سب سے پہلے تو یہ بتاتے چلیں کہ بقیہ کہانیوں کی طرح یہ کہانی بھی ہماری ذاتی زندگی اوراس سے جڑےکچھ پردہ نشین حضرات اوربےپردہ بیبیوں کےگردگھومتی ہے۔ کسی اورفرد یا افراد سےمماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔
اس تنبیہہ کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ آج کل ریٹائرڈ افسروں کا شہرہ ہےاور چونکہ افسروں کےکوائف قریباً ایک دوسرےسے مماثل ہوتے ہیں اس لیے کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارےمغالطے میں کوئی اور شریف النفس افسر لپیٹے میں آجائے۔
’یار یہ دہری شہریت کی بیویاں بڑی ظالم ہوتی ہیں یہ شوہروں کو اپنے ساتھ ملک سے باہر لے جا کر ہی دم لیتی ہیں‘
ہم ہرگز ایک بے تکلفانہ پیرائے میں اسقدر براہِ راست حملے کے لیے تیار نہیں تھے سو ایک ٹُک جنرل صاحب کو دیکھا کیے۔ ہم تو یہاں فوج سے اپنی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست پر فارمیشن کمانڈر کے انٹرویو کے لیے آئے تھے، اپنی اوقات خراب ہوتے دیکھ کر کچھ گڑبڑا سے گئے۔
جنرل صاحب کی بات سچی تھی اور سچ کی چوٹ کھائے قریب قریب ریٹائرڈ میجر کو بات کہنے کا کوئی سرا ہی سجھائی نہیں دے رہا تھا اس لیے وہ بے چارہ منمنا کر رہ گیا۔
سیاق و سباق کے لیے کچھ دن پیچھے جانا پڑے گا۔ سکردو کے ہمسائے گمبہ کی وہ رات اب تک یاد ہے جب ہم نے بیک وقت اپنے سینیئر اور کاکول کے پلاٹون کمانڈری کے دنوں کے دوست (اسوقت کے میجر) شفقت گوندل سے فون پر بات کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ سر قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی وجہ کیا لکھی جائے۔ خدا میجر صاحب کو خوش رکھے انہوں نے کہا کہ بات وہ ہے جو سیدھی کی جائے۔ تم وہی وجہ لکھو جو سچ ہے۔
افسر نےممتاز مفتی کو پڑھ رکھاتھاسومیجر گوندل کی نصیحت کو پلےباندھتے ہوئےبغیر کسی لگی لپٹی کے لکھ دیا کہ افسر کی فیملی دوہری شہریت رکھتی ہےاور ہماری بیٹی کی سکولنگ کےلیے پاکستان سے باہر سکونت اختیار کرنےکافیصلہ کر چکی ہے تو افسر کا بڑا دل ہےکہ وہ بھی بیرون ملک ان کےساتھ جاکر رہے۔
ازراہِ کرم فدوی کو فوج سے برخاست کرتے ہوئے پروانۂ راہداری عطا کیا جاوے،بندہ حضورِ والا کے اقبال کی بلندی کے لیے دعاگو رہے گا۔
ہماری انگریزی کی لاڈ بھری ترکیبوں سے مرصع عرضی کا ڈویژن ہیڈکوارٹر سے ایک دو سطری جواب موصول ہوا۔ سیاچن کی پوسٹنگ پر آنے والوں کو ریٹائرمنٹ ہی یاد آتی ہے۔
افسر کومطلع کیا جاتا ہے کہ دل لگا کر پہلے ہمالیہ کے پہاڑوں میں دو سال کا عرصہ پورا کرے اور اگر تب تک ریٹائرمنٹ کا بھوت نہ اترا ہو تو دوبارہ عرضی ڈالے۔
