جرمنی کے ایک بڑے صوبے ”بویریا“ کے ایک چھوٹے سے شہر میں رہنے والے پینتالیس سالہ ”اذاک ولہم“ کو اپنے خالص جرمن اور ایک سفید فام عیسائی ہونے پر بڑا فخر تھا۔ اتنا فخر کہ اسے غرور بھی کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ اس کا خیال تھا کہ صرف سچے عیسائی اور خالص جرمن کو ہی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ساری دنیا پر حکومت کرے۔ بے شک وہ ایسے خیالات کا اظہار صرف اپنے خاص اور قریبی دوستوں کے درمیان ہی کرتا تھا۔ عام لوگوں کے درمیان وہ انسانیت کا ایک ایسا علمبردار بن جاتا جسے رنگ و نسل سے کوئی سروکار ہی نہ ہو۔ گھر سے باہر وہ ایک ملنسار، نرم خو اور خوش خلق انسان کے روپ میں نظر آتا لیکن گھر کے اندر وہ ڈسپلن کی سخت پابندی کرتا تھا۔
ویسے تو وہ اپنا شجرہ نسب کسی جرمن بادشاہ سے ملاتا تھا، لیکن اس کے نزدیکی لوگوں کو بھی شک تھا کہ وہ ہٹلر کے کسی قریبی ساتھی کی نسل میں سے ہے۔ ایسے لوگوں میں سے ایک جنہوں نے یہ اندازہ ہونے کے بعد ، کہ وہ جنگ ہارنے والے ہیں، اپنے بال بچوں کو بہت سی دولت دے کر، دور دراز کے ملکوں میں بھیج دیا تھا۔ مگر اپنے دعوے کا ثبوت نہ تو ”اذاک“ کے پاس تھا اور نہ ہی اس پر شک کرنے والے ایسے کاغذات تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے، جن سے ان کے شبہ کو تقویت ملتی۔
”اذاک ولہم“ کی اپنے رہائشی علاقے میں بہت سی زمینیں تھیں، جنہیں وہ اپنی نگرانی میں کاشت کرواتا تھا۔ اسی لئے اس کے علاقے میں اسے خاصے رشک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
اس چھوٹے سے شہر کی بڑی زمینوں کے علاوہ میونخ جیسے بڑے شہر میں بھی اس کے کئی مکانات تھے، جو اس نے کرایہ پر چڑھا رکھے تھے۔ ایک پورا دفتر ان مکانات کے انتظامات کو سنبھالتا تھا۔ میونخ میں بھی ایک خوبصورت بنگلہ اس نے اپنے لئے رکھ چھوڑا تھا، جو عام طور پر بند رہتا تھا۔ جب کبھی اس نے میونخ میں قیام کرنا ہوتا تو اس کے دفتر سے کچھ ملازم آ کر وہاں ڈیوٹی سنبھال لیتے تھے۔
ملک کے حالات ایسے تھے کہ پورے صوبے میں چند لوگوں کے سوا کوئی گھریلو ملازموں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ اور اذاک ان چند لوگوں میں سے ایک تھا۔ اس کے دونوں گھروں کے علاوہ اس کی زمینوں پر بھی مستقل بنیادوں پر ملازم موجود تھے۔ اور وہ سب کے سب جرمن تھے۔ وہ جرمنوں کے علاوہ کسی کو ملازم بھی نہیں رکھتا تھا۔ ملازمت دینے سے پہلے وہ پوری پڑتال کرتا تھا کہ امیدوار ایک سچا عیسائی بھی ہے یا نہیں۔ حالانکہ خالص جرمن اور سچے عیسائی ملنا اب بہت مشکل ہو گیا تھا۔ پھر ان کو تنخواہیں بھی زیادہ دینا پڑتی تھیں۔ مگر اذاک ولہم کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
اس کی دو بہنیں بھی اسی صوبے میں رہائش پذیر تھیں اور دونوں نہ صرف یہ کہ زمینوں والے شوہروں کی بیویاں تھیں، بلکہ ان کی سوچ بھی وہی تھی جو اذاک اور اس کے بیوی بچوں کی تھی۔ یعنی خالص جرمن اور سچے عیسائی۔ اتوار کو چرچ کی عبادت میں حصہ لینے کے علاوہ، گھر کا رہن سہن اور طور طریقے بھی سچے عیسائیوں والے تھے۔
اذاک کے علاقے میں عظیم عمارت والا، ایک قدیم اور عالیشان چرچ بھی تھا۔ حالانکہ چرچ اپنی کیتھولک تنظیم کے تحت تھا اور ان کے پاس فنڈز کی کوئی کمی نہ تھی، پھر بھی چرچ کی اندرونی تزئین و آرائش اور بیرونی نگہداشت کی ذمہ داری اذاک نے اٹھا رکھی تھی۔ اس پر اٹھنے والے تمام اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کرتا تھا۔ علاوہ ازیں چرچ کے بڑے پادری ”فادر ایرک“ اور اس کے معاونین کے آرام و آسائش کا خیال رکھنا بھی وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔ علاقے میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جن کے پاس اپنی گاڑیاں نہیں تھیں۔ وہ اتوار کو اپنی گاڑیاں بھیج کر ایسے لوگوں کے چرچ میں آنے میں مدد دیتا تھا۔ اگر اسے خبر ملتی کہ سو دو سو کلو میٹر تک بھی کسی سچے سفید فام عیسائی کو اپنی کاشت کے ضمن میں کوئی مسائل درپیش ہیں تو یہ اس کی مدد کرنے وہاں پہنچ جاتا۔ شاید
ایسی ہی وجوہات کی بنا پر، اتوار کی عبادت کے اختتام پر، فادر ایرک اسے باہر تک چھوڑنے آتا تھا۔ جس پر دوسرے لوگ اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ کبھی کبھی عبادت کے بعد فادر ایرک اسے صلاح مشورے کے لئے بھی روک لیا کرتا تھا۔ ایسے میں اس کی بیوی (سارہ) اور تینوں بچوں ڈیوڈ، ماریہ اور سالمو کو چرچ میں اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ ڈیوڈ کو اب اس طرح کے انتظار سے کوفت ہونے لگی تھی۔ وہ سترہ سال کا ہو چکا تھا اور اب اپنی تعلیم کو نہایت سنجیدگی سے توجہ دے رہا تھا۔ ماریہ بھی پندرہ سال کی ہونے والی تھی، گو اپنے قد کاٹھ کی وجہ سے وہ کم از کم سولہ سترہ سال کی لگتی تھی۔ سالمو بھی اپنی تیرہویں سالگرہ منا چکا تھا۔ الغرض ان تینوں میں سے اب کوئی بھی چھوٹا بچہ نہیں رہ گیا تھا۔
جہاں تک اس چرچ تک تعلق ہے تو عبادت گزاروں کی حاضری تو ابھی بھی کافی ہوتی تھی، لیکن اب زیادہ تر بوڑھے اور جوانی سے آگے بڑھتی ہوئی عمر کے لوگ ہی اسے رونق بخشتے تھے۔ کچھ چھوٹے بچے ضرور اپنے ماں باپ یا بزرگوں کے ساتھ آ جاتے تھے، لیکن نوجوانوں کی تعداد اب گھٹتے گھٹتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ جبکہ کچھ سال پہلے تک، اتوار کے دن یہ چرچ عبادت گزاروں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے پورے علاقے کے لوگ، گھروں کو تالے لگا کر، چرچ میں آ گئے ہیں۔ جوان، بچے، بوڑھے سب سج دھج کر آتے اور جوش و خروش سے عبادت میں حصہ لیتے تھے۔
