ایک سال بیت گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور سال بیت گیا۔تیز رفتار وقت کا ریلا ہے جو کچھ سوچنے سنبھلنے کا موقعہ نہیں دیتا۔ فیس بک استعمال کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا ویب سائٹ اپنے صارفین کے لئے پچھلے سال کی پوسٹیں دوبارہ یاد دلاتی ہے۔ کوئی چاہے تو اسے پھر شیئر کر لے، ورنہ صرف پڑھ کر ہی لطف اٹھائے۔ چند دنوں سے فیس بک مجھے پچھلے سال کے انہی دنوں کی وہ پوسٹیں یاد دلا رہا ہے، جس میں روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کی لانچنگ کے حوالے سے لکھا گیا۔آج کل یہی سوچ رہا ہوں کہ اس گزرے ایک سال میں کیا کھویا ، کیا پایا؟گزری رات ایسی ہی ایک پوسٹ سامنے آئی تونئے اخبار کے حوالے سے جوش ، ولولے اورکچھ کر دکھانے کی امید سے معمورتحریر دیکھ کر اچھا لگا۔اخبار کی اشاعت سے پہلے کامیابی کی امید اورناکامی کا خوف دونوں ہی آدمی پر وارد ہوتے ہیں۔ ماضی کی طرف دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لئے سوچا کہ کیا ناکامی کا خدشہ غالب ہوا تھا، جواب نفی میں تھا۔ سچ یہی ہے، اگرچہ 92نیوز سے پہلے دو تین اخبارناکام ہوچکے تھے، مگراس نئے اخبارکی مرکزی ٹیم کا حصہ ہونے کے ناتے پوری امید تھی کہ رب تعالیٰ کی رحمت سے ہم کامیاب ہوں گے۔ وجہ صاف تھی۔ ہم نیک نیتی کے ساتھ ایک اچھا، معیاری، مثبت اخبار نکالنا چاہ رہے تھے، جس کا ایک نظریاتی کردار ہو۔ ایسا اخبار جو پرو اسلام، پرو پاکستان اورپرو عوام ہو۔ جو ہماری اخلاقی روایات کا تحفظ کرے، معاشرے کے فیبرک کو بکھرنے سے بچائے اور کرپشن فری سیاست کے لئے اپناکردار ادا کرے۔ الحمداللہ آج ہمارے اخبار کو ایک سال ہوگیا۔ اس ایک سال کے دوران اخبار نے غیر معمولی کامیابی اور پزیرائی حاصل کی۔ سات سٹیشنوں سے یہ شائع ہو رہا ہے، جلد ہی جنوبی پنجاب سے بھی اشاعت ہوجائے گی۔ روزنامہ92نیوز کا نام ذہن میں آتے ہی ایک اپوزیشن کے بھرپور، معیاری اخبار کا تاثرقائم ہوتا ہے، جس نے دربار کی کاسہ لیسی کے بجائے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کیا۔ جس کا ایک واضح نظریاتی تشخص ہے۔جو اپنی متوازن، متین، خصوصی رپورٹنگ، بھرپور ادارتی صفحات اور دلچسپ میگزین صفحات کی بنا پر پہچانا جاتا ہے۔جس نے قلیل مدت کے دوران اردو صحافت میں قابل قدرکنٹری بیوٹ کیا ہے۔
اخبار کی پہلی سالگرہ کے حوالے سے میرے پسندیدہ لکھاری مستنصر حسین تارڑ صاحب نے نہایت خوبصورت کالم لکھا ہے۔ہمارے لئے استاد کا درجہ رکھنے والے جناب سجاد میر نے اسی حوالے سے کالم میں اپنی یاداشتوں کو تازہ کیا۔اوریا مقبول جان نے اچھوتے انداز میں اس پر قلم اٹھایا ہے۔یہ تو صاحب اسلوب لکھنے والے ہیں، جو بھی لکھ دیں، وہ سج جاتا ہے۔ میرے جیسا عام اخبار نویس جس کی یاداشتوں کا توشہ دان عام واقعات سے لبریز ہے، اس میں پڑھنے والوں کے لئے دلچسپی کا حامل کیا ہوسکتا ہے؟ دو تین باتیں البتہ ایسی ہیں جن کا تجربہ مجھے اپنے کالم نگاری کے سفر کے دوران پہلے نہیں ہوا تھا۔