کچھ مہینےہوچلےتھے کہ ہم سٹاف کالج کےداخلی امتحان میں کامیاب قرار پائےتھےاور اسی سال جولائی کےمہینے میں کوئٹہ ہماری راہ دیکھتاتھا فارمیشن ہیڈکوارٹر کو جب بتایا گیا کہ افسر اگر ریٹائر نہ ہوا تب بھی سیاچن میں دو ماہ سے زیادہ نہیں رہے گا بلکہ کوئٹہ کا مسافر ہوگا تو انہیں بھی ترس آگیا اور تب کچھ ایسا ہوا کہ اسے ایک جینوئن کیس سمجھتے ہوئے ہماری ریٹائرمنٹ کی درخواست بمع ’وجہ‘ پڑھ لی گئی اور اس کا شاخسانہ اس گفتگو کی شکل میں ظہور پذیر ہوا جو کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کے دفتر میں ہوئی اور جس کا ذکر اوپر ہو گزرا۔
ہم اپنی ذاتی سوزوکی مہران کو خود ڈرائیو کرتے ہوئے سکردو سے گلگت کے لگ بھگ آٹھ گھنٹوں کا سفر کرکے آئے تھے کہ فارمیشن کمانڈر سے اپنی عزت کروا سکیں مگر اسقدر ڈائریکٹ حملے کے لیے تیار نہیں تھے۔ صاحبو اگر ایک میجر جنرل ایک میجر سے بے تکلف ہورہا ہو تو یہ سراسر یک طرفہ عمل ہوتا ہے۔ غالباً اسی طرح کی ناپائیدار صورتحال کے لیے اپنے شاعرِ مشرق نے کہا تھا
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کیا عشق پائدار سے نا پائیدار کا
(اللّٰہ تعالیٰ اور شاعرِمشرق اس تحریف پر ہمیں معاف کریں) تو صاحب انشا جی کے فرمان سے پہلو تہی کرتے ہوئے ہم چپ رہے اور خود کو ہنسنے سے باز رکھا۔ جنرل صاحب جب ہمیں سٹاف کالج کے فضائل اور بیرون ملک کی ایک دوسرے درجے کی نوکری کا تقابلی موازنہ ذہن نشین کروا چکے تو گفتگو میں آگےچل کر برسبیل تذکرہ ان کے اپنے بچوں کا ذکر آیا جو بیرونِ ملک تعلیم حاصل کررہے تھے۔ ایک دفعہ تو دل نے بہت اُکسایا کہ منہ پکا کرکے کہہ دو کہ جس رینک میں آپ اپنے بچوں کو بیرونِ ملک پڑھوا سکتے ہیں اس میں سے اگر جنرل کا لاحقہ نکال دیا جائے تو ناچیز کے کندھوں پر بچا چاند تارہ اس خرچے کااسی صورت متحمل ہوسکتا ہےجب وہ خود بیرونِ ملک جاکر نوکری کاکشٹ کاٹے ۔ صاحبو ایک میجر کی تنخواہ کو ایکسچینج ریٹ کے پلڑے میں کسی سبب سے بہلا پھُسلا کر ڈال بھی دیں تو حاصلِ تقسیم میں امریکی سازش ہی نکلتی ہے۔ دیکھیے ہم ایک فوجی ہیڈکوارٹر سے سیاست کی غلام گردش میں نکل گئے تو ہم کہہ رہے تھے کہ یکبارگی تو خیال آیا کہ جی کڑا کرکے دل کی بات کہہ دی جائے مگر دماغ سے آواز آئی کہ میاں ہوش میں آؤ چپ کرکے ہاں میں ہاں ملاؤ تاکہ بعد از ریٹائرمنٹ باعزت طریقے سے پنشن پاؤ۔ تم کونسے مرزا نوشہ ہو کہ صاحب بہادر کی شان میں کوئی قصیدہ بطریق نذر گزرانو گے اور سات پارچے کا خلعت مع جیغہ و سرپیچ و مالائے مروارید برابر وصول کرتے رہو گے (صاحب ہمارا کوئی قصور نہیں ہے، یہ ترکیب اسی پیرائے میں حرف بحرف ہمارے محبوب مصنف یوسفی صاحب نے زرگزشت میں نقل کی ہے۔ خدا گواہ ہے ہم نے تو مکھی پہ مکھی ماری ہے۔)
ویئرڈویوسی یورسیلف ان فایئو ییئرز؟
Where do you see yourself in five years?