جو ماں باپ اب نوجوانوں کے بغیر وہاں آتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں پر یہاں آنے کے لئے سختی کرنا نہیں چاہتے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ تمام ممکنہ حربے آزما چکے تھے۔ جوان ہوتے ہوئے بچے، اور خاص طور پر وہ جو سائنس کے مضامین پڑھ رہے تھے، مذہب سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ اور ملکی قوانین کسی بھی طرح کی زبردستی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ پھر ان قوانین پر عمل درآمد بھی بڑی سختی سے کروایا جاتا تھا۔ ان حالات میں بھی اذاک ولہم اپنی بیوی اور تینوں بچوں سمیت ہر اتوار کی عبادت میں باقاعدگی سے حصہ لیتا تھا۔ وہ سب اپنے گلوں میں سونے کی صلیبیں ڈالے، پورے اہتمام سے تیار ہو کر وقت مقررہ سے ذرا پہلے ہی چرچ میں پہنچ جاتے تھے۔ اسی لئے وہ وہاں ایک مثالی عیسائی خاندان سمجھا جاتا تھا۔ یوں اس خاندان کی زندگی بہت خوش باش چل رہی تھی۔
اذاک کے علاقہ سے کوئی سو کلومیٹر کے فاصلے پر ایسا ہی ایک اور خاندان رہتا تھا۔ وہ لوگ بھی سفید فام، خالص جرمن اور سچے عیسائی تھے، مگر انہیں اپنے کھیتوں میں کچھ کاشت کے مسائل درپیش تھے۔ فادر ایرک نے ان کی نشاندہی کی تھی اور اذاک ان کے مسائل جاننے کے لئے وہاں جا رہا تھا تاکہ ممکن ہو تو درست اور عملی مشورہ جات سے ان کی مدد کی جا سکے۔ حالانکہ موسم بھی اچھاتھا اور ٹریفک بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ پھر بھی ایک موڑ کاٹتے ہوئے گاڑی ڈرائیور کے کنٹرول سے باہر ہوئی، آگے چلتے ہوئے ایک بھاری ٹرک سے ٹکرائی اور اچھل کر سڑک کے ساتھ درختوں میں جا گری۔
اذاک کو ڈرائیور سے بھی زیادہ چوٹیں آئیں۔ اس کی خوش قسمتی کہ عین حادثے کے وقت ہی ایک بڑی ایمبولینس وہاں سے گزر رہی تھی۔ جس میں موجود عملے نے فوری طبی امداد دے کر اسے ہسپتال پہنچا دیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کوئی چیز سیدھی اس کے دل پر آ کر لگی تھی۔ دل بری طرح گھائل ہو گیا تھا۔ اگر وہ ایمبولینس وہاں اسی وقت نہ پہنچ جاتی تو وہ وہیں مر جاتا۔
ہسپتال پہنچتے ہی اسے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ لیکن ڈاکٹروں کی شدید کوشش کے باوجود وہ کومے میں چلا گیا۔ دل کا معاملہ تھا، فوری آپریشن کرنا پڑا۔ مگر کوئی کامیابی نہ مل سکی کہ دل نے کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کوئی اور جگہ ہوتی تو اس کی موت کا اعلان کر دیا جاتا۔ لیکن یہ جرمنی کے بہترین ہسپتالوں میں سے ایک تھا۔ اعلیٰ ترین ڈاکٹر اور سرجن اس کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے۔ ایک مصنوعی دل کے ذریعے اسے عارضی طور پر زندہ رکھنے کا بندوبست کر کے سارہ کو بتا دیا گیا کہ اب ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اذاک کو زندہ رکھنے کا نہیں ہے۔ اور اس کے لئے ایک عطیہ کیا ہوا ایسا تندرست دل چاہیے جو اذاک کے جسم سے مطابقت بھی رکھتا ہو۔
اذاک کی اس حالت میں تمام فیصلوں کا اختیار سارہ کے پاس تھا۔ اور یہ حادثہ اتنا بڑا اور اتنا اچانک تھا کہ اس کے لئے اپنے حواس پر قابو رکھنا بڑا مشکل ہو رہا تھا۔ پھر بھی اس نے پہلا کام تو یہ کیا کہ اسی ہسپتال میں اپنے لئے ایک کمرہ لے لیا تاکہ وہ ہر وقت وہاں موجود رہ سکے۔ ڈیوڈ بھی، جو پچھلے دو ہفتوں سے اپنی پڑھائی میں اتنا مصروف تھا کہ کسی سے مل بھی نہیں رہا تھا، وہیں آ گیا۔ اور ماں کے پوچھنے پر بولا ”یہ میرے باپ کی زندگی کا معاملہ ہے،
اس لئے میرا اس وقت یہاں ہونا زیادہ ضروری ہے۔ پڑھائی بعد میں بھی ہو سکتی ہے ”۔ سارہ نے بیٹے کو گلے سے لگا کر پیا ر کیا اور پھر دونوں مل کر حالات پر غور کرنے لگے۔ سارہ سب سے پہلے ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے بارے میں مذہبی رہنمائی حاصل کرنا چاہتی تھی۔ مگر پوری کوشش کے باوجود ان کا فادر ایرک سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔
فادر ایرک اپنے معاون کے ہمراہ روم گیا ہوا تھا، جہاں سے اسے کسی بڑے فائدے کی امید تھی۔ اسی لئے اس نے اپنا ٹیلی فون بند کیا ہوا تھا۔ اذاک کے حادثے کی خبر اسے مل چکی تھی، مگر وہ دانستہ رابطے میں نہیں آ رہا تھا۔ مبادا اسے اپنا کام ادھورا چھوڑ کر واپس آنا پڑے۔ اس کا خیال تھا کہ اگر اذاک مر جاتا ہے تو بھی اسے دفنانے میں کئی دن لگیں گے۔ اور اگر وہ کسی طرح بچ جاتا ہے تو پھر کوئی نقصان ہی نہیں۔ سو اس نے رابطہ منقطع رکھنا ہی مناسب سمجھا۔
سارہ نے دوسرے قریبی لوگوں کے علاوہ اذاک کی بہنوں سے بھی مشورہ کیا جو بھائی کو دیکھنے ہسپتال آئی ہوئی تھیں۔ جو چاہتی تو یہی تھیں کہ جیسے بھی ہو، بھائی کی زندگی بچنی چاہیے لیکن مذہبی رہنمائی کی ضرورت وہ بھی محسوس کر رہی تھیں۔ ایسے میں صرف ڈیوڈ ایسا شخص تھا جس نے باپ کی زندگی بچانے کو ہر مذہبی رہنمائی سے مقدم جانا۔ اس نے ماں اور دونوں پھوپھیوں کو بھی اپنا فیصلہ ماننے پر مجبور کر دیا۔ ان کے پاس اپنے تو چونکہ ایسے کوئی ذرائع تھے ہی نہیں، اس لئے ہسپتال کی انتظامیہ کو کہہ دیا گیا کہ وہ جیسے بھی اور جس قیمت پر بھی ہو سکے اذاک کے لئے دوسرا دل حاصل کریں۔
تین دن کی لگاتار کوشش کے بعد ، ہسپتال کی انتظامیہ ایک عطیہ کیا ہوا ایسا دل تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئی جو نہ صرف یہ کہ ایک تندرست آدمی کا تھا، بلکہ اذاک کے لئے معقول سائز کا بھی تھا۔ قیمت بے شک سارہ کے خیال میں بہت زیادہ تھی لیکن بچوں نے اسے مزید سوچ بچار کا موقع ہی نہیں دیا۔ سارہ کو صرف یہی خطرہ تھا کہ اگر نئے دل نے کام نہ کیا یا کسی اور وجہ سے آپریشن کامیاب نہ ہو سکا تو بہت سا پیسہ ضائع ہو جائے گا۔
