بیٹا! یہ ایک پیالی گوشت جمال موچی کو دے آوء ۔‘‘ ابّاجان کا حکم سن کر میں حیران ہوا… اس وقت عمر بارہ سال تھی اور میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا… میں نے جواب میں ان سے کہا۔ ’’لیکن ابّاجان… آج تو عید کا دن ہے… ہر گھر میں گوشت موجود ہے… سب لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں گوشت پہنچا رہے ہیں… ہم نے قربانی کی ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے رشتے دار اور دوست اور پڑوسی ہمارے گھر میں گوشت دے دے کر جا رہے ہیں… پھرآپ یہ ایک پیالی سالن اسے کیوں بھیج رہے ہیں۔‘‘
’’بیٹے وہ اکیلا ہے… کوئی آگے نہ پیچھے… اول تو کوئی اسے گوشت دے گا نہیں… کیونکہ اس کے ہاں سے کون سا کسی کو گوشت ملے گا… دوسرے کوئی گوشت دے گابھی تو وہ اسے نہ جانے کب پکائے گا… کم ازکم اس وقت تو اس کے پاس سالن کی صورت میں گوشت ہو گا نہیں۔‘‘ ’’جی اچھا ابّاجان… لائیے… دے آتا ہوں۔‘‘
میں نے پیالی ان سے لے لی اور گھر سے نکل آیا… بازار لوہاراں میں ہماری دکان کے بالکل سامنے سڑک کے کنارے جمال موچی جوتیاں مرمت کرتا تھا… گلی میں ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی، وہ اسی میں رہتا تھا،میں پیالی اٹھائے اس کی کوٹھری کے دروازے پر پہنچا تو وہ چولھے پر ہانڈی رکھے ہوئے نظر آیا… ہانڈی کے نیچے آگ جل رہی تھی اور ہانڈی میں کچھ پک رہا تھا…
میں السلام علیکم کہہ کر اندر داخل ہوا تو اس نے میری طرف دیکھا… اس وقت میں دل ہی دل میں ابّاجان پر اپنا غصّہ اتار چکا تھااور اپنے آپ سے یہ کہہ رہا تھا کہ بلاوجہ انہوں نے ایک پیالی گوشت بھیجا… یہ تو گوشت پکار ہا ہے…
’’آئو بیٹا!‘‘ جما ل نے فوراً کہا: ’’کیا پکا رہے ہیں جمال چچا۔‘‘ بازار کے سب بچے اور بڑے اسے جمال چچا کہتے تھے… ’’بس بیٹا… پکانا کیا ہے،مسور کی دال پکا رہا ہوں۔‘‘ مجھے حیرت کا جھٹکا لگا… میں نے فوراً کہا: ’’جی کیا کہا…دال پکار ہے ہیں… لیکن آج تو عید کادن ہے اور ہر گھر میں گوشت ہی گوشت موجود ہے، سب لوگ گوشت بھون رہے ہیں۔‘‘
’’صبح سے یہ وقت آگیا بیٹا، کسی نے مجھے گوشت نہیں بھیجا، جب میں انتظار کر کر کے تھک گیا تو بازا ر سے دال لے آیا اور اب اسے پکار ہا ہوں۔‘‘ ’’اوہ… اوہ… یہ لیں ابّاجان نے پکا پکایا گوشت آپ کے لیے بھیجا ہے۔‘‘
’’واہ بیٹا واہ… یہ کام کیاہے آپ کے ابّاجان نے… چلو میں بھی عید کے دن گوشت کھا ہی لوں گا… ورنہ یہ حسرت رہتی کہ عید کے دن بھی گوشت نہ کھا سکا.
اچھا جمال چچا… میں چلا، پیالی پھر کسی وقت لے لوں گا۔‘‘ ’’ہوں ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے گھر آکر ابّاجان کو مسور کی دال والی بات بتائی تو ابّاجان کے ساتھ امّی جان اور چھوٹی بہن بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکیں…
امّی جان نے فوراً کہا: ’’تب تو ایک چھوٹی سی پیالی میں ہم نے بہت کم گوشت اسے بھیجا۔‘‘ ’’ہاں بھئی… ایک بڑے برتن میں گوشت اسے دے آو… تاکہ وہ خوب پیٹ بھر کر کھا سکے۔‘‘ ’’جی اچھا۔‘‘
جلد ہی میں دو بارہ جمال چچا کی کو ٹھری میں داخل ہوا۔‘‘ ’’جمال چچا… امّی جان نے یہ گوشت اور آپ کے لیے بھیجا ہے۔‘‘
’’واہ بھئی واہ… مزہ آگیا… چلو اپنی بھی عید ہو گئی۔‘‘ اس نے خوش ہو کر کہا۔
یہ آج سے 58یا 59سال پہلے کا واقعہ ہے، لیکن یہ واقعہ میرے ذہن میں اس طرح چپکا کہ پھر کبھی ذہن سے محو نہ ہو سکا اور خاص طورپر عید قربان کے موقعے پر تو ا س کا ذہن میں تازہ ہونا ایک معمول بن گیا ہے… گھر کے لوگ تمام رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوست احباب کے حصّے لگار ہے ہوتے ہیں، میں اپنے محلے کے غریب ترین چند افرا د کے لیے گوشت الگ کر رہاہوتاہوں…
والد صاحب نے بچپن میں جو گوشت کی پیالی مجھے تھما ئی تھی… اگرچہ مجھے کوئی سبق دینے کے لیے نہیں تھی… اس وقت ان کی یہ سوچ نہیں تھی کہ میرا بیٹا بھی بڑا ہو کر ایسا کرے گا… جی نہیں… ان کے تو ذہن میں بھی یہ بات نہیں تھی… انہوں نے تو ہمدردی کے طورپر جمال موچی کو گوشت کی پیالی بھجوائی تھی، لیکن وہ پیالی میرے لیے ایک سبق بن گئی… ساری زندگی کا سبق، کبھی نہ بھولنے والا سبق، بچپن میں جو بات ذہن میں نقش ہو جائے، پھر وہ نکل نہیں پاتی، اسے کوئی کھرچ کھرچ کر بھی نکالنا چاہے تو بھی نہیں نکلتی… بس وہی پیالی آج بھی میرے دماغ میں موجود ہے… اور آج میں محسوس کرتاہوں…
بچوں کو تربیت دینے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے… ورنہ آج کے دور میں فریجوں نے تو دوسروں کا احساس ہی غصب کر لیا ہے… پہلے ہم یہ سوچ لیتے تھے… فلاں غریب کو گوشت پہنچا دو… فلاں رشتے دارکو پہنچا دو… اتنا گوشت کہاں رکھیں گے… خراب ہو جائے گا، سڑ جائے گا، اس سے یہ کہیں بہتر ہے، دوسروں کو دے دو… وہ کھا تو لیں گے، گوشت کسی کام تو آجائے گا… اب یہ سوچ فریجوں کی مہربانیوں سے اڑنچھو ہو گئی ہے… ہم پہلے اپنا پیٹ نہیں، اپنا فریج بھرتے ہیں…
“