(Last Updated On: )
مزدوری کرکے خون جلاتے ہیں رات دن
’’ دنیا کا بوجھ سر پہ اٹھاتے ہیں رات دن‘‘
پڑھنا تھا گرچہ ہم کو کماتے ہیں رات دن
وہ سبز باغ ہم کو دکھاتے ہیں رات دن
ہم ٹھہرے پا برہنہ جو بچے کسان کے
خود بھوکے رہ کے سب کو کھلاتے ہیں رات دن
وہ دیکھ لیتے کاش ہماری بھی زندگی
اپنے لئے جو شور مچاتے ہیں رات دن
بچے ہیں باغباں کے کسی اور کے نہیں
گلشن میں گُل نئے جو کھلاتے ہیں رات دن
مالک بنایا ہم نے جنھیں تخت و تاج کا
وہ ہم پہ اپنا رعب جماتے ہیں رات دن
کل آئے گا ہمارا بھی آج ان کا وقت ہے
جو انگلیوں پہ ہم کو نچاتے ہیں رات دن
برقی کا کوئی راگ بھی سن لیتے کاش وہ
ڈفلی جو اپنی آپ بچاتے ہیں رات دن