تمام ضروری کارروائی کے بعد سرجنوں کی متعلقہ ٹیم اپنے کام پر جٹ گئی۔ کئی گھنٹے کے آپریشن کے بعد اذاک کے سینے میں یہ نیا دل لگا دیا گیا، اور اس نے اپنا کام بھی شروع کر دیا۔ مگر پھر بھی اس کے مکمل ہوش میں آنے تک ایک ہفتہ لگ گیا۔ ہوش میں آنے کے بعد ، پہلے تو اذاک کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اسے ہوا کیا تھا؟ اور وہ یہاں کیوں ہے؟ مگر جب ڈاکٹروں نے اسے تمام حالات سے آگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہو ا اور اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔
پھر اس کے بیوی بچوں کو اس سے ملنے کی اجازت ملی تو انہوں نے سارا ماجرا تفصیل سے بیان کیا۔ سارہ نے اسے یہ بھی بتایا کہ کیسے ڈیوڈ نے ایک بہادرانہ فیصلہ لیا جب باقی سب ابھی مذہبی ہدایات کے انتظار میں تھے۔ یہ سن کر اذاک سر تاپا ایک مسرت بخش احساس سے بھر گیا۔ اگلے دن اس کا ڈرائیور بھی وہیل چیئر پر اسے ملنے آیا۔ اس کے باقی زخم تو کسی حد تک بھر گئے تھے لیکن ٹانگوں پر چونکہ گہری چوٹیں آئی تھیں، اس لئے ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ ان کے ٹھیک ہونے میں ابھی کم ازکم پانچ چھ ہفتے اور لگ جائیں گے۔
اذاک کے حادثے کے دن سے لے کر، اس کے مکمل طور پر ہوش میں آ جانے تک، سارہ اور ڈیوڈ نے زیادہ سے زیادہ وقت ہسپتال میں ہی گزارا تھا۔ ملاقاتیوں کو چونکہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اذاک کو شیشے میں سے بھی دیکھ سکیں، اس لئے وہ سب سارہ اور ڈیوڈ سے ہی معلومات لے کر چلے جاتے رہے تھے۔ ماریہ اور سالمو بھی بار بار باپ کے بارے میں معلومات لینے آتے رہے تھے، لیکن سارہ نے انہیں ہسپتال میں رکنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ وہ نوکروں کے ساتھ آتے اور انہی کے ساتھ واپس چلے جاتے رہے تھے۔
اذاک کے مکمل طور پر ہوش میں آ جانے کے دوسرے دن ہی فادر ایرک اپنے تمام کام کامیابی سے نمٹا کر واپس پہنچا اور سامان گھر میں رکھنے کے فوراً بعد ہی اسے مبارک باد دینے ہسپتال آ گیا۔ اس نے تمام معلومات مکمل تفصیل سے حاصل کر لی تھیں۔ اس کی آمد کے وقت ڈیوڈ بھی وہیں موجود تھا۔
فادر ایرک نے بڑی گرمجوشی سے اذاک کو آپریشن کی کامیابی کی مبارکباد دی اور پھر بہت معذرت کا اظہار کیا کہ اسے حادثے کے وقت وہ ویٹی کن میں ایسی جگہ ٹھہرا ہوا تھا جہاں اسے اپنا ٹیلی فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ اس کے حادثے کی خبر سن کر ایک منٹ بھی وہاں رکتا۔ ”مجھے امید ہے کہ تم میرے حالات کو سمجھ گئے ہو گے!“
ڈیوڈ اس وقت فادر کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔
فادر نے دو لمحے کی خاموشی اختیار کی اور پھر جوش سے بولا ”لیکن دیکھا مائی سن! خدا نے کیسے عین تمہارے حادثے کے وقت وہاں ایک بڑی ایمبولینس بھیج دی اور کیسے تمہارا اتنا بڑا آپریشن کامیاب کر دیا۔ میں تمہیں بتاتا رہا ہوں کہ خدا ایک اچھے اور سچے عیسائی کا بہت خیال رکھتا ہے۔ ہم اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں، وہ اس کی نعمتوں کے مقابلے میں کم ہی ہوگا“
اذاک نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور دونوں نے مل کر ایک بار پھر خدا کا شکر ادا کیا۔ ڈیوڈ جو اب تک خاموش بیٹھا تھا، فادر ایرک سے مخاطب ہوا۔
”فادر! ابھی آپ نے میرے باپ کو ایک اچھا اور سچا عیسائی کہا ہے؟“
فادر ”بالکل! بالکل! اس میں تو کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں۔ اسی لئے تو میں ہمیشہ اس کے لئے دعائیں کرتا رہتا ہوں۔ دیکھو، آسمانی باپ نے ہماری دعاؤں کی لاج رکھی اور اذاک کو ایک نئی زندگی دے دی“
ڈیوڈ ”یہ تو میں بھی جانتا ہوں فادر، کہ میرا باپ ایک اچھا اور سچا عیسائی ہے۔ اور آپ کے کہنے کے مطابق، اسی لئے خدا نے عین حادثے کے موقع پر ایمبولینس بھیج دی، ایک عطیہ کیے ہوئے دل کا بندوبست کر دیا اور پھر ایسا انہونا آپریشن بھی کامیاب بنا دیا“ ۔
فادر ”ہاں! خد ا اچھے اور سچے عیسائیوں سے بہت پیار کرتا ہے“
ڈیوڈ ”فادر! اگر خدا اچھے اور سچے عیسائیوں سے اتنا پیار کرتا ہے، ان کا اتنا خیال رکھتا ہے تو پھر ذرا یہ تو بتائیے کہ و ہ ایسے بندوں کو اتنے خطرناک حادثات کا شکا ر ہی کیوں ہونے دیتا ہے؟“
فاد ر ”امتحان! مائی سن امتحان! خدا اپنے نیک بندوں کے امتحان بھی لیتا رہتا ہے“ ۔
ڈیوڈ ”وہ تو سب کچھ جانتا ہے فادر۔ اسے کسی کا امتحان لینے کی کیا ضرورت ہے؟“
فاد ر ”یہ اس کے کام ہیں مائی سن! تم انہیں نہیں سمجھ سکتے“
ڈیوڈ ”اگر آپ مجھے سمجھا نہیں سکتے فادر، تو مجھے ’نہ سمجھنے‘ کا الزام نہ دیں۔ آپ مانیں کہ آپ کو سمجھانا نہیں آتا یا پھر بات ہی سرے سے غلط ہے“
(فادر نے اذاک اور سارہ کی طر ف دیکھا اور دونوں نے ڈیوڈ کو ڈانٹ کر چپ کروا دیا۔ تو فادر پھر سے گویا ہوا)
فادر ”خدا تمہیں معاف کرے مائی سن، لیکن لگتا ہے تم بالکل گمراہ ہو چکے ہو“
ڈیوڈ کے پاس تو ابھی کئی دلیلیں تھیں اور وہ مزید سوالات بھی کرنا چاہتا تھا، مگر یہ سوچ کرخاموش رہا کہ ماحول میں تلخی آئے گی اور اس کے باپ کو تکلیف ہو گی۔ جب فادر نے دیکھا کہ ڈیوڈ خاموش ہو گیا ہے تو اس نے اپنے لہجے میں ہمدردی کے عنصر کو نمایاں کرتے ہوئے کہا
”تم پریشان مت ہو مائی سن! میں تمہارے لئے دعا کروں گا۔ تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے“