اردومیں اس کاترجمہ ہوگاکہ ـ’آپ آئندہ پانچ سالوں میں خودکوکہاں دیکھتےہیں‘
مرشدی وآقائی مشتاق احمد یوسفی نےاپنے بینکنگ کیرئیرکےآغازمیں جوپہلاانٹرویواپنےباس اینڈرسن کودیاتھا اس کی تیاری میں کچھ نامعقول قسم کےبےسروپا سوالوں کےجواب رٹ لیےتھے
جیسےکہ کرکٹ کی گیند کاوزن، مکھی کی ٹانگوں کی تعداد، بلّی کی آنتوں کی لمبائی، کتےکےزبان باہر نکالےرکھنے کی وجہ وغیرہ۔ اس زمانےمیں ضرور ایسےسوال پوچھےجاتےہوں گے۔ فی زمانہ ان سب بےسروپاسوالوں کی مجموعی نحوست کانچوڑ وہ شاہ تاج سوال ہےجس سےہماری اس قسط کاآغازہوتاہے۔ آپ اسے انگریزی میں پوچھ کےدیکھیےیاپھراردومیں، امیدوارپرایک ہی طرح کی بدحواسی طاری ہوگی۔
صاحبومنصوبہ بندی اورارادےکی پختگی اپنی جگہ مگرہم سےجب پہلےپہل یہ سوال پوچھاگیاتوہم کسی نوکری کانہیں اپنی ریٹائرمنٹ کاانٹرویو دے رہے تھے اور ہم سے یہ سوال پوچھنے والے ہمارے فارمیشن کمانڈر تھے جن کی فارمیشن بلکہ فوج سے آؤٹ گوئنگ ہونے کے لیے ہم پر تول رہے تھے۔
ہماری بیگم کی دوہری شہریت اور اس کے لازمی نتیجے میں دیارِ غیر نقل مکانی کی درست پیشنگوئی کے بعد جنرل صاحب نے ہمارے غیر یقینی مستقبل پر یہ دوسری چوٹ کی تھی۔
صحیح صحیح تودرکنار ہم تواس سوال کاغلط جواب دینےکی بھی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔
اگرآپ کابچپن کنچےکھیلتےگزراہےتوآپ اس کھیل سےواقف ہوں گےجسےپنجاب کےدیہاتی دروبام ’کلی جوٹا‘ کےنام سےجانتےہیں۔ گیس دانمبرگیم کی اس بگڑی ہوئی شکل میں ننھےمنےہاتھوں میں جتنے کنچےسماجائیں چُھپاکرپوچھاجاتاہے کلی کہ جوٹا۔ اگرمخاطب جوٹاکہےتومطلب ہےکہ کنچوں کی تعدادجفت عددہے، دوسری صورت کلی میں چھپائی گئی گولیوں کی تعداد کاتخمینہ طاق عددہوتاہے۔ اب کسےمعلوم تھاکہ ہرمن جیت ایک بےمثال گیت لکھ ڈالےگا جسے فلم نکا ذیلدار ٹو میں ایمی ورک سونم باجوہ کے سامنے کچھ لہک اور کچھ جھجھک کر گائے گا کلی جوٹا کھیڈدا اے رب ساڈے نال
ہاڑا جوٹا ای ہووہے
ہمارے ہیرو وِرک کی معصومانہ خواہش ہے کہ چھپا ہوا نمبر جوٹا یعنی جفت ہی ہو تاکہ وہ اور مِس باجوہ جوڑا بن سکیں۔ اس کا جواب سونم باجوہ ایک دلکش من موہ لینے والی مسکراہٹ سے دیتی ہیں تو سارے میں جیسے چانن ہوجاتا ہے۔
گانے میں آگے چل کر کچھ اور بھی غیر شریفانہ مطالبے آئیں گے مگر وہ ہم سے متعلقہ نہیں۔
صاحبو ہم دل پر ہاتھ رکھ کر کہنے کو تیار ہیں کہ ایک غیر شریفانہ صورتحال میں اگر آ پ کو کلی جوٹا کا معصومانہ کھیل کھیلنا پڑجائے اور ایسے میں باجوے آپ کے حریف ہوں تو آخر میں جیت باجووں کی ہی ہوگی۔
2010 کی اس روشن دوپہر گلگت کے کوہساروں سے ڈھکے کمانڈر ایف سی این اے کے دفتر میں صورتحال کچھ کچھ دلچسپ ہوچلی تھی۔ جنرل صاحب کی گپت مٹھی میں ہماری عرضی کے جواب میں کیا تھا، کلی کہ جوٹا وہ اشارہ تک نہیں دے رہے تھے اور ایک مائل بہ ریٹائرمنٹ میجر اب تک سر کی خفی و جلی جنبش سے اتنی مودبانہ ٹھونگیں مار چکا تھا کہ اب توہمیں خود پر ایک ہدُ ہدُ ہونےکا گمان ہوچلا تھا۔ ایک غیر مطمئن حد تک چھائے اس سناٹے میں اس سوال کی بازگشت دوبارہ گونجی۔
