مشرف کے ساتھ نواز شریف کی ڈیل میں مجید نظامی اور میں شامل تھے *پاکستان سٹیل ملز کا چیئرمین عثمان فاروقی ہر مہینے زرداری کو ایک کروڑ پہنچاتا *قومی اتحاد کی ایجی ٹیشن اور بھٹو کی پھانسی کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا *ایجی ٹیشن کے دوران مولانا مودودی کے نام 30لاکھ کا غیر ملکی چیک میں نے پکڑا*جماعت اسلامی کے دو اہم آدمی ہمارے لیے انٹیلی جنس کرتے اور پیپلز پارٹی کے تین جیالے بھی *کوثر نیازی تنخواہ پر کام نہیں کرتے تھے۔ کوئی کام کروالیتے تھے۔
مولانا غلام غوث ہزاروی ہم سے پانچ سو روپیہ مہینہ لیتے تھے۔ جب میں نہیں پہنچاتا تھا خود لینے کے لیے آجاتے۔ کام کا بندہ وہی ہوتا ہے جو تھوڑی بہت مخالفت کرے اور اندر خانے حکومت کے لیے کام کرے۔
جب بھٹو صاحب پر مقدمہ چل رہا تھا تو پیپلز پارٹی کے تین جیالے امان اللہ خاں، غیاث الدین جانبازاور امیر حبیب اللہ سعدی ہمارے لیے مخبری کرتے۔ انہیں ہم نے سمن آباد کوٹھی لے دی تھی اور سہولتیں بھی فراہم کردی تھیں۔
شیخ محمد رشید شیخوپورہ میں عورت بن کے دودھ بلو رہے تھے۔ انہی کی مخبری پر پکڑے گئے۔
مولوی مشتاق کی عدالت میں بم چلانے کی منصوبہ بندی بھی انہی جیالوں نے ہمیں بتائی۔
نواب کالا باغ کو شراب اور عورت سے نفرت تھی۔ چودہری ظہورالٰہی کو انہوں نے حوالداری پر بحال کرکے ڈیوٹی پر طلب کر لیا تھا۔
مرتضیٰ بھٹو نے آصف علی زرداری کی ایک مونچھ کٹوادی۔ دوسری انہوں نے خود منڈوادی۔ بے نظیر نے زرداری سے مرتضیٰ بھٹو کو صرف پھینٹی لگانے کا کہا تھا ۔
فاروق لغاری بے نظیر کی حکومت ختم نہ کرتے تو ایک اہم آدمی قتل ہوجانا تھا۔
جو ارب پتی بھاگ گیا اس کی سفارش چودھری شجاعت نے کی۔
میں قاسم بھٹی کے گھر مقیم رہا۔ وہاں آٹھ من سونا زمین میں دفن تھا۔
عبداللہ ملک اور پروفیسر ایرک سپرین اوپر کے لیول کے تھے، ڈائریکٹر انٹلی جنس بیوروکو ملنے والے۔ ایرک سپرین کمیونزم کے متعلق میرا سورس تھے۔ دو دفعہ میں نے انہیں ماسکو کے لیے ٹکٹ لے کے دیا۔
ایک جج دونوں پارٹیوں سے پیسے لیتا تھا لیکن فیصلہ انصاف پر کرتا تھا۔ ہارنے والے کے پیسے واپس کردیتا تھا۔
نواب صادق حسین قریشی کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے نواز شریف نے اس کے نام 35کنال کی سفارش کردی۔ اقبال ٹکا نے راتوں رات 35کنال پر قبضہ کرلیا۔
نواز شریف نے ایم این ایز کے لیے سارے مالشیے ہالی ڈے اِن میں جمع کرلیے تھے.