ڈیوڈ نے سوچا ”اگر میرے سوال کا جواب ملتا تو میری پریشانی ابھی دور ہو جاتی“۔ فادر ایرک نے اس کے بعد سارہ اور اذاک سے اجازت لی اور ڈیوڈ کی طرف دیکھے بغیر واپس چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد اذاک نے ڈیوڈ کو تنبیہ کی کہ وہ آئندہ سے فادر ایرک کے ساتھ اس طرح کی گستاخی کرنے سے باز رہے۔
ڈیوڈ بولا ”پاپا! بچپن سے لے کر اب تک، میں جن اساتذہ کے زیر تعلیم رہا ہوں، وہ ہمیں اکساتے ہیں کہ ہم سوال کریں۔ ہمارے ہر سوال کا تفصیل سے جواب دیتے ہیں اور اچھے سوال پر شاباش بھی۔ اگر ان کو ہمارے سوال کا صحیح جواب نہ آتا ہو تو ہمیں جھاڑ نہیں پلاتے بلکہ مان لیتے ہیں کہ اس وقت ان کے پاس ہمارے اس سوال کا درست جواب نہیں ہے۔ لیکن وعدہ کرتے ہیں اور پھر تلاش کر کے جواب لاتے ہیں اور ہماری تسلی ہونے تک سمجھاتے رہتے ہیں۔
فادر ایرک تو مذہبی رہنما ہیں۔ ان کی ذمہ داری تو اس ضمن میں او ر بھی بڑی ہے۔ لیکن انہوں نے مجھے جواب دینے کی بجائے مجھ پر گمراہی کا الزام دینا زیادہ آسان جانا۔ یہ سوچے بغیر کہ اس کا مجھ پر کیا اثر پڑے گا؟ میں آج کے بعد انہیں رہنما نہیں سمجھتا۔ ایسے لوگ ہی نوجوانوں کو مذہب سے دور کرنے کا باعث بن رہے ہیں“ اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
اذاک نے تعجب سے سارہ کی طرف دیکھا ”کیا ہو گیا ہے اس لڑکے کو؟ یہ ایسا تو نہیں تھا“
سارہ نے اسے تسلی دی ”کچھ نہیں ہوا ہے اسے۔ بس اس وقت ذرا جذباتی ہو رہا ہے۔ کیونکہ وہ ہم سب سے اور خاص طور پر آپ سے بہت پیار کرتا ہے۔ یقین کریں کہ اگر اس مصیبت کے وقت یہ میرے ساتھ نہ ہوتا تو شاید میں خود بھی کہیں گری پڑی ہوتی“ ۔
اذاک ”لیکن فادر ایرک کے بارے میں اسے یہ لہجہ نہیں اختیار کرنا چاہیے“
سارہ ”سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ اس کی فکر نہ کریں“
پھر سارہ اسے کچھ دوسرے لوگوں کے بارے میں معلومات دینے لگی۔
دو ہفتے وہاں مزید قیام کے بعد اذاک کو گھر جانے کی اجازت مل گئی۔
ڈاکٹروں کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے و ہ زندگی کے معمولات میں حصہ لینے لگا، اور اس نے اتوار کو چرچ جانا بھی شروع کر دیا۔ البتہ اب ڈیوڈ ان کے ساتھ چرچ نہیں جاتا تھا۔ جب ایک دن اذاک نے اسے سخت الفاظ میں چرچ جانے کے لئے کہا تو وہ بولا
”پاپا! آپ مجھے زبردستی چرچ لے جانے کی کوشش مت کریں۔ میں اب وہاں نہیں جانا چاہتا۔ اگر آپ مجھ پر دباؤ ڈالیں گے تو میں آپ کا گھر چھوڑ دوں گا۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے“ ۔
اذاک اس وقت خاموشی سے چلا گیا۔ بعد میں اس نے سارہ سے مشورہ کیا تو اس نے بھی یہی رائے دی کہ اگر وہ نہیں چاہتا تو اسے مجبور نہ کیا جائے۔ ورنہ وہ گھر چھوڑ کر ریاست کی طرف سے ملنے والی کسی ہائم میں چلا جائے گا، اور سوسائٹی میں ہماری بہت بے عزتی ہو گی۔ اذاک کو بھی بات سمجھ آ گئی اور اس نے پھر کبھی ڈیوڈ کو چرچ جانے کے لئے نہیں کہا۔
مگر تین سال بعد ماریہ نے، جو میڈیسن کی ہائر کلاس میں پہنچ چکی تھی چرچ جانا کم کر دیا۔ مزید تین چار سال بعد سالمو نے بھی یہی رویہ اپنا لیا۔ وہ بھی اب یونیورسٹی میں تھا اور ایسٹروفزکس (Astrophysics) کا سٹوڈنٹ تھا۔ آخر میں یہ حالات ہو گئے کہ کبھی کبھی سارہ بھی یہ بہانہ کر کے گھر رہ جاتی کہ آج بچوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ اور اذاک کو اکیلے ہی چرچ جانا پڑتا۔ بیوی بچوں کے بغیر چرچ آنے پر اسے دوسرے لوگوں کی آنکھوں کے طنزیہ سوالات کی اذیت بھی برداشت کرنا پڑتی تھی۔
اس کا ہارٹ ٹرانسپلانٹ ہوئے اب دس سال گزر چکے تھے۔ اس کی صحت بھی اب بہت اچھی تھی۔ وہ ہلکے پھلکے کھیلوں میں حصہ لیتا اور لمبی واک پر بھی جاتا تھا۔ اتوار کے دن لوگوں کے چرچ پہنچنے میں وہ اب بھی اسی طرح مددگار ثابت ہو رہا تھا اور چرچ کی نگہداشت وغیرہ پر ہونے والے اخراجات میں بھی اس نے ابھی تک کوئی کمی نہیں کی تھی۔ فادر ایرک کے ساتھ بھی مہینے میں کم ازکم ایک بار ضرور اتوار کی عبادت کے بعد علیحدہ سے میٹنگ ہو جاتی تھی۔ اس کی پراپرٹی اور کھیتی باڑی کے سب کام بھی ٹھیک چل رہے تھے۔ لیکن اب اس کا یہ احساس بڑھتا جا رہا تھا کہ پورے گھر میں وہ اکیلا ہی مذہبی پابندیوں کا خیال رکھتا ہے۔ باقی سب مذہب سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ اس کے لئے یہ بہت دکھ کا مقام تھا۔ آخر ایک دن اس نے اپنے اس دکھ کا اظہار فاد ر ایرک سے بھی کر دیا۔
فادر ایرک تو جیسے اسی موقع کے انتظار میں تھا۔ وہ اذاک کو چرچ کے پیچھے بنے ہوئے اپنے کمرے میں لے گیا۔ اسے کافی پلائی اور بولا
”مائی سن! میں تو تمہیں کتنے سالوں سے اس اذیت کو برداشت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور صحیح پوچھو تو تمہاری اس تکلیف کو میں خود اپنے دل پر محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے بہت غور کیا ہے کہ آخر تم نے ایسا کون سا گناہ کیاہے کہ جس کی تمہیں یہ سزا مل رہی ہے۔ بغیر کسی گناہ کے تو خداوند تمہارے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شاید یہ جو تمہارے سینے میں کسی اجنبی کا دل دھڑک رہا ہے، یہی تمہارا گناہ ہے۔
شاید یہ کسی گناہ گار آدمی کا دل ہے۔ دیکھو نا! اس ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے فوراً بعد ہی پہلے تمہارا بڑا بیٹا گمراہی کا شکار ہوا۔ پھر ایک ایک کر کے دوسرے بچے اور اب تمہاری بیوی بھی ”۔
کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد فادر پھر گویا ہوا