ویئر ڈویوسی یورسیلف ان فائیو یئرز
صاحبویہ کوئی سیدھا سادا سوال نہیں تھابلکہ (آج کل کےٹاک شوز کی زبان میں) ایک بیانیہ تھا کہ تم جو سٹاف کالج کی دہلیز کو پہنچی ایک بظاہر کامیاب فوجی زندگی کو لات مار کر جارہے ہو تو باہر جا کر کونسی توپ چلاؤ گے۔ آپس کی بات بتائیں تو تب تک ہماری بھوش وانی کے کینوس پر مستقبل قریب میں چلانے کے لیے کسی توپ کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا، ہاں ہر فیصلہ کن چوراہے پر ڈرائیور سائیڈ کا دروازہ کھولے ایک ٹیکسی ضرور کھڑی تھی۔ اس سے پہلے کہ ہم شیخ چلی کی اس انڈوں کی ٹوکری کی بے توقیری کو طشت از بام کردیں ہم نے توقف کیا۔
صاحبو اکیڈیمی کی اپنے کیڈٹوں پر دان کردہ نعمتوں میں سے ایک پی ایم اے نیم (PMA Name) ہے۔ ہر فوجی کا ایک پی ایم اے نیم ہوتا ہے۔
کل کووہ کیساہی نابغۂ روزگار قابل افسر یہاں تک کہ چیف بھی بن جائےاس کےکورس میٹس نجی محفلوں میں اسےاسی نام سےجانتےاورپکارتےہیں۔ اب اکثر پی ایم اےنیمز ناقابل اشاعت توہوتے ہی ہیں مگرکورس میٹس کی محفلوں سےباہرانہیں افشاکرنامعیوب سمجھاجاتاہے۔ یہ فوجی زندگی کےان لکھےضابطوں میں شامل ہے ہر افسر کا پی ایم اے نیم اس کے ساتھ قبر میں جاتا ہے، ہمارا بھی وہیں جائے گا۔ لیکن ہمارے ساتھ فوجی زندگی میں پیش آنے والے ایک حادثے کے بعد ہونے والا سانحہ یہ بھی ہوا کہ ہم ایک اور نام سےمشہور ہوگئے۔
فرائض کی ادائیگی کےدوران زخمی ہوجانےیاچوٹ آجانے پرایک فوجی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ایٹریبیوٹیبل ٹوآرایگریویٹڈ بائی ملٹری سروس
attributable to or aggravated by military service
ایسی چوٹ جسے پیش آنےیااس کےبڑھ جانےمیں فوجی سروس وجہ رہی ہو۔پاکستان ملٹری اکیڈیمی کےدنوں میں جب ہم پلاٹون کمانڈر تھے، دورانِ ٹریننگ پیش آنےوالےایک حادثےنے ہمارےبائیں گھٹنےکوگھائل کردیاتھا لگ بھگ دوسال مختلف ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے چکر کاٹنے اور دو سرجیکل پروسیجرز کے بعد ہم اٹھنی کی سائز کا میڈیل مینسکس (medial meniscus) کا ایک ٹکڑا ٹوٹ کر گنوانے اور اے سی ایل ٹیئر (ACL tear) کے باعث 25 فیصد ڈس ایبیلیٹی (disability) کے ساتھ مستقل طور پر میڈیکل کیٹیگری ڈاؤن ہوگئے۔
ایک طبی معائنےکےبورڈ نےہمیں انتظامی امورسےمتعلق پوسٹنگ کےلیےموزوں کرتےہوئےہمارے چوکڑیاں بھرتےآپریشنل کیرئیر کےقبل ازوقت خاتمےپرمہرلگادی تھی۔ ہماری پروفیشنل زندگی کوجو جھٹکالگاسولگا سونےپرسہاگہ پی ایم کےپلاٹون کمانڈرزمیں جن میں ہمارےکورس میٹس اورامیجیٹ جونئیرزاورسینیئرز شامل تھے ہمارانام عمران گوڈا مشہورہوگیا۔ جو آج بھی ہےاور جب تک ہم ہیں ہمارےساتھ رہےگا۔