کالم لکھنے والے کے لئے سب سے اہم تخلیقی آزادی ہے۔ چودہ پندرہ برس کالم لکھتے ہو گئے، سچ تو یہ ہے کہ جتنی ادارتی آزادی روزنامہ92نیوز میں ملی، اس کا کبھی تصور تک نہیں کیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے ایک معروف اخبار میں کالم لکھتے ہوئے عجیب وغریب قسم کے سنسر کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سفید بالوں والے سینئر صحافی ہمارے گروپ ایڈیٹر تھے، ان کا بڑا نام اور شہرہ تھا، اب دنیا میں نہیں رہے۔اللہ بخشے ویسے بھلے آدمی تھے، مگر ان کی سوچ کے خلاف کچھ بھی شائع نہیں ہوسکتا تھا۔ انہوں نے لکھنے کی آزادی بالکل سلب کر رکھی تھی۔ پیپلزپارٹی کا دور تھا، جناب زرداری اپنے مخصوص سٹائل سے حکومت فرما رہے تھے۔ ہمارے لئے یہ مسئلہ کہ پیپلزپارٹی کے خلاف کچھ نہیں لکھا جا سکتا۔ اس وقت کے چند اہم ترین ایشوز این آراو، جعلی ڈگریاں، کیری لوگر بل وغیرہ تھے۔ہمیں باقاعدہ بتایا گیا کہ ان میں سے کسی پر تنقید نہیں کرنی۔ حالت یہ ہوگئی کہ این آر او یا جعلی ڈگریوں کے حق میں تو کالم چھپ سکتا تھا، ان پر تنقیدی تحریر شائع ہونا ممکن نہیں تھی۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ ان دنوں تین پاکستانی کھلاڑی سپاٹ فکسنگ کرتے پکڑے گئے۔ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے جانتے تھے کہ جو نو بالز محمد عامر اور آصف نے کرائی ہیں، یہ دانستہ تھیں اور مقصد پیسہ کمانا تھا۔ یہ بات بعد میں ثابت بھی ہو گئی، کھلاڑیوں پر پابندی لگ گئی۔ اس کے باوجود اخبار میں ہم جیسے ان کھلاڑیوں کے خلاف کچھ نہیں لکھ سکتے تھے کہ گروپ ایڈیٹر صاحب کے خیال میں ان لڑکوں نے اگر جوا کھیل بھی لیا تو کون سی” قیامت“ آگئی۔ وہ خود اپنے کالموں میں اسے بھارتی سازش قرار دیتے رہے ، پڑھنے والے یقیناً اس پر مسکراتے ہوں گے۔خیر اس سنسر کا مجھے فائدہ یہ ہوا کہ سیاست سے ہٹ کر کئی اور موضوعات پر لکھنے کی استعداد پیدا ہوگئی ،کبھی سیاست پر لکھنا پڑتا تو بچ بچا کر لکھ ڈالتے۔ سیاسی دور میں بھی مارشل لاءجیسے سنسر میں کام کرنے کی ہمیں تربیت مل گئی۔
روزنامہ 92نیوز میں اپنے سابقہ تمام صحافتی تجربات کے برعکس غیر معمولی ادارتی آزادی سے واسطہ پڑا۔ میں ہفتے میں تین کالم لکھتا ہوں۔ اس اعتبار سے مہینے کے بارہ اور سال کے ڈیڑھ سو کے قریب کالم بن جاتے ہیں۔پچھلے ایک سال کے دوران ایک سطر بھی ایڈٹ نہیں ہوئی، ایک بار بھی گروپ ایڈیٹر نے یہ نہیں کہا کہ اس موضوع پر آپ کالم نہیں لکھ سکتے۔ کبھی پوچھا بھی تو صرف اتنا جواب ملا کہ ذمہ داری اور سلیقے کے ساتھ ہر ایشو پر لکھا جا سکتا ہے۔ جن سینئر کالم نگاروں نے اپنی رائے کا اظہار کیا، ان سب نے اس ادارتی آزادی کا بطور خاص تذکرہ کیا۔ اس کا کریڈٹ ہمارے گروپ ایڈیٹرسید ارشاد احمد عارف کو جاتا ہے ۔ان کی سوچ سے مختلف لکھو ،مخالف لکھو، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اخبار کی ٹاپ مینجمنٹ کو بھی اس حوالے سے کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے ادارتی امور میں مداخلت نہیں کی اور ہر قسم کے دباﺅ کو خو د برداشت کیا۔وہ دباﺅ اخبار کے کارکن صحافیوں تک منتقل نہیں ہونے دیا۔