”عام طور پر جب ہم سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو ہم اپنے آسمانی باپ سے اس گناہ کی معافی مانگتے ہیں اور وہ ہمیں معاف کر دیتا ہے۔ مگر تمہارے ضمن میں تو ابھی ہمیں یہی خبر نہیں گناہ ہے کیا؟ اس لئے بہتر ہو گا کہ تم پہلے پتہ کرو، تمہارے سینے میں یہ کس آدمی کا دل دھڑک رہا ہے؟ وہ کون تھا؟ کتنا دیندار یا بے ایمان تھا؟ پھر ہی ہم معافی یا توبہ کے لئے رجوع کر سکتے ہیں“ ۔
اذاک جو پوری توجہ سے فادر ایرک کی باتیں سننے کے ساتھ ساتھ سارے معاملے پر غور بھی کر رہا تھا، خود بھی اسی نتیجے پر پہنچا کہ ہو نہ ہو، یہ سب اس نئے دل کی وجہ سے ہی ہو۔ مگر پھر فاد ر ایرک کے کہنے پر اس نے ضروری سمجھا کہ پہلے اس دل کے پرانے مالک کے بارے میں پتہ کرے۔ سو وہ وہاں سے تو فادر ایرک کا شکریہ ادا کر کے چلا آیا، مگر گھر آتے ہی اس نے سب سے پہلے سارہ کو علیحدگی میں اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔
لیکن سارہ بھی صرف اتنا ہی جانتی تھی کہ یہ ”دل“ کسی مرنے والے نے اپنی موت سے بہت پہلے کسی رفاہی ادارے کو عطیہ کر دیا تھا۔ جو ہسپتال کی انتظامیہ نے اس ادارے سے بھاری رقم کے عوض خریدا تھا۔ لیکن یہ دل کس مرد یا عورت کا تھا؟ اس کا رنگ، نسل، مذہب کیا تھا؟ وہ کوئی یورپین یا امریکن تھا یا اس کا تعلق ایشیا یا افریقہ کے کسی ملک سے تھا؟ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ اذاک کو یہ سن کر بہت غصہ آیا۔ ”تم نے یہ سب جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
“ و ہ ذرا اونچی آواز میں بولا۔ لیکن اب اس کے سامنے وہ دس سال پہلے والی سارہ نہیں تھی، جو اس کے ذرا اونچا بولنے پر ہی سہم جایا کرتی تھی۔ یہ سارہ اب تین جوان بچوں کی ماں تھی، جو سب اپنی اپنی فیلڈ میں اچھے کامیاب تھے اور ماں سے بہت پیار کرتے تھے۔ اس نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔ ”میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ اس وقت تمہاری زندگی بچانے کا یہ واحد ذریعہ تھا۔ اور تمہاری زندگی بچانے کے لئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔ اگر و ہ اس انسانی دل کی بجائے کسی سؤرکا دل لگا کر بھی تمہیں زندہ رکھ سکتے تو میں اس کی اجازت دے دیتی۔ تمہیں اگر اس دل سے ایسا ہی کوئی مسئلہ ہے تو جاؤ اور اپنی مرضی کا دل ٹرانسپلانٹ کروا لو“ ۔
”میں صرف اس دل کے بارے معلومات چاہتا ہوں اور تم بات کو کہاں سے کہاں لے گئی ہو“ اذاک نے اپنے طور پر وضاحت کی۔
”تو پھر جا کر ہسپتال سے پوچھو۔ شاید وہ تمہیں کچھ بتا دیں“
بیو ی کی معلومات سے مایوس ہو کر اذاک نے ہسپتال کی انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ مگر انتظامیہ کے پاس تو خود ہی کوئی معلومات نہیں تھیں سوائے اس رفاہی ادارے کے نام کے۔ پھر وہ نام بھی صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا۔ سو اذاک کو ہسپتال سے رابطہ کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ مگر یہ مسئلہ اب اس کے دماغ میں اٹک گیا تھا۔ اس لئے اس نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ واقفیت، رشوت یا جو بھی کوئی اور طریقہ وہ استعمال کر سکا اس نے استعمال کیا۔ یوں بالآخر وہ اس رفاہی ادارے کا نام جاننے میں کامیاب ہو گیا، جس کا تعلق جنوبی افریقہ سے تھا۔ اس نے انٹرنیٹ کی مدد سے اس کا پورا پتہ حاصل کرنا چاہا مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔
ڈیوڈ اس وقت تک ایک مقامی یونیورسٹی میں لیکچرارکے فرائض انجام دے رہا تھا۔ اس نے تاریخ اور نفسیات، دو مضامین میں ڈگریاں حاصل کی تھیں اور اب نفسیات پڑھا رہا تھا۔ لیکن یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے سربرا ہ پروفیسر سمرمن بھی اسے بہت سراہتے تھے، کیونکہ اس نے تاریخ کے کچھ خاص مسائل حل کرنے میں پروفیسر سمرمن کی بہت مدد کی تھی۔ جب ڈیوڈ کو باپ کی پریشانی کی خبر ملی تو اس نے باپ کو بتایا کہ اس کے کچھ دوست جنوبی افریقہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں، اور وہ اس ضمن میں ان سے مدد حاصل کر سکتا ہے۔
اذاک جو پچھلے کئی سالوں سے ڈیوڈ کے ساتھ بات بھی کم ہی کرتا تھا، مجبوراً اس آفر کوقبول کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ مگر جو معلومات اذاک کو درکار تھیں، انہیں حاصل کرنے کی کرید میں رہا۔
ڈیوڈ نے نرمی سے اسے بتانا چاہا ”میرے خیال میں تو آپ بالکل غلط سوچ رہے ہیں“
”تم تو کچھ بھی کہہ سکتے ہو۔ کیونکہ تمہارا مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں رہ گیا۔ تم برائے نام عیسائی ہو اور بس“
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں عیسائیت سے بہت دور جا چکا ہوں۔ اور اس کی وجہ میری تعلیم ہے۔ جس نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ لیکن اگر میں پکا عیسائی بھی ہوتا تو بھی میں آپ کو یہی کہتا کہ آپ کی زندگی بچانے کے لئے دل کی یہ تبدیلی کسی طرح بھی غلط نہیں ہے اور نہ ہی اس وجہ سے آپ گنہگار ہو سکتے ہیں“ ۔
”تمہیں کیا پتہ ہے گناہ و ثواب کا؟ تم تو شاید کسی بات پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ پتہ نہیں خدا کو بھی مانتے ہو کہ نہیں!“
”میں اپنے ایمان اور اعتقاد کی بات نہیں کر رہا ہوں پاپا! میں تو ایک آفاقی سچائی کا ذکر کر رہا ہوں۔ جس کی رو سے آپ نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ میرے نقطہ نظر سے اس کا کوئی تعلق نہیں“ ۔
