹروں الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی کے قابلِ قدر لوگوں کو ان کی حیات ہی میں سراہیں۔
اسی جذبے کے تحت کہوٹہ لٹریری سوسائٹی نے انڈس کالج کہوٹہ کی لائبریری میں جواں سال محقق، مدرس، مدیر، نقاد، صاحبِ بصیرت، نکتہ رس فرہاد احمد فگار کے اعزاز میں 15 اپریل 2023ء کو ہفتے کی شام ایک تقریب بہ عنوان”ایک شام فرہاد احمد فگار کے نام” کا انعقاد کیا۔
تقریب کی صدارت نام وَر شاعر جاوید احمد نے کی۔مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر ماجد محمود، صداقت طاہر اور قمر عباس شامل تھے۔ نظامت کے فرائض عدنان نصیر اور حسیب علی نے سرانجام دیے۔
تقریب کے دو حصے تھے پہلے حصے میں مقررین نے فرہاد احمد فگار کی تحقیقی خدمات پہ روشنی ڈالی اور ان کے کام کو سراہا۔
حسن ظہیر راجا نے فرہاد احمد فگار سے اپنے دوستی کے تعلق اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پہ کلام کیا۔ حسن ظہیر راجا نے فرہاد کے جذبۂ شوق کی مثال دیتے ہوئے کہا:
“فرہاد مظفرآباد سے لاہور مع حوالہ جات ایک صاحب کو محض یہ بتانے گئے کہ حضور یہ شعر آپ کا نہیں ہے اس کا اصل وارث فلاں ہے”۔
پروفیسر حبیب گوہر نے فرہاد احمد فگار کی خدمات پہ تفصیلی مضمون پیش کیا جس میں ان کے تنقیدی و تحقیقی کاموں کی نوعیت کو اجاگر کیا اور فرہاد کی مدیرانہ صلاحیتوں کو سراہا۔ فرہاد کی زیرِ ادارت شائع ہونے والے علمی و ادبی مجلے “بساط” کی تعریف کی اور کئی اشعار کا حوالہ دیا جن کے خالق کا پتا فرہاد احمد فگار نے دیا۔ان میں زیادہ تر اشعار ایسے ہیں جو اقبال کے نام سے منسوب ہیں جب کہ ان کے اصل خالق اقبال نہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ فرہاد نے نصابی کتب میں موجود اغلاط کی نشان دہی بھی کی ہے اور اب یہ خود آزاد کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ کی اردو کی نظر ثانی کمیٹی کا حصہ ہیں ۔
اس کے بعد صاحبِ شام فرہاد احمد فگار نے تقریب کے انعقاد پر حسن ظہیر راجا اور کہوٹہ لٹریری سوسائٹی کا شکریہ ادا کیا۔انھوں نے کہا کہ پروفیسر حبیب گوہر نے جتنا کہا میں اس قدر نہیں ہوں بس یہ خواہش رہتی ہے کہ لفظوں کا احترام کیا جائے میں تو جاوید احمد کے اس شعر پہ عمل پیرا ہوں۔
لفظ وہ پرندے ہیں پیار اسی سے کرتے ہیں
جس نے ان کو رکھا ہے جس نے ان کو پالا ہے
فرہاداحمد فگار نے اپنے نعتیہ اشعار کے ساتھ حرف تشکر کو اختتام بخشا۔
کہوٹہ لٹریری سوسائٹی کی طرف سے جنابِ جاوید احمد، صابر علی صدیقی اور پروفیسر حبیب گوہر نے فرہاد احمد فگار کو یادگاری شیلڈ برائے تحقیقی خدمات پیش کی۔
تقریب کے دوسرے حصے میں مشاعرہ بپا ہوا۔ کہوٹہ شعری حوالے سے بہت زرخیز شہر ہے جاوید احمد کے زیرِ سایہ نئی آوازوں کی چہکار چار اَور سنائی دے رہی ہے۔ انڈس کالج کی لائبریری باذوق سامعین سے بھری ہوئی تھی۔ ہر معیاری شعر پہ بے پناہ داد دی گئی واہ واہ سبحان اللہ مکرر کی صدائیں اول تا آخر گونجتی رہیں۔
یہ دوسرے ہفتے میں کہوٹہ میں دوسرا مشاعرہ تھا۔گزشتہ ہفتے اسی جگہ ڈاکٹر وحید احمد کی صدارت میں جاوید احمد کی سال گرہ کے سلسلہ میں ایک بھرپور مشاعرہ بپا ہوا تھا جس میں اس عہد کی نمایاں آوازیں شامل تھیں۔افضل خان، انجم سلیمی، ڈاکٹرعابد سیال، عمران عامی اور کرنل شہاب عالم بہ طورِ خاص جلوہ افروز ہوئے تھے۔
کہوٹہ لٹریری سوسائٹی نے شعری نشستوں، مشاعروں اور دانش وروں کے علمی و ادبی لیکچروں کے انعقاد کا سلسلہ بحال کر دیا ہے۔ دعا ہے کہ شعری و علمی منظر نامے پہ کہوٹہ آب و تاب سے چمکتا رہے۔
کل کی نشست سے منتخب اشعار
کیسے رحمت نہ کہتا بارش کو
ایک چھتری تلے تھے ہم دونوں
ذیشان ستی
میرے گاؤں میں مجھے دیکھنے آئی ہو گی
سیر کرنے کو تو کاغان بھی جا سکتی تھی
وقاص امیر
تیرے گم راہ کردہ تجھ سے ملیں
اور تُو ان سے راستا پوچھے
حسیب علی
کیسے کاٹے گا کوہِ غمِ زیست
بیٹا ہونے پہ دکھ ہو رہا ہے
عدنان نصیر
یہ جو دل میں اتر رہے ہیں مرے
یہ بھی دل سے اترنے والے ہیں
نوید فدا ستی
اس کی فرقت میں جل رہا ہوں میں
اس کو سمجھاؤ اور بجھاؤ مجھے
قمر عباس
مٹی کے ساتھ ذہن کو بھی کچھ نمو ملی
بارش ہوئی تو تھوڑے سے اشعار ہو گئے
حسن ظہیر راجا
شمعِ اسلام جس سے فروزاں ہوئی
وہ لہو مصطفٰیؐ کے گھرانے کا ہے
فرہاد احمد فگار
بیج پھوٹا کہ تہِ خاک بغاوت پھوٹی
ایک ہی جڑ سے تنے دو نکل آئے ہائے
صداقت طاہر
ہوس ہوتی تو پوری کر بھی لیتے
محبت تھی ادھوری رہ گئی ہے
ڈاکٹرماجد محمود
حق مانگنے پہ صبر کی تلقین کی گئی
ہم کو خدا کے نام پہ دھوکا دیا گیا
حبیب گوہر
سکے کھنک رہے ہیں عزازیل کے یہاں
میرے خدا یہ کاسہ ء دنیا اٹھا کے پھینک
جاوید احمد