بھٹو صاحب نے قرآن شریف پر لکھ دیا تھا کہ حُسنہ شیخ میری بیوی ہے۔ اس کے گھر سے صرف وہی قرآن شریف چوری ہوا تھا۔ بھٹو صاحب کی پہلی بیگم کے گھر نوڈیرو سے جب زیورات چوری ہوئے تو ایس پی لاڑکانہ پنجل خاں نے ممتاز بھٹو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھٹو صاحب سے کہا: سائیں! چور تو آپ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔
جنرل ضیا الحق نے فوج کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں مولانا مودودی کی تفہیم القرآن بانٹی۔ پھر بھٹو صاحب سے معافی مانگ لی۔
بھٹو صاحب ہر ایک کی بے عزتی کردیتے تھے۔ اسی لیے جب انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا تو ڈاکٹر مبشر حسن، حفیظ پیرزادہ، ملک معراج خالد اور کوثر نیازی وغیرہ جنرل ضیا سے ملتے، تحفظ مانگتے اور اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے۔
جام صادق کو نصرت بھٹو نے باسٹرڈ کہا تو اس نےجواب دیا: اماں آپ نے بجا فرمایا۔
پپو کے قاتلوں کو سرِعام پھانسی اس لیے دی گئی تاکہ بھٹو کی پھانسی کے لیے لوگ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔
جرنیل بھٹو کو مئی جون 1978ء ہی میں پھانسی لگادینا چاہتے تھے۔ اِن کی پھانسی پر جنرل ضیا اور جسٹس انوارالحق متفق تھے۔
جنرل ضیا کی ہدایت پر میں نے لیاقت باغ فائرنگ کیس تیار کررکھا تھا۔ کہ اگر سپریم کورٹ بھٹو کو چھوڑ دے تو پھر اس کیس میں انہیں پھانسی دیدی جائے۔
بدنیتی کا یہ عالم تھا کہ قصاص اور دیت آرڈی ننس پاس ہونے کے باوجود اسے بھٹو کی پھانسی کے بعد نافذ کیا گیا۔
مسعود محمود کو وعدہ معاف گواہ بنانے میں رابطہ کار سیٹھ عابد تھے۔
ضیاء الحق نے خود کو امیرالمومنین بنانے کے لیے ریفرنڈم کا فیصلہ کرلیا تھا۔
کھر نے جنرل ضیا کو پریڈ میں اڑانے کا پروگرام بنایا، سیٹھ عابد نے جا کے جنرل ضیا کو بتادیا اور اپنا سونا واپس لے لیا۔
طاہرہ سید کو کھر نے فون کیا، آپ لندن جارہی ہیں میں بھی لندن جارہا ہوں۔ اس نے جواب دیا: آپ جتنی مرضی کوشش کرلیں میں آپ کے قابو نہیں آسکتی۔
نواز شریف سے پہلے ان کے روحانی باپ جنرل ضیاء الحق نے لفافوں کی تقسیم کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ حاجی صاحب نے بعض ایڈیٹروں کے نام بھی بتائے جنہیں جنرل ضیا میرے بھائی جنرل مجیب کے ہاتھ لفافہ بھیجتے تھے۔
نورجہاں کے فون پر بھی ٹیپ لگائی لیکن جلد ہی ہٹادی، کیونکہ وہ گندی گالیاں نکالتی تھی یا اپنے مخاطب سے کہتی تھی: سوہنیا، من موہنیا۔
ضیاء الحق نے یہ جانتے ہوئے کہ انور شمیم کرپٹ ہے اسے ائرفورس کا چیف بنادیا۔ اس کی بیوی اپنا پرس کراچی بھول گئی۔ پرس لانے کے لیے جہاز خاص طور پر کراچی بھیجا گیا۔
جنرل ضیا کے گورنر پنجاب جنرل جیلانی کو شراب ہلاکو خاں سپلائی کرتا تھا۔
جنرل جہاں زیب ارباب نے ایسٹ پاکستان سے پچاس لاکھ روپے لوٹے تھے۔ جنرل ضیا نے اسے سندھ کا گورنر لگایا تو ایک برمی عورت کے پیچھے لگ گیا۔ اس کے خاوند کو روزانہ پولیس سے جوتے لگواتا۔
ایف کے بندیال جنرل ضیا کے قدموں میں بیٹھ گیا تو جنرل ضیا نے ان کے داماد کو کینیا میں سفیر لگادیا۔
انور سیف اللہ ہیروئن سمگلنگ میں پکڑاگیا تو غلام اسحق خاں اور کلثوم سیف اللہ دونوں اسے چھڑانے کے لیے امریکہ پہنچ گئے۔
سابق ڈائریکٹر انٹیلی جنس و سابق آئی جی پولیس سندھ و پنجاب حاجی حبیب الرحمنٰ نے یہ باتیں منیر احمد منیرکو انٹرویو میں 4226سوالات کے جواب میں کیں ۔ جو ’’کیا کیا نہ دیکھا‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں مکتبہ آتش فشاں لاہور نے شائع کیا ہے۔ ایک ہزار سے زائد صفحات کا یہ انٹرویو شاید اردو میں طویل ترین انٹرویو ہے۔
“