”اچھا! اب بات چل ہی نکلی ہے تو ذرا اپنا نقطہ نظر بھی بتا دو“
”میں نے تاریخ اور نفسیات دو مضامین میں ماسٹرز کیا ہے۔ اب یونیورسٹی میں نفسیات پڑھاتا ہوں۔ بے شک ابھی بہت جونیئر ہوں لیکن تاریخ کی اچھی سدھ بدھ رکھتا ہوں اور اب میرا نقطہ نظریہ ہے کہ یہودیوں نے بابیلون کی دیو مالا اور زرتشت کے مذہب سے بہت سا مواد چوری کر کے اپنی کتابوں میں اپنے لوگوں کے نام سے شامل کر لیا ہے۔ اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ عیسائی مفکرین نے بھی بغیر تحقیق کیے اس کا بہت سا حصہ ’عہد نامہ قدیم‘ میں رکھ لیا ہے۔
لیکن یہ میرا نقطہ نظر ہے۔ اور ہم لوگ انتہائی تحقیق کے بعد بھی اپنے کسی نظریے کو حرف آخر نہیں سمجھ لیتے۔ اگر کوئی شخص دلائل سے میرے نظریے کو جھٹلائے گا تو میں اس کی بات مان لوں گا۔ اور اب آئیے گناہ و ثواب کی طرف۔ تو عیسائیت کی کسی بھی کتاب میں نہیں لکھا کہ آپ اپنے علاج کے لئے کوئی دوا استعمال کر کے گناہ گار ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے بعد آپ گناہ گار ہو گئے۔ اگر آپ کچھ مزید جاننا چاہتے ہیں تو کسی میڈیکل ڈاکٹر سے پوچھیے۔
اور کسی اور سے کیوں؟ آپ یہ بات ماریا سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔ وہ آپ کی بیٹی ہے، آپ سے بہت پیار کرتی ہے، آپ کو کچھ غلط نہیں بتائے گی۔ خود مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایسے ملک میں پیدا ہوا ہوں، جہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ جہاں ریاست اور حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ ہر شہری کو اپنا مذہب اختیار کرنے اور اس کی رسومات ادا کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔ میں اگر آپ کے طے شدہ مذہبی راستے پر چلتا نہیں ہوں تو میں اس میں رکاوٹ بننے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ اچھا ہے کہ اب آپ دماغ سے سارا بوجھ ہٹا کر کچھ دیر آرام کریں۔“
”خیر ذرا مجھے یہ تو بتاؤ کہ تم لوگ جو ذرا سائنس کے چار حرف پڑھ لیتے ہو، چرچ سے کیوں دور ہو جاتے ہو؟“
”کیا آپ بھول گئے کہ جب تک چرچ کے پاس اختیار تھا تو چرچ نے سائنسدانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ اور کیا اب یہ بھی آپ کو یاد دلانا پڑے گا کہ جب تک چرچ اور حکومت کو علیحدہ نہیں کیا گیا، تب تک پورا یورپ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا؟“
اذاک بے شک ڈیوڈ کی بات کو کسی حد تک سمجھ گیا تھا، مگر ایسا کوئی اقرار کرنے کے لئے ابھی قطعی طور پر تیار نہیں تھا۔ بولا
”اپنی گمراہی کا اقرار کرنے کی بجائے، تم لوگوں نے مادی ترقی کا نعرہ ایجاد کر کے، اس کے پیچھے پنا ہ لے لی ہے۔ مگر یہ صرف مادی ترقی ہے۔ روحانی طور پر تم پستیوں میں گرتے جا رہے ہو۔ آخر میں تم لوگوں کو بہت پچھتانا پڑے گا“
”پھر بھی آپ یقین رکھیئے۔ اگر ایسا کچھ ہوا بھی تو ہم آپ سے مدد کی بھیک مانگنے کے لئے نہیں آئیں گے؟“
جواب میں اذاک خاموش رہا۔
اذاک نے ایک سفید فام عیسائی کی حیثیت سے اس نے اپنی انا کا جو ایک عظیم بت بنا رکھا تھا، اب وہ اسے پاش پاش ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔
ڈیوڈ چونکہ اس کی ذہنی حالت کو سمجھ رہا تھا، اس لئے اس نے بھی کوئی تردد نہ کیا۔ گھر پہنچنے کے بعد ، اذاک نے سارہ اور ماریہ سے سلام دعا لی اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ سالمو تو ان دونوں کی غیر موجودگی میں ہی امریکہ جا چکا تھا۔
ڈیوڈ نے سارہ اور ماریہ کو ساری روداد سنا دی۔ اس لئے انہوں نے بھی خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا۔ یہاں تک کہ ایک کمرے میں ہونے کے باوجود سارہ نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا۔ اذاک صرف رات کا کھانا کھانے کے لئے ڈائننگ ٹیبل تک آیا۔ بے دلی سے تھوڑا بہت کھایا اور پھر جا کر اپنے بستر پر دراز ہو گیا۔
لیکن دوسرے دن صبح اس نے ضروری سمجھا کہ ماریہ کے خیالات سے آگاہی حاصل کرے۔ سو وہ اپنی سٹڈی میں گیا اور اس نے ماریہ کو بلوایا۔
ماریہ جو ہسپتال جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی، فوراً آ گئی۔
اذاک نے بغیر کسی تمہید کے پوچھا ”تمہارا مذہب کیا ہے؟“
ماریہ ”میں ایک عیسائی ہوں“
اذاک ”کیوں؟“
ماریہ ”اس لئے کہ میں ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئی ہوں“
اذاک ”اور بس؟“
ماریہ ”جی! اور اس سے زیادہ میں کیا کہہ سکتی ہوں؟“
اذاک ”اور سائنس کے بارے؟“
ماریہ ”جی تھوڑا بہت“
اذاک ”اور مذہب کے بارے کیوں نہیں؟“
ماریہ ”اس لئے کہ مذہب ایمان کا مسئلہ ہے، اور ایمان تو شروع ہی ایمان لانے سے ہوتا ہے۔ اس میں سوال جواب کہاں؟ جبکہ سائنس کی ہر عمارت عقل کی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے۔ اور عقل، عقل تو اس کڑوی گولی کی طرح ہے، جو ہم دوا کے طور پر مریض کو دیتے ہیں۔ جس سے اس کے مرض کا علاج ہوتا ہے۔ عقل، خواب و خیال سے نہیں کھیلتی اور نہ ہی جنوں پریوں کی کہانیوں سے بہلتی ہے۔ اسے صرف ٹھوس اور زندہ دلائل سے ہی چپ کروایا جا سکتا ہے۔ یا پھر یہ خود تجربات کر کے مانتی ہے“ ۔
اذاک ”تمہیں خبر بھی ہے، تم کیا کہہ رہی ہو؟ تم خد ا اور اس کے بیٹے کا ابطال کر رہی ہو اور ان کے احکامات سے انکار۔ تم سب شیطان کے غلام ہو چکے ہو، شیطان کے۔ دیکھ لینا جہنم کی آگ میں جلو گے۔ کوئی نہیں بچا سکے گا تمہیں۔ اور میں کتنا پاگل ہوں، اتنے اہم مسئلے پر تمہاری رائے جاننا چاہتا ہوں!“
