“کسی کو جاننے کے لئے یہ مت دیکھو کہ وہ کہتا کیا ہے، یہ دیکھو کہ وہ کرتا کیا ہے”
ایک نیوروسرجن، جو بوگن، نے 1960 کی دہائی میں لوگوں کے دماغ کو کاٹ کر آدھا آدھا کرنے کے آپریشن کرنا شروع کئے۔ یہ کام ان لوگوں کی مدد کے لئے کیا گیا تھا جنکی زندگی مرگی کے دوروں کی شدت نے تباہ کر دی تھی۔ یہ دورہ دماغ کے کسی حصے سے شروع ہوتا ہے اور اپنے گرد ٹشو میں پھیلتا ہے۔ دماغ کا دایاں اور بایاں حصہ کورپس کالوسم سے ملا ہوا ہے جو پورے جسم میں اعصاب کا سب سے موٹا بنڈل ہے۔ اگر یہ اس کو پار کر جائے تو یہ پوری دماغ میں پھیل سکتا ہے اور کسی کو بے ہوش کر سکتا ہے، گرا سکتا ہے اور بے قابو جھٹکوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔
پہلی نظر میں ایسا آپریشن پاگل پن لگتا ہے۔ اعصاب کا یہ موٹا بنڈل اہم کام کرتا ہے اور وہ اہم کام دماغ کے دو حصوں کے آپس میں رابطے اور اور کوآرڈینیشن کا ہے۔ لیکن جانوروں پر کئے جانے والے تجربے سے پتا لگا تھا کہ اس کو کاٹنے کے باوجود جانور جلد ہی نارمل زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔ بوگن نے انسانی مریضوں پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور یہ کام کر گیا۔ اس آپریشن کے بعد دوروں کی شدت بہت کم رہ گئی۔
اس سے مریض پر فرق کیا پڑا؟ اس کو جاننے کے لئے ماہرِ نفسیات مائیکل گازانیگا کو لایا گیا جن کا کام دماغ کو کاٹنے والی سرجری کے بعد ہونے والے اثرات جاننا تھا۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ دماغ دنیا کی پراسسنگ کو الگ حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ بائیں اور دائیں میں۔ بائیاں حصہ دائیں طرف سے آنے والی انفارمیشن اور دائیاں بائیں طرف سے آنے والی۔ (دماغ کے دائیں حصے کے لئے بایاں کان، بائیں ٹانگ، بایاں بازو۔ اور اہم چیز آنکھ کے ریٹینا کا بایاں نصف جو ویژوئل فیلڈ کے دائیں طرف سے آنے والی انفارمیشن لیتا ہے)۔ یہ الٹا ہی کیوں ہے؟ معلوم نہیں لیکن یہ ایسے ہی ہے۔
دونوں نصف کے پاس کام بھی اپنے اپنے ہیں۔ بایاں نصف لینگویج کی پراسسنگ اور تجزیاتی کام کرتا ہے۔ بصری کاموں میں یہ تفصیل کو نوٹ کرنے میں اچھا ہے۔ دایاں حصہ سپیس میں پیٹرن پہچاننے میں اچھا ہے۔ خاص طور پر سب سے اہم پیٹرن یعنی چہرے پہچاننے کا کام اس کے پاس ہے۔ (اس تصور کو ضرورت سے زیادہ سادہ کر کے آرٹسٹ کو رائٹ برینڈ اور سائنسدان کو لیفٹ برینڈ کہنے کی یہ وجہ ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گازانیگا نے اس کو استعمال کرتے ہوئے دماغ کے دونوں حصوں کو الگ معلومات فراہم کی۔ مریض کو سکرین کے ایک نقطے پر نگاہ مرکوز کرنے کو کہا گیا اور کوئی تصویر یا لفظ اس نقطے کے تھوڑا سا بائیں یا دائیں طرف فلیش کیا۔ اتنی تیزی سے کہ مریض کو پتلی کی حرکت کا موقع نہیں ملا۔ اگر ایک ٹوپی کی تصویر دائیں طرف فلیش ہوئی تو یہ صرف ریٹینا کے بائیں طرف نے رجسٹر کی (امیج کے کورینیا میں پہنچنے اور الٹ جانے کے بعد)۔ اس نے نیورل انفارمیشن دماغ کے بائیں طرف والے حصے کو بھیجی۔ دائیں کے پاس یہ نہیں پہنچی،
اب مریض سے پوچھا گیا، “کیا نظر آیا؟”۔ بائیں طرف والا حصہ چونکہ زبان کی پراسسنگ کرتا ہے تو مریض آسانی سے جواب دے دیتا ہے کہ، “ٹوپی”۔ اگر یہ تجربہ اس طرح کیا کہ یہ امیج دماغ کے دائیں طرف والے حصے کی طرف پہنچا جو بولنے کو کنٹرول نہیں کرتا تو بائیں طرف والے حصے تک یہ معلومات پہنچانے والی شاہراہ کٹ چکی تھی۔ وہاں تک معلومات پہنچی نہیں۔ مریض نے جواب دیا، “کچھ بھی نہیں”۔ جب مریض کو کچھ تصاویر دکھائی گئیں اور بائیں ہاتھ سے اشارہ کرنے کے لئے کہا گیا کہ اس نے کیا دیکھا تو مریض نے بالکل ٹھیک تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ دائیں طرف والا حصہ اس ہاتھ کو کنٹرول کر سکتا تھا۔ جیسے الگ ذہانت اس حصے میں بند تھی اور اس کے پاس بائیں ہاتھ کا کنٹرول تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس سے زیادہ عجیب اس وقت ہو گیا جب دونوں اطراف کو الگ تصاویر دیکھنے کو ملیں۔ مرغی کے پنجے کی تصویر دائیں طرف، برف سے بھری گاڑی اور فٹ پاتھ کی تصویر دائیں طرف۔ اس کے بعد کئی تصویریں دکھا کر پوچھا گیا کہ جو دیکھا ہے، اس سے ملتی جلتی تصویر کی طرف اشارہ کریں۔