بُرا ہو اس لکھنے کے تسلسل کا کہ گُپت رکھنے والی چیز کا ہم نے خود ہی اشتہار لگا دیا۔ چلیں جو ہواسوہوا اب اگرہمارےپڑھنےوالوں کےذہن میں ہمیں پیش آنےوالےحادثےکےعوامل اوراس کی تفصیل جاننےکاتجسس کلبلارہاہے تووہ ہم نہیں بتائیں گے۔ وہ ہمارےساتھ ہماری قبرمیں جائیں گی۔
ان پیشہ ورانہ اورجذباتی دھچکوں سےہٹ کرہماری زندگی کی شاہراہ میں سست روی کی ایک اورلہر جوداخل ہوئی وہ فزیکل انجری تھی، وہ بھی گھٹنے کی۔ صاحبوگھٹنےکی تکلیف کامسئلہ یہ ہےکہ
جہاں معلوم ہوتی تھی، کمبخت وہیں معلوم ہوتی ہے لیکن جب پاک فوج کےمیڈیکل بورڈکوہماری سٹاف کالج کےداخلی امتحان میں کامیابی کی خبرملی تو انہوں نےیہ جانچنےکےلیےکہ ہم سٹاف کالج کےلیےموزوں ہیں یانہیں ایک بارپھرہمیں طبی معائنے کےلیےبلابھیجا۔ ماروں گُھٹنا پھوٹےآنکھ کےمصداق وہ ’سالے‘ ہمارےمجروح گھٹنےکوہماری دماغی صوابدیدسےملارہےتھے۔
گستاخی معاف اوپرسالےلفظ اس لیے لکھاکہ بہت دل کیا کہ اسی اندازِ تخاطب کا گیئر لگا کر کہیں کہ ’سالو! ہمارا دماغ کیا ہمارے گھٹنے میں ہے‘۔ لیکن صاحب جس رینک سینیارٹی کے افسر وہاں بیٹھے تھے ہم خود ان کے برادرِنسبتی بننے کی بھی استعداد نہیں رکھتے تھے سو خاموشی سے ان کی رائے سنا کیے بورڈنےہمیں سٹاف کالج جانےکااجازت نامہ تھمایاتوجوش خطابت میں ہم نےیہ ضرورکہاکہ ہم جواپنی’میڈیکل کنڈیشن‘کےباوجودپچھلےایک سال سےہمالیہ کےپہاڑوں پرمٹرگشت کررہےہیں اورابھی اس بورڈکےلیےہم نےبراہ راست سکردوسےاجلاس فرمایاہے توکیافاضل بورڈہماری مستقل ڈاؤن میڈیکل کیٹیگری پرنظرِ ثانی کرےگا؟
ہمیں ملنے والا جواب سیدھا اور قطعی تھا ’نہیں‘۔ اور آنے والے وقت میں بھی اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
کچھ لمحے بڑے فیصلہ کُن ہوتے ہیں۔ بہت عرصے سے میں اور مانی جس اندرونی کشمکش کے دودھاری پُل صراط پراٹکے ہوئے تھے میڈیکل بورڈ کے اس ایک فیصلے کی جست سے یکبارگی پار اُتر گئے۔
اللہ بخشے منیر نیازی نے کہا تھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ایک مشکل فیصلے کے دو دھاری پل صراط کے پار اترتے ایک مائل بہ ریٹائرمنٹ میجر کو اس کا آؤٹ گوئنگ باس پوچھ رہا تھا
ویئر ڈو یو سی یورسیلف ان فائیو ییئرز
ہم نے بھی دل ہی دل میں اپنی سابقہ قابلیت کا تخمینہ لگایا کہ جو کچھ فوج میں کیا اتنا یا اس سے تھوڑاکم باہر بھی کر ہی لیں گے۔ دل سے شہ پائی تو ہم گویا ہوئے کہ سر ابھی امیجیٹ تو کچھ نہیں سوچے ہیں مگر ایک دن کسی آرگنائزیشن کے وی پی یا پریذیڈنٹ تو ہو ہی جائیں گے۔
تمسخر کی ایک لہر جنرل صاحب کے چہرے پر نمودار ہوئی اور انہوں نے فوج کا وہ غیر سنجیدہ ٹریڈ مارکفقرہ جس میں کچھ گیندوں کی طرف اشارہ ہے ادا کرتے ہوے کہا۔
کسی کمپنی کا وی پی یا پریذیڈنٹ! مائی . . .