ماریہ ”آپ اچھی طرح جانتے ہیں پاپا، کہ میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔ میں کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتی جس سے آپ کا دل دکھے۔ اس لئے اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو آپ مجھے معاف کردیں۔ آپ نے جو پوچھا، میں نے دیانتداری سے اس پر اپنا نقطہ نظر بتا دیا۔ لیکن یہ میرا نقطہ نظر ہے۔ میں نے آپ سے یہ تو نہیں کہا کہ آپ بھی سوچ کا یہی انداز اختیار کریں۔ اور مجھے یہ کیسے علم ہو کہ آپ اصل میں جاننا کچھ اور چاہتے تھے؟“
اذاک ”ہاں! میرا اصل سوال کچھ اور ہے“
ماریہ ”تو پھر پہلے اصل سوال بتایئے!“
اذاک ”میں جاننا یہ چاہتا ہوں کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ سے کیا اس آدمی کے خیالات، اس کا ایمان اور اس کے گناہ بھی میرے جسم کا حصہ بن چکے ہیں؟“
ماریہ ”میڈیکل سائنس کی رو سے تو بالکل نہیں۔ کیونکہ دل کا کام انسان کے جسم میں خون کی گردش کو قائم رکھنا ہے۔ انسان کے خیالات سے، اس کے ایمان سے، گناہ ثواب سے دل کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ خون کی گردش کے علاوہ دل انسان کے خیالات اور محسوسات کے لئے ایک فلم سکرین کی طرح کام کرتا ہے۔ جیسے، جب ہم سینما میں فلم دیکھنے جاتے ہیں تو فلم پردہ سکرین پر دیکھتے ہیں۔ جبکہ اصل فلم تو پراجیکٹر میں ہوتی ہے۔ وہاں سے فلم کا عکس پردہ سکرین پر پڑتا ہے اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ فلم پردہ سکرین پر چل رہی ہے۔
اسی طرح ہمارے خیالات، محسوسات، ہمارا دین ایمان، محبت نفرت سب دماغ میں ہوتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے، یہ ہمار ے دل میں ہیں۔ میں آپ کو صرف اتنا ہی بتا سکتی ہوں۔ زیادہ اچھا ہو گا کہ آپ یہ سوال ’پروفیسر ڈاکٹر مارک فشر‘ سے کریں۔ جو آپ کی سرجری ٹیم کے سربراہ تھے۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان سے آپ کے لئے ملاقات کا وقت لے لیتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ آپ کو زیادہ تسلی بخش جواب دے سکیں گے“
اذاک ”ہاں! شاید یہی بہتر رہے گا“
خوش قسمتی سے پروفیسر ڈاکٹر مارک فشر سے دوسرے ہی دن کا وقت مل گیا۔
اذاک وقت مقررہ پر وہاں پہنچا تو پروفیسر فشر اسے بہت تپاک سے ملا۔ چونکہ ماریہ نے پروفیسر کو اصل معاملے کے بارے تفصیل سے آگاہ کر دیا تھا اس لئے اس نے بھی براہ راست گفتگو کرنا ہی مناسب سمجھا۔
”مجھے ماریہ نے آپ کی تشویش کے بارے بتایا ہے۔ اگر آپ جنوبی افریقہ جانے سے پہلے ہی مجھے مل لیتے تو شاید آپ کو وہاں جانا ہی نہ پڑتا۔ خیر یہ بھی اچھا ہی ہوا۔ اب آئیے اصل موضوع کی طرف۔ میں نے بہت سے ہارٹ ٹرانسپلانٹ کیے ہیں۔ اور یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی کا دھیان اس معاملے کی طرف اس انداز سے گیا ہے جیسا کہ آپ کا۔ ہم سرجری سے پہلے صرف یہ دیکھتے ہیں کہ نیا دل اتنا تندرست ہے جتنی کہ ہمیں ضرورت ہے؟ اور خاص طور پر اس کے سائز پر غور کرتے ہیں۔
ہماری بنیادی ضرورتیں بس یہی ہوتی ہیں۔ یہ عطیہ کہاں سے آیا ہے؟ کس کا ہے؟ اس کا رنگ نسل یا ایمان کیا ہے؟ ہم کبھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیونکہ دل کا ایسی کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آپ کوماریہ نے جو بتایا ہے وہ بالکل درست ہے۔ میں خود ایک عیسائی ہوں اور اگر میں ڈیوٹی پر نہ ہوں تو ہر اتوار کو چرچ بھی ضرور جاتا ہوں۔ میں نے انجیل بھی پڑھی ہے مگر میں مذہب کو سائنس کے معاملات سے علیحدہ رکھتا ہوں۔
میرے نزدیک مذہب کا تعلق یا تو انسانی اخلاقیات سے ہے یا پھر موت کے بعد کی زندگی سے۔ مذہب کا ایک اور بڑا احسان بھی ہے کہ اس نے ہمیں کیلنڈر دیا ہے۔ جس نے ہماری زندگیوں میں ترتیب پیدا کی ہے۔ لیکن سائنسی علوم سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اور سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی دل کا مذہب یا دوسرے خیالات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ خیالات اور اعتقادات سب انسان کے دماغ میں قیام کرتے اور وہیں پرورش پاتے ہیں۔ دل کا کام خون کی گردش کو قائم رکھنا ہے۔
آپ کے خیالات سے، دکھ درد سے یا خوشی سے دل کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ کسی کمپیوٹر میں ایک مونیٹر کا اپنی ہارڈ ڈسک سے ہوتا ہے۔ یعنی دل صرف سکرین کا کام کرتا ہے۔ واقعات، خیالات، علم اعتقاد یہ سب انسان کے دماغ یعنی ہارڈ ڈسک میں ہوتے ہیں۔ جس طرح مونیٹر بدلنے سے کمپیوٹر کے اندر کا مواد نہیں بدل جاتا، اسی طرح دل بدلنے سے انسان کے خیالات یا اس کے دین ایمان میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اور جہاں تک ایک آرگن کے طور پر دل کی بناوٹ کا تعلق ہے، تو رنگ و نسل، زبان، اعتقاد تو دور کی بات ہے، اس میں تو عورت مرد بھی نہیں ہوتا۔ بے شک عمر اور انسان کی باقی صحت کے اثرات اس پر ضرورہوتے ہیں۔ اب اگر آپ کو ضرورت ہو تو یہ سب کچھ جو میں نے آپ کو زبانی بتایا ہے، لکھ کر دینے کو بھی تیار ہوں“ ۔
اذاک ”نہیں نہیں، اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ بات میری سمجھ میں آ گئی ہے اور میرے دل سے ایک بڑا بوجھ ہٹ گیا ہے، آپ کا بہت بہت شکریہ“
اور وہ پروفیسر سے اجازت لے کر چلا آیا
باہر نکلتے ہی اس نے فادر ایرک کو فون کیا جو کسی کام کے سلسلے میں اس وقت چرچ میں تھا۔ اذاک نے اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو اسے چرچ میں آنے کے لئے کہا گیا۔
اذاک گھر جانے کی بجائے، پہلے سیدھا فادر ایرک کے پاس چرچ میں پہنچا۔