دائیں ہاتھ نے مرغی کی طرف اشارہ کیا (جس کا تعلق پنجے سے تھا) اور بائیں نے بیلچے کی طرف (جس کا تعلق برف ہٹانے سے تھا)۔
جب مریض سے پوچھا گیا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے کہ دونوں ہاتھ الگ الگ تصاویر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ نہیں تھا کہ اسے پتا نہیں کہ ایسا کیوں کیا۔ بغیر ہچکچاہٹ کے مریض نے کہا۔ “ظاہر ہے، مرغی کے پنچے کا تعلق مرغی سے ہے اور مرغی کا پنچرہ صاف کرنے کے لئے بیلچہ چاہیے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو کنفیبولیشن کہتے ہیں۔ یعنی آپ اپنے کسی بھی رویے کا جواز اعتماد سے اور یقین سے دے سکتے ہیں۔ اور آپ اپنی طرف سے سچ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ منقسم دماغ والوں میں یا دماغ کو کسی اور طرح نقصان پہنچنے کی وجہ سے اس کو دیکھنا بہت آسان ہے۔ گازانیگا کے مطابق دماغ کا لینگویج سنٹر ایک ترجمان ہے۔ اس کا کام کمنٹری کرنا ہے کہ وہ شخص کیا کر رہا ہے۔ اس تبصرہ نگار کو شخص کے کام کرنے کی اصل وجہ یا مقصد کا علم نہیں اور اس تک رسائی بھی نہیں۔
اگر دائیں حصے کو یہ کمانڈ دکھائی جائے کہ “چلو”۔ مریض اٹھ کر چل دے۔ جب اس سے پوچھا جائے گا کہ وہ چل کیوں رہا ہے تو وہ کہے کہ “پیاس لگ رہی تھی، پانی پینے جا رہا ہوں”۔ آپ کا وضاحتیں کرنے والا حصہ کسی بھی عمل کی وضاحت کر لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس میں اس سے بھی زیادہ عجیب دریافتیں ہوئی ہیں۔ اس کی ایک مثال ایلین ہینڈ سنڈروم ہے۔ کچھ مریضوں میں دایاں اور بایاں حصہ باقاعدہ لڑائی شروع کر دیتے ہیں۔ عام طور پر بایاں ہاتھ ہے جو باقی جسم سے بغاوت کر اپنی من مانی شروع کر دیتا ہے۔ فون کی گھنٹی بجی، اس کو اٹھایا لیکن یہ ہاتھ اس کو کان سے لگانے سے انکاری ہو گیا۔ اس کو دوسرے ہاتھ کو دینے سے بھی انکار کر دیا۔ یا پھر کبھی دوسرے ہاتھ کی چوائس سے اختلاف کر دیا۔ پہننے کے لئے ایک قمیض شیلف سے اٹھائی، اس ہاتھ نے پکڑ کر واپس رکھ دی۔ زپ بند کی، اس نے کھول دی۔ کسی کام سے روکنے کے لئے دوسرے ہاتھ کو کلائی سے پکڑ لیا۔ ایسا واقعہ بھی ہوا ہے جب اس ہاتھ نے گردن دبوچ کر دبانے کی کوشش کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نارمل لوگوں کے دماغ منقسم نہیں ہوتے لیکن نفسیات میں ایسے لوگوں نے ہمیں خود اپنے آپ کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ دکھاتے ہیں کہ دماغ کس طریقے سے خود ایک کنفیڈریشن ہے۔ اس میں کس قدر آزادی سے الگ الگ پراسسنگ چل رہی ہے جو ایک دوسرے کی متضاد بھی ہو سکتی ہے۔ اور ان سے نکلتے رویے کی وضاحت کر دینا ۔۔۔ خواہ وہ کچھ بھی ہو ۔۔۔ دماغ میں وضاحت کرنے والے کمنٹیٹر کے لئے بہت آسان ہے۔ یہ اس کی مہارت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کسی کو سمجھنا ہو تو یہ مت دیکھیں کہ وہ کہتا کیا ہے، یہ دیکھیں کہ وہ کرتا کیا ہے۔” قدیم دانائی سے آنے والا یہ فقرہ بالکل درست ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو جاننے کا کوئی طریقہ نہیں۔ اور ہاں، یہ بات کسی اور کو جاننے کے لئے نہیں، آپ کے اپنے بارے میں ہے۔
ان تجربات کے بارے میں پڑھنے کے لئے
لنک