آپس کی بات بتائیں تو جنرل صاحب کی یہ بات بھی سچی تھی۔
فوج چھوڑےہوئےایک دہائی سےاوپر ہوگیااورملک چھوڑےہوئےلگ بھگ نصف دہائی سےزیادہ کا عرصہ۔ ہم ابھی تک کسی کمپنی کےوائس پریذیڈنٹ تودرکنارسینیئر مینیجربھی نہیں لگے۔ لیکن صاحب الحمدللہ جس بےنیازی اورطمانیت سےفوج کی نوکری کی تھی اسی قدر بلکہ اس سےزیادہ فوج اورملک سےباہرکےرنگ اورڈھنگ دیکھے ان سے لطف اندوز ہوئے اور ہورہے ہیں۔ جس بیٹی کی پڑھائی کے اہتمام کے لیےہجرت کا فیصلہ کیا تھا وہ ماشاءاللہ کل ہائی سکول کی گریجویشن سے سرخرو ہو کر اب یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی فضاؤں میں پنکھ پھیلائے اڑنے کو تیار ہے۔ پروردگاراس محفل کی رنگین رونقیں آباد رکھے، جگ جیوندیاں دے میلے۔
اس سارے عرصے میں وطن عزیز میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدل رہا ہے۔ مگر آج سے دس گیارہ سال پہلے کی گلگت کی اس ڈھلتی دوپہر میں جب جنرل صاحب سے کسی کمپنی کے وی پی یا پریذیڈنٹ بننے کی بات ہوئی تھی، ہمیں نہیں پتا تھا کہ ایک مستقبل تمنائی کے التجائی لہجے میں ادا کی گئی اس خواہش اورجواباًایک حاکمانہ بےنیازی سےجھٹک دی گئی اس بات کوآنےوالاوقت ایک دن سچ کردکھائےگا۔ مگرابھی کچھ دیرتھی۔ بساطِ وقت پرکھیلی جانے والی بازی کےپانسےاورنردیں، میرؔ کی زبان میں کچی پڑی تھیں اور گھر ابھی دور تھا
تیں آہ عشق بازی چوپڑ عجب بچھائی
کچی پڑیں ہیں نردیں گھر دور ہے ہمارا
ڈان کی نیپی ابھی ٹھیک جگہ بندھی تھی اور اس کے لیک ہونے میں دیر تھی، آر ٹی ایس کے چال والے پرزے ٹھیک کام کرتے تھے، ایک متبادل تخت اور (جسٹ ان کیس تیار کیے جانے والے) تختے کی وارنش ابھی گیلی تھی، اور ایک کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز ابھی پریذیڈنٹ کی جنبش ابرو کا انتظار کر رہے تھے۔
مگر جیسا کہ ہم نے کہا ابھی کچھ دیر تھی۔ ابھی تو سہیل وڑائچ نے وہ کتاب لکھنا بھی شروع نہیں کی تھی۔
وہ جس کا بھلا سا نام ہے۔
ہاں یاد آیا ’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘
___