فادر ایرک اور اس کا ایک معاون اس کا انتظار کر رہے تھے۔
تینوں فادر ایرک کے کمرے میں چلے گئے۔ معاون نے کافی بنائی۔ تینوں کافی پینے لگے۔ فادر ایرک نے اب مناسب سمجھا کہ اذاک سے اس کے آنے کا مقصد دریافت کرے۔ اس نے اذاک کو مخاطب کیا ”مائی سن! یقیناً کوئی کا م ہو گا جو تم نے مجھ سے ملنے کی خواہش کی، اور یوں اتوار کے علاوہ کسی دن یہاں آئے۔ بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟“
”جی فادر! ایسا ہی ہے“ اذاک نے کہا اور اس نے ساری کہانی تفصیل کے ساتھ اسے سنا دی اور پھر سوال کیا کہ کیا فادر کے خیال میں وہ اب بھی گناہ گار ہے؟
فادر نے کہا ”ہاں! کیونکہ تم نے جو بھی حوالے دیے ہیں وہ ظاہری زندگی کے ہیں یا پھر سائنس کے۔ جبکہ ہمارا واسطہ انسان کی باطنی اور روحانی زندگی سے ہے۔ جہاں تک عام آدمی کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔ اور تمہاری سائنس، یہ تو روحانیت کی روح تک سے واقف نہیں ہے۔ البتہ اچھی بات یہ ہے کہ تم جان گئے ہو، بات کہاں سے بگڑنی شروع ہوئی۔ اگر تم چاہو تو میں اپنے سینیئرز سے رابطہ کر کے جاننے کی کوشش کروں کہ اب نجات کا کیا راستہ ہے؟ معافی کیسے ہو سکتی ہے؟“
”جی آپ پتہ کیجئے“ اذاک نے نہ چاہتے ہوئے بھی کہہ دیا ”میں اتوار کو آؤں گا“ اور پھر ان سے اجازت لے کر چلا آیا۔
اذاک کے جانے کے بعد فادر ایرک کے معاون نے فکر مند لہجے میں فادر پر اپنا نقطہ نظر ظاہر کرتے ہوئے کہا
”اس پورے علاقے میں اذاک ولہم ہی ایک ایسا شخص ہے جو ہمارے ذاتی مسائل کو ہمدردی سے دیکھتا اور ہر وقت ہماری مدد کے لئے تیار رہتا ہے۔ صرف اس کی طرف سے ملنے والی امداد ہی ہمارا ایسا سرمایہ ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں دینا پڑتا۔ اب اگر آپ اسے اتنا دبائیں گے تو عین ممکن ہے کہ وہ باغی ہو جائے۔ جبکہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے، آپ اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ اس کا موقف حقیقت اور سچائی پر مبنی ہے۔ اگر وہ آپ کے آج والے رویے سے ناراض ہو گیا تو ہم ایک اچھی خاصی اسامی سے محروم ہو جائیں گے“
”بات تو تمہاری ٹھیک ہے“ فادر ایرک کو بھی احساس ہوا ”مگر فوراً اس کو بے گناہ قرار دینے سے بھی تو ہمارے پلے کچھ نہیں رہتا۔ آخر ہمیں چرچ کا دفاع بھی تو کرنا ہے“
”پہلے اپنا دفاع فادر ایرک، پہلے اپنا دفاع۔ اتنے طاقتور آدمی کا کسی اور صف میں شامل ہو جانا کسی طرح بھی ہمار ے حق میں نہیں جاتا۔ نہ ہمارے ذاتی حق میں نہ چرچ کے حق میں۔ میرا آپ کو یہی مشورہ ہے کہ آئندہ ملاقات میں اس کی بے گناہی کا اعلان کر کے، اس کے خدشات دور کر دیجئے“
”ٹھیک ہے! میں کوئی ایسا راستہ تلاش کر تا ہوں، جس میں ہماری بھی عزت رہ جائے“ فادر ایرک نے جیسے ہتھیار ڈال دیے۔
ادھر اذاک کے گھر میں شام کے وقت جب ماریہ اور ڈیوڈ بھی موجود تھے اور سارہ بھی دیگر کاموں سے فراغت حاصل کر چکی تھی، اذاک نے پروفیسر اور فادر والی ملاقات حرف بہ حرف ان سے بیان کر دی، اور ان کی رائے طلب کی۔
ماریہ نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہر حال میں ساتھ دینے کے لئے تیار ہے اور وہ باپ کو کسی صورت بھی اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ سارہ نے بھی ایک طرح سے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کے تو اب بس چند سال ہیں۔ پھر وہ شادیاں کر کے علیحدہ زندگیاں گزارنا چاہیں گے اور ہم دو بوڑھے ہی رہ جائیں گے اس بڑے سے گھر میں۔ پھر اگر آپ چاہیں گے تو میں ہر اتوار کو آپ کے ساتھ چرچ جایا کروں گی۔
لیکن ڈیوڈ کا موقف بالکل مختلف تھا۔
”میرے خیال میں سب سے پہلے آپ کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے شہری ہیں، جہاں کا آئین آپ کو اس ضمن میں مکمل آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ آپ تیسری دنیا کے کسی ایسے ملک کے باشندے نہیں ہیں جہاں آپ کے ذاتی عقائد کا فیصلہ بھی ریاست یا حکومت کے ہاتھ میں ہو۔ اگر آپ چرچ کے ساتھ ویسے ہی منسلک رہنا چاہتے ہیں جیسے کہ آپ اب تک رہے ہیں تو ویسا کیجئے جیسا کہ فادر ایرک آپ کو ہدایت دیں۔ آپ کوئی مذہبی رہنما نہیں ہیں، آپ صرف ایک پیروکار ہیں۔ آپ کا ضمیر آپ کا ساتھ دے، آپ کے لئے یہی کافی ہے۔ ہمیں آپ صرف اپنے فیصلے سے آگاہ کیجئے۔ ہم آپ کے فیصلے کا احترام کریں گے“
”میں نے بچپن سے لے کر اب تک ہمیشہ چرچ کے احکامات کی پابندی کی ہے۔ میں اول و آخر ایک مذہبی آدمی ہوں۔ میں عیسائیت سے ہٹ کر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا“ ۔ اذاک نے اپنا فیصلہ دے دیا۔
ڈیوڈ نے فوراً اس کا ہاتھ تھاما ”آپ کی خوشی میں ہی ہماری خوشی ہے۔ بس آپ ہمیں مجبور مت کیجیئے گا“
”نہیں ایسا نہیں ہو گا“ اذاک کے لہجے میں سچائی کی طاقت تھی۔
اور پھر اتوار کو اذاک ولہم چرچ پہنچا تو فادر ایرک کے معاون نے اس کا استقبال کیا۔ اور عبادت شروع ہونے سے پہلے ہی اسے فادر ایرک کے پاس لے گیا۔ فادر نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ اس سے ہاتھ ملایا اور اسے نوید دی ”مائی سن! میں نے اپنے سینیئرز سے بات کی ہے۔ اور تمہیں یہ بتاتے ہوئے مجھے انتہائی خوشی ہو رہی ہے کہ ان سب کے خیال میں تم نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اس لئے تمہیں کسی معافی کی ضرورت نہیں ہے۔ تم ہمارے لئے آج بھی اتنے ہی معتبر ہو، جتنے کہ اس دل کی تبدیلی سے پہلے تھے۔ ہم آج کی عبادت کے بعد تمہارے لئے خصوصی دعا کریں گے“
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...