۱۹۹۳۔ یہ میرے ایک پرانے دوست اور سابقہ پولیس افسر کی کہانی ہے۔ اُنہیں میں چوہدری صاحب کہوں گا۔
اُس دن میں غلہ منڈی ننکانہ صاحب کے تھڑا ٹائپ ہوٹل پر دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا تو یونیفارم پہنے سائیکل پر ایک پولیس سب انسپکٹر تشریف لائے۔ میرے ساتھ ہی بیٹھ کر اُنہوں نے دال روٹی کا آرڈر دیا۔ کھانا کھایا، ایک پلیٹ دال چنا اور تین روٹیوں کیلئے اٹھارہ روپے بل ادا کیا، سائکل پکڑا اور واپس چلے گئے۔
دل خوش ہو گیا کہ کیسا سادہ بندہ ہے۔ باقی پولیس انسپکٹرز تو کاروں پر آتے جاتے۔ بڑے ہوٹلوں سے کھانا کھاتے لیکن یہ صاحب سائکل پر آئے، تھڑے پر بیٹھے، دال روٹی کھائی اور چلے گئے۔
تب میرے آفس کے بالکل سامنے تھانہ سٹی ننکانہ صاحب ہوتا تھا۔ اگلے دن دوپہر کو دیکھا تو چوہدری صاحب تھانے سامنے سڑک پر کھڑے تھے ۔ مُجھے پہچان کر ملنے آ گئے اور یہاں سے ہماری دوستی کی ابتدا ہوئی۔
ایک دن میں نے اُنہیں پوچھا کہ چوہدری صاحب، باقی پولیس افسران تو بڑی بڑی گاڑیوں میں گُھومتے، مہنگے ہوٹلوں سے کھانا کھاتے لیکن آپ کو کیا مسلہء ہے۔ بولے کہ میں خالصتاً تنخواہ میں رہنے والا بندہ ہوں اور تنخواہ میں بس اتنا ہی ہو سکتا۔
میرا سوال تھا کہ کیا آپ شروع دن سے ہی تنخواہ میں رہتے ہیں یا اب یہ تبدیلی آئی، تو جواب میں اُنہوں نے لمبا سا ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور بولے۔
پہلے بھی میں کوئی ایسا غلط نا تھا لیکن کوئی دو سال پہلے میں شیخوپورہ میں ایک اشتہاری کو پکڑنے گیا ۔
جنوری کا مہینہ، ہلکی بارش اور پو پھٹنے کا وقت تھا۔ ہم چھ لوگ گاڑی دور کھڑی کر کہ پیدل ہی ایک ٹوٹے پھوٹے مکان سامنے جا رُکے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو پانچ چھ سال کی ایک بچی نے دروازہ کھولا اور ہمیں دیکھ کر رونے لگ گئی۔
اتنی سخت سردی میں بچی کے تَن پر چیتھڑے نُما نامُکمل کپڑے، پیروں سے ننگی۔ ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ بخار سے تَپ رہی تھی۔
ہم نے اُسے اپنے مُجرم کا پوچھا تو بولی کہ ابو تو بہت دنوں سے گھر میں نہیں ۔ ہم اسلحہ وغیرہ کی موجودگی کے شک پر اندر داخل ہوئے اور تلاشی شروع کر دی ۔
ایک ہی کمرہ تھا ۔ بلب آن کرنے کا بولا تو پتا چلا چھ ماہ سے بجلی کٹی ہوئی ہے ۔ ٹارچ جلا کر دیکھا تو کمرے میں ایک طرف بغیر کمبل ستر پچھتر سال کی نان سٹاپ کھانستی ایک بُڑھیا ، ساتھ دوسری چارپائی پر پچیس چھبیس سال کی ایک لڑکی اور دو تین سال کے دو بچے ۔ سردی سے بچانے خاطر لڑکی نے اپنا دوپٹہ بچوں پر کرایا ہوا ۔ پوچھا تو پتا چلا کہ لڑکی اور بزرگ خاتون آپس میں ساس بَہو ہیں ۔
تب تک میرے اہلکار اُس کمرے ، چھت ، صحن اور واش روم کی مکمل تلاشی لے چُکے تھے ۔
مجھے کوئی شک ہوا تو میں نے ایک اور پہلو سے خود تلاشی لینا شروع کر دی ۔ ایک ایک جگہ چھان ماری۔ آٹا، دال، نمک، مرچ، گھی، پیاز۔ کوئی ایسا نشان ہی نا ملا کہ اِس گھر میں کبھی کھانے کی کوئی چیز آئی ہو۔ اندازہ لگانے خاطر لڑکی سے پوچھا کہ بہن ۔ ہم بغیر ناشتے کے آئے ہیں۔ ناشتہ کروا دو۔ تو جواب میں ساس بہو دونوں رونے لگ پڑیں ۔ لڑکی بولی کہ گھر میں پانچ سو روپیہ تھا۔ چند دن پہلے یونیفارم میں ایک بندہ آیا اور ڈرا دھمکا کر وہ بھی لے گیا۔ اب دو دِن سے ہم لوگ بھوکے ہیں۔ تینوں بچوں اور امّاں کو شدید بخار ہے ۔ پتا نہیں موت کب آئے گی۔؟
یہ بات سُن کر میں نے اُس بہن کی گود میں موجود بچوں پر غور کیا۔ چھوٹے بچے کو ٹٹولا تو وہ فوت ہو چکا تھا لیکن اُس کی ماں اِس بھیانک حقیقت سے لا علم سردی سے بچانے خاطر اُس پر کپڑا کرائے جا رہی تھی۔ سانس رک جانے سے بچے کا جسم ٹھنڈا ہو چُکا تھا جب کہ ماں سمجھ رہی تھی کہ بچے کا بُخار اتر گیا۔
یہ سب میرے سے دیکھا نا گیا۔ نماز فجر کا ٹائم ختم ہو رہا تھا۔ میں نماز نہیں پڑہا کرتا تھا لیکن اُس دن پتا نہیں مُجھے کیا ہوا۔ اُن لوگوں پر میں نے ایک جوان کی ڈیوٹی لگائی اور خود مسجد میں چلا گیا ۔
آخر میں چوہدری صاحب بولے ۔ وہ دن اور آج کا دن اللّہ پاک سے ہمیشہ دُعا مانگتا ہوں کہ جب مروں تو میرے پیٹ میں حق حلال کے دانے ہوں۔