سوال: اگر ہم ایک نوری سال لمبی راڈ بنائیں اور اس کے ایک سرے کو ہلائیں تو دوسرا سرا بھی ہلنے لگے گا- کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس راڈ میں انفارمیشن ایک سرے سے دوسرے سرے تک فوراً یعنی instantaneously منتقل ہو رہی ہے؟ کیا یہ آئن سٹائن کے اس دعوے کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ کوئی انفارمیشن روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے سفر نہیں کر سکتی؟
جواب: کوئی بھی میکانی فورس کسی بھی جسم میں ہمیشہ آواز کی رفتار سے ہی سفر کرتی ہے جو کہ روشنی کی رفتار سے لاکھوں گنا کم ہے- یہی نہیں بلکہ اگر اپ ایک نوری سال لمبی راڈ کے ایک سرے کو ایک میٹر تک دھکیلیں تو یہ حرکت کبھی دوسرے سرے تک پہنچ ہی نہیں پائے گی- اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ راڈ مالیکیولز سے بنی ہے اور مالیکیولز آپس میں ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے ہیں یعنی ان میں friction ہوتی ہے- جب آپ اس راڈ کے ایک سرے کو ہلاتے ہیں تو اپ اس سرے کے مالیکیولز پر قوت صرف کرتے ہیں- یہ مالیکیول اپنی جگہ سے حرکت کرتے ہیں تو اپنے ساتھ جڑے مالیکیولز کو بھی اپنی جگہ سے حرکت پر مجبور کرتے ہیں یعنی اپنے اوپر لگنے والی قوت ہمسایہ مالیکیولز کو منتقل کرتے ہیں- اس عمل میں نہ صرف وقت صرف ہوتا ہے بلکہ یہ قوت ہمسایہ مالیکیولز میں مختلف سمتوں میں لگتی ہے جس وجہ سے ہمسایہ مالیکیولز میں مختلف یعنی random سمتوں میں حرکت ہونے لگتی ہے یعنی ان مالیکیولز کی اوسط حرکی توانائی بڑھ جاتی ہے- مالیکیولز کی حرکی توانائی کا دوسرا نام حرارت ہے- یعنی اس مقام پر راڈ کا درجہِ حرارت بڑھ جاتا ہے- یہ حرارت اس راڈ سے ماحول میں خارج ہونے لگتی ہے جس سے ان سے اگلے مالیکیولز پر صرف ہونے والی میکانی توانائی کچھ کم ہو جاتی ہے-
گویا جیسے جیسے یہ توانائی اس راڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے کی طرف سفر کرتی ہے، اس کا کچھ حصہ ہر لمحے حرارت میں تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اگلے مالیکیول تک پہنچنے والی توانائی مسلسل کم ہوتی جاتی ہے- پہلے سرے سے چند کلومیٹر دور ہی یہ حرکت اتنی کم ہو جائے گی کہ اسے محسوس کرنا بھی ممکن نہیں ہو گا- اگر ہم بالفرض اس راڈ کے ایک سرے کو اتنی زیادہ حرکت دیں کہ اس توانائی کا کچھ حصہ دوسرے سرے تک لازماً پہنچ جائے تو بھی دوسرے سرے تک یہ حرکت فوراً نہیں پہنچے گی- ایک نوری سال کا فاصلہ طے کرنے کے لیے آواز کو کئی لاکھ سال کا عرصہ درکار ہو گا-
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس راڈ میں انفارمیشن نہ صرف روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے سفر نہیں کرتی بلکہ روشنی کی رفتار سے بھی سفر نہیں کرتی- تمام اجسام میں قوت صرف آواز کی رفتار سے سفر کرتی ہے- عام حالات میں ہم جن راڈز کے ساتھ کوئی بھی interaction کرتے ہیں ان کی لمبائی زیادہ سے زیادہ چند میٹرز ہی ہوتی ہے- چند میٹر لمبی راڈ میں بھی جب ایک سرے کو حرکت دی جائے تو اس حرکت کو راڈ کے دوسرے سرے تک پہنچنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے- مختلف دھاتوں میں آواز کی رفتار مختلف ہوتی ہے- ایلومینیم کی بنی راڈ میں آواز کی رفتار تقریباً ساڑھے چھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے- چنانچہ اگر ایلومینیم کی بنی کوئی راڈ ساڑھے چھ میٹر لمبی ہو اور اس کا ایک سرا ہلائیں تو اس حرکت کو راڈ کے دوسرے سرے تک پہنچنے میں تقریباً ایک ملی سیکنڈ درکار ہو گا- انسانی آنکھ اس راڈ کے دونوں سروں کے حرکت کے اوقات میں ایک ملی سیکنڈ کا فرق محسوس کرنے کے قابل نہیں ہے اس لیے عام مشاہدے میں یہی آتا ہے کہ جب ہم راڈ کے ایک سرے کو حرکت دیتے ہیں تو اس کا دوسرا سرا بھی فوراً ہی حرکت کرنے لگتا ہے- تاہم حساس آلات استعمال کر کے تجربات کیے جائیں تو اس فرق کا آسانی سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے-
کچھ لوگ اس سوال کے جواب میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ سوال بے معنی ہے کیونکہ ایک نوری سال لمبی راڈ بنانا ہی ممکن نہیں ہے- لیکن یہ اعتراض درست نہیں ہے- سائنس کے اصولوں کو سمجھنے کے لیے خیالی تجربات یعنی thought experiments کرنا سائنس پڑھانے اور سمجھنے کا ایک مسلمہ طریقہ ہے- آئن سٹائن نے نظریہ اضافت کے بنیادی اصول اسی طرح خیالی تجربات پر غور و فکر کر کے ہی اخذ کیے تھے-