ذاتی طور پر مجھے دوسرا فائدہ یہ پہنچا کہ سیاسی حوالے سے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ جب بندشیں تھیں، لکھنے پر قدغن تھی،تب کھل کر لکھنا ممکن نہیں تھا۔ اس بار آزادی ملی اور پھر پانامہ سکینڈل کے حوالے
سے بہت اہم دور چل رہا تھا۔ کرپشن اور طاقتور شخصیات کے احتساب کے حوالے سے میرا ایک نقطہ نظر ہے۔ میرے نزدیک حکمرانوں کا بے رحم محاسبہ ہونا چاہیے۔ جنہوں نے ملک وقوم کی دولت لوٹ کر باہر جائیدادیں بنائی ہیں، ان کو کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے۔ کرپٹ مافیاز کو نشانِ عبرت بنانا چاہیے ، تاکہ دوسرے ترغیب نہ لے سکیں۔ان تمام ایشوز پر کھل کر لکھا۔ اداروں کی مضبوطی کا تہہ دل سے حامی ہوں۔ عدلیہ کی آزادی کو ملکی ترقی کے لئے نہایت اہم سمجھتا ہوں۔ یہ بات بار بار نہایت صراحت کے ساتھ لکھی۔ کھل کر پوزیشن لی تو بعض پرانے پڑھنے والوں کو حیرت ہوئی۔ انہوںنے سوال پوچھا کہ آپ نے اپنی غیر جانبدارانہ پوزیشن چھوڑ دی ہے۔ اس پر انہیں سمجھانا پڑا کہ غیر جانبداری کوئی چیزنہیں، اصل بات دیانت داری کے ساتھ اپنی بات کہنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ توازن ہونا ضروری ہے۔ لکھنے والے کسی ایشو پرواضح پوزیشن لے سکتے ہیں، مگر ان پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جس غلطی پر مخالف جماعت کو تنقید کا نشانہ بنائیں، وہی غلطی ان کی پسندیدہ جماعت کرے ، تب اس کا بھی ویسے ہی محاسبہ کریں۔ جو اس اصول کی پاسداری کرے، اسے حق حاصل ہے کہ وہ چاہے واضح پوزیشن لے ، چاہے کسی ایشو پر درمیان کی راہ اپنائے۔
روزنامہ 92 نیوز میں لکھنے کا ایک اور فائدہ یہ ملا کہ متنوع قسم کی ریڈرشپ سے واسطہ پڑا۔ ہمارا اخبار وفاقی دارالحکومت کے ساتھ چاروں صوبائی دارالحکومتوں سے بھی شائع ہو رہا ہے۔ اس لئے چاروں صوبوں کے عوام میں اس کے قارئین ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس کے کالم سب سے زیادہ ڈسکس ہوتے ہیں، اس لئے یہ آن لائن پڑھنے والوں میں مقبول ہے، اوورسیز پاکستانیوں میں بھی بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ اس بڑی اور فعال ریڈرشپ کا فائدہ یہ ملتا ہے کہ تحریر کی رسائی زیادہ دور تک ہوجاتی ہے۔
چھ سال پہلے اپنی ایک تحریر میں واقعہ لکھا، آج 92نیوز کے قارئین سے بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ بنیادی طور پر یہ تجدید عہد ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓجب فتح بیت المقدس کے بعد وہاں پہنچے تو حضرت
خالد بن ولید ؓ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت خالد نے ایک قیمتی لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ فاروق اعظم ؓ نے تیکھی نظروں سے دیکھا اور قدرے سخت لہجے میں بولے، خالد ! تم ہماری زندگی ہی میں بدل گئے؟ خالد بن ولید کہ سیف اللہ کے نام سے مشہور تھے، انہوں نے کمر سے بندھی تلوارنکالی، ہوا میں لہرائی اورمضبوط لہجے میں بولے ”امیر المومنین ، شمشیر وہی ہے۔ “
ہم ان پاکباز ہستیوں کے غلاموں کے غلام، ان کے قدموں کی خاک۔ سفر جاری ہے،ممکن ہے کہیں کوتاہی ہوگئی ہو، مگر شمشیر وہی ہے۔ وہی